ردِّعمل کے نقصانات

مسلمانوں پر لازم ہے کہ مکی اصولِ نبوی پرکاربندرہ کر ہی کسی عمل یاردّعمل کااظہارکریں

عہد رسالت میں مکی زندگی اور ہندوستان کاموجودہ عہدتقریباً ایک سا ہے ، اس وقت مکے میںبھی مسلمان اقلیت میں تھےاورآج ہندوستان میں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں۔اس وقت بھی ایک طبقہ ایسا تھا جو مسلمانوں کے ستائے جانے کے خلاف تھالیکن اس کے باوجود مسلمان ستائے جارہے تھے اورظلم وستم کا نشانہ بن رہے تھے، آج بھی ہندوستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو مسلمانوں کے ستائے جانے کے خلاف ہے اس کے باوجود آج بھی مسلمان ستائے جارہے ہیں اور مشق ستم بنے ہوئے ہیں۔ساتھ ہی اس وقت بھی اکثریتی طبقے کی ایک جماعت بے قصور مسلمانو ںکی جان لینے کو اپنامذہبی فریضہ سمجھ رہی تھی اور آج ہندوستان میں بھی اکثریتی طبقے کی ایک جماعت بے قصورمسلمانوں کوجان سےماردینااپنامذہبی فریضہ سمجھتی ہے،نیزاُس وقت بھی مسلمان چاہ کربھی کچھ کرنے سےبے بس و عاجز تھے اور آج ہندوستان میں بھی مسلمان چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔

اگرچہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ،اور اس ملک میں ہرکسی کواپنے اپنےمذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہےلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اقلیتی طبقے کو بہت سارے مذہبی معاملات میں اکثریتی طبقہ کی مخالفت کاسامناکرناپڑتاہے،اورحکومت میں ہرطرح کی حصے داری کے مواقع اورحقوق کے باوجود مسلمانوںکی حالت انتہائی ابترہے ۔غرض کہ جس طرح ملکی ومعاشرتی سطح پرمکی عہدنبوی میںمسلمانوںکوزبانی اورجسمانی دقتوں کا سامناتھااسی طرح آج ہندوستان میں بھی مسلمانوںکو زبانی وتحریری،اورجانی ومالی پریشانیوںکاسامنا کرپڑرہا ہے۔

مثال کے طورپر مکے میں اکثریتی طبقےسے تعلق رکھنے والے ابوجہل وابولہب کی شکل میں ایسے افراد موجودتھے جو نہ صرف مسلمانوں کو برابھلاکہتے اور گالی بکتے تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نازیباکلمات کہنے سے نہیں چوکتے تھے،اسی طرح آج ہندوستان میں اکثریتی طبقہ کاکوئی نہ کوئی فرد کسی نہ کسی بہانے مسلمانوںاوراُن کے دین کے خلاف طوفانِ بدتمیزی بپاکرتا رہتا ہے،جس طرح مکے میں حضرت بلال، حضرت خبیب، حضرت عمار وغیرہ کو تپتےریت اورجلتے ہوئے کوئلے پر پیٹھ کے بل لٹادیا جاتا تھا اوربی بی سمیہ جیسی بہادر خاتون کےزیر ناف خنجر گھونپ کر ہلاک کردیاجاتاتھااسی طرح آج بھی مسلم جوانوں کو انکاؤنٹر میں ماردیاجاتاہے،اورجرم ثابت ہوئے بغیرنہ صرف جیلوں میں سڑادیاجاتاہے بلکہ پولیس کی حراست سے چھین کر بڑی بے دردی کے ساتھ ان کی جان بھی لے لی جاتی ہے اور فسادات کی آڑ میں مال ودولت اور صنعت وحرفت تک کوتباہ وبربادکردیاجاتاہے ، جس طرح مکے میں مسلمانوں کو نیست ونابود کردینے کے لیے میٹنگیں کی جاتی تھیںاوران کےخلاف سازشیں رچی جاتی تھیں اسی طرح آج بھی مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی پلاننگ کی جاتی ہے اوراُن کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات سے کیسے مقابلہ کیاجائے اور کون سا طریقہ اختیار کیاجائے جس سے مسلمانوں کی جان ومال ، عزت وآبرو،اور اُن کے خلاف کی جانے والی سازشوںپر قابوپایاجاسکے ؟

میرےخیال میں اس کے لیےنہ اِدھر اُدھر بھٹکنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جذباتی ہونے کی،بلکہ صرف اورصرف قرآن وسنت سے اپنارشتہ مضبوط ومستحکم کرنا ہوگا،صبروضبط اورتحمل وبردباری سے کام لیناہوگااور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میںاپنائی گئی حکمت عملی کی مدد سےمسلمانوں کواپنی منزل تلاش کرنی ہوگی،یعنی تمام مسلمان ایک امیرکے ماتحت ہوں،اپنے حسن اخلاق سے ایک پُرامن معاشرے کی تعمیروتشکیل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں،اورتقابلی عمل سے بالخصوص دوری اختیار کریں۔
مثال کے طورپر اگرکوئی مسلمانوں کی مخالفت کررہاہے،یا اُنھیںسب و شتم اور لعن وطعن کررہا ہے،تو ایسے عالم میںنہ ہی غمگین ہونے کی ضرورت ہےاورنہ ہی دل برداشتہ ہونے کی ،بلکہ انبیاومرسلین اور ان کی اُمتوںکے قصوں کوپڑھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے ،تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ انھوںنے کس طرح صبروضبط سے کام لیااور بدلے میں انھیں اللہ کی نصرت وحمایت حاصل ہوگئی۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے : تم سے پہلے بھی انبیا ومرسلین کو جھٹلایاگیا اُنھوں نے کفارومشرکین کے جھٹلانے پرصبر کیا،اور تکلیف برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ ہماری مددآپہنچی۔(انعام:۳۴)

لیکن مسلمانوں کاحال یہ ہے کہ صبروضبط سے کام لینے کے بجائےوہ دفاعی حملے اورانتقامی کارروائی میں لگ جاتے ہیں، اور بحث ومباحثے میں اپنی ساری توانائی خرچ کرنے لگتے ہیں،جب کہ ایک امن پسندمعاشرے کی فراہمی نہ صرف مسلمانوں کی ملکی ذمے داری ہے بلکہ یہ ان کی مذہبی ذمے داری بھی ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشادہے :جب تم ان لوگوںکوہماری آیات(اللہ،رسول اوراسلام) کی برائیاں کرتے دیکھو تو اُن سےدور ہوجاؤ ، یہاں تک کہ وہ دوسری باتوںمیں مشغول ہوجائیں۔ (انعام:۶۸)

ایک بار حضرت طفیل بن عمرو دوسی بارگاہِ نبوی میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! قبیلۂ دوس نے مجھے ہرادیا، آپ ان کے لیے بد دعا فرمادیں۔

لیکن یہ سن کر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کے بجائے ان کے حق میں یہ دعا فرمائی :یا اللہ! قبیلۂ دوس کو ہدایت عطافرما۔( سیرت ابن ہشام)

شعب ابی طالب جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دانہ پانی بندکردیاگیاتھا،طائف جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہ صرف اوباش لڑکوں کو لگایاگیابلکہ اس قدر پتھربرسائے گئے کہ قدم مبارک لہولہان ہوگیا،جب نماز کی حالت میں ہوتے تو گلے میںپھنداڈال دیاجاتا اورجسم اطہرپر اوجھڑی جیسی غلیظ چیزیں ڈال دی جاتی تھیں۔

ایسے حالات میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےصبروضبط سے کام لیا،دشمنوںکے لیے ہدایت کی دعا فرمائی اور کسی بھی طرح کی انتقامی یا جوابی حملے سے بہرحال پرہیز کرتے رہے۔لہٰذاآج جب دشمنوںکی جانب سے مسلمانوںکوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اُن پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی صبروضبط سے کام لیں ، تحمل وبردباری اختیارکریں،اسوۂ حسنہ کا نمونہ پیش کریںاورکسی بھی طرح کی جوابی کارروائی اورانتقامی جذبے کے اظہارسے بہرحال بچیں۔

کیوںکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مسلمان بھائی کاردّعمل دوسرے مسلمان بھائی کی ہلاکت کی وجہ بن جائے، اس لیے قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے قانون کے سہارے اپنے حقوق کی بازیافت کی جائے،اوربالخصوص علم وایمان کے جامع ہونے کے ساتھ موجودہ دورمیں مسلمانوں کی ترقی کے جو اسباب ہوسکتے ہیں ان پرہمیشہ توجہ مرکوزرکھیں ۔

مکی عہدمیں ایک دوروہ آیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قتل کی سازش رچی گئی،مگر اِس حقیقت سے آگاہی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کوئی جوابی کارروائی فرمائی اورنہ اس کے خلاف کوئی مورچہ کھولا ،بلکہ بڑی خاموشی سے ہجرت کی راہ اختیارفرمالی، اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد بھی جب منافقوں نے منافقت کی تو اُن کی منافقت جاننے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف نہ توکسی ردّ عمل کااظہارفرمایااورنہ ہی کوئی ایکشن لیا،بلکہ ہمیشہ مقصد کی تکمیل میںمصروف رہے۔

چنانچہ ایسے مواقع پرمسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ دشمنوں کی سازشوںاوراُن کے مکروفریب کےجال میںنہ الجھتےہوئے اپنے مقصدحیات کے حصول میں لگےرہیں ،اورصبروتوکل کو اپناشعاربنائے رکھیں،یعنی اپناجینامرناسب کچھ اللہ کے حوالے کردیں اورہرحال میں اللہ کی رضا میں راضی رہیں ،کیوںکہ یہی متقین اور محسنین کا طریقہ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے: صبرکرو،اس لیے کہ تمہارا صبر کرنا اللہ ہی پربھروسہ کرناہے،کفارومشرکین کی وجہ سے نہ غم زدہ ہو،اورنہ اُن کے مکروفریب کی وجہ سے تنگی محسوس کرو،یقیناً اللہ متقیوں اور محسنین کے ساتھ ہے۔(نحل:۱۲۸)

یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحاب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے صبروضبط اورتحمل وبردباری کو اپناشعاربنایا،یہ ان کی کمزوری،کم ہمتی یا بزدلی نہیں تھی بلکہ یہ ان کی بلندہمتی اور ایمانی غیرت تھی ،کیوں کہ صبروضبط وہی کرتا ہے جو بلندہمت اور بہادرہوتاہے ،اورکسی کی اینٹ کاجواب پتھر سے دینے کا ہنرجانتاہے،پھر بھی ردّعمل کے طورپر کوئی ایکشن نہیں لیتا،اس لیے کہ اس کو اپنا مشن اورمقصد سب سے زیادہ پیارا ہوتاہے۔اسی طرح آج مسلمانان ہند اگر اپنے دشمنوں کی جانب سےدی جانے والی اذیتوں ،مصیبتوں پر صبروضبط اور تحمل اختیار کرتےہیں تو یہ اُن کی اعلی ظرفی،بلندہمتی اور عظیم ہونے کا ثبوت ہے۔

ایک مرتبہ کفارکے مجبور کرنے پر حضرت عمارنے کفریہ کلمہ کہااور معبودان باطلہ کو خیر کے ساتھ یادکیا، چنانچہ حضرت عمار خود ہی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور اِس بات کاذکرکیا۔

یہ سن کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے قلب کا کیاحال ہے؟حضرت عمارنے جواب دیاکہ دل توایمان پرجماہواہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرکفارکلمۂ کفربولنے پر مجبورکریںتوپھر بول دینا۔(سنن بیہقی)
چنانچہ آج مسلمانوں پر لازم ہے کہ مکی اصولِ نبوی پرکاربندرہ کر ہی کوئی عمل یاردعمل کااظہارکریں تاکہ دشمنان ملک وملت کو کوئی موقع نہ مل سکےکہ وہ مسلمانوں کے کسی عمل یاردعمل کو بنیادبناکراسلام ومسلمان کے خلاف کوئی قدم اٹھاسکیں۔اس سے نہ صرف انفرادی طورپر مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرومحفوظ رہے گی بلکہ دامن اسلام پر بھی کوئی داغ دھبہ نہ لگ سکے گا۔(ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ الہ آباد)
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 56464 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More