اکیسویں صدی اور ہمارا تعلیمی نظام!

ہم اکیسویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔ہمارے لئے اس صدی میں اسمارٹ موبائل فونز انتہائی اہم ترین جدت ہے۔۔۔آدھے سے زیادہ پاکستان اس ایجاد سے بھرپور طرح سے لطف اندوز ہورہا ہے۔۔۔عمر کی قید سے آزاد یہ ایجادہر ہاتھ کی زینت بنی ہوئی ہے۔۔۔مذکر مونث کی قید سے بھی آزاد ہے۔۔۔سونے پر سوہاگہ تھری جی اور فور جی کنکشن ۔۔۔سماجی میڈیا کی بھرمار۔۔۔فیس بک، ٹوئٹر، گوگل پلس وغیرہ وغیرہ۔۔۔کسی بھی عمل میں قلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔تعلیم کاروبار کہ درجے میں داخل ہو چکا ہے۔۔۔جتنی زیادہ فیس اتنا اسکول میں بھرمار ۔۔۔تعلیم شائد مل جائے مگر تربیت سے عاری ۔۔۔یوں سمجھئے روبوٹ تیار کئے جارہے ہیں۔۔۔جو جذبات سے عاری ہوں۔۔۔جن میں مرنے پر آنکھ مین آنسو نہ ہو اور پیدائش پر کوئی خوشی نہیں۔۔۔

کراچی میٹرک بورڈ کے زیرِ انتظام نویں اور دسویں کہ امتحانات بڑے زور و شور سے جاری ہیں۔۔۔ نقل اور عقل کا معرکا برسرِپیکار ہے۔۔۔بچے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کمرہ امتحان کی جانب رواں دواں ہیں۔۔۔اب وہاں بیٹھ کر کیا کرتے ہیں۔۔۔ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے ہیں۔۔۔یا ایک دوسرے کی امتحانی کاپیاں۔۔۔کچھ کھڑکی سے آنے والی مدد کا انتظار سپاری چباتے یاکھاتے ہوئے کر رہے ہیں۔۔۔کچھ کاپی پر لائن کھینچتے ہوئے وقت کو آگے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔۔۔کچھ دروازے کی جانب دھیان لگائے بیٹھے ہیں کہ پانی پلانے والا وہی آدمی ہے جس نے باہر پان سگریٹ کا خرچہ مانگا تھااور اسے اس شرط پر کچھ دیا تھا کہ کمرہ امتحان میں کچھ مدد فراہم کرو گے۔۔۔کچھ بچوں کی نظریں کمرہ امتحان میں موجود ٹیچر پر لگی ہیں اور یہ ٹٹولنے میں مصروف ہیں کہ ٹیچر سخت ہے یا پھر کچھ آسرا ہوجائے گا۔۔۔ایسا نہیں کہ سب بچے بچیاں انہیں کاموں میں مصروف ہیں۔۔۔کچھ نقل کی عقل رکھتے ہوئے پرچہ حل کرنا شروع کرچکے ہیں۔۔۔اور چند پڑھاکو بچے فقط اپنی عقل وتیاری سے اپنی کاپی کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔۔۔یہ تو ان بچوں کا احوال ہے جنہیں کمرہ امتحان تک رسائی مل گئی ہے۔۔۔یعنی جو بچے دسویں کہ پرچے دے رہے ہیں انکی نویں جماعت کی مارکس شیٹ مل چکی تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے دسویں کہ امتحان تک رسائی پائی۔۔۔

آپ کو یہ جان کر شائد حیرانی ہو کہ ان امتحانوں میں ایک قلیل یا کسیر تعداد ایسے بچوں کی بھی ہے جنہیں آج تک نویں جماعت کی مارکس شیٹ ہی نہیں ملی ۔۔۔اور جب اسکول ِ ہذا سے رابطہ کیا گیا توانہوں نے بورڈ کی راہ دیکھائی ۔۔۔بورڈ رابطہ کرنے پر اسکول کا ذکرِ خیر کیا گیا۔۔۔یعنی اس مسلئے کو دیگر سرکاری مسائل کی طرح فٹبال بنایا گیا۔۔۔اس سلسلے نے اتنی طول پکڑی کہ کچھ بچے اگلے امتحان سے محروم رہ گئے ہیں۔۔۔ان بچوں کا سال ضائع ہوگیا۔۔۔اس سال کی اہمیت اربابِ اختیار کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔۔۔ایسے تھری جی اور فور جی سے کیا فائدہ ۔۔۔جہاں سرکاری ریکارڈ آج بھی بڑے بڑے رجسٹرز میں درج کئے جاتے ہیں۔۔۔جس میں اندارج اور پھر اس میں سے ریکارڈ ڈھونڈنا ایک انتہائی تھکا دینے والا کام ہے۔۔۔پھر سب سے بڑھ کر کاموں کی اہمیت کا کوئی تعین نہیں ہے۔۔۔ذرا غور کریں جن بچوں کے سال ضائع ہوئے ہیں ان پر انکے والدین پر کیا بیتی ہوگی۔۔۔یہ ایک سال انہیں زندگی میں کتنا پیچھے دھکیل دے گا ۔۔۔یہ انکا ذاتی سال نہیں یہ ملک کو بھی ایک سال پیچھے دھکیل دے گا۔۔۔ملک کی فکر کسے ہے۔۔۔کسی کو نہیں۔۔۔

اکیسویں صدی یا ترقی اسمارٹ فون ہاتھ میں لے کر گھومنے کو کہتے ہیں۔۔۔یا سماجی میڈیا پر سب سے زیادہ پسند ہونے کو کہتے ہیں۔۔۔اکیسویں صدی سے مراد ہر فرد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو۔۔۔اپنے حقوق کا علم رکھتا ہو ۔۔۔ان حقوق پر کسی کوقدغن کی اجازت نہ ہو۔۔۔اپنے حقوق کی جنگ بغیر کسی خوف کہ لڑنا جانتا ہو۔۔۔مگر ہمارے اربابِ اختیار ناجانے کب علم کی اہمیت و وقعت سے اشنا ہونگے۔۔۔ایک سال کیلئے سارا بجٹ تعلیم پر صرف کردیں اور ان اداروں میں مخلص اور مہنتی لوگوں کو بھرتی کیا جائے۔۔۔جو حقیقت میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے با خبر ہوں ۔۔۔جو ملک کو روشن مستقبل دینا چاہتے ہوں۔۔۔یہ ہے اکیسویں صدی اور ہمارا تعلیمی نظام۔۔۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 529 Articles with 455479 views Take good care of others who live near you specially... View More