کچھ لوگ قابل توجہ ہوتے ہیں ،یہی
لوگ قابلِ رحم بھی ہوتے ہیں قابل ِ مرمّت بھی۔جس طرح کتا نکالے بغیرکنواں
پاک نہیں ہوتا ،کینسر زدہ حصہ کاٹے بنا کامل صحت نہیں ملتی،مصائب سہے
سوامنزل کا خواب ،خوابِ خرگوش ہی رہتا ہے۔ بعینہ ریاست کے بطن سے ’’فاضل
مواد‘‘ نکالے بغیر ،کسی اصلاح وترقی کی امید جھوٹی تسلی کے سواکچھ نہیں۔جب
پیٹ میں بچہ آجائے تو مُٹیار کی چال بھی دھیمی ہو جاتی ہے۔ایک طرف ہم ایٹمی
طاقت ہیں،دوسری جانب ہمارے ہاتھوں میں اتنا بڑا ’’ٹھوٹھا‘‘ ہے جس میں ہر
قسم اور ہر سطح کی امداد سما جاتی ہے۔ کہیں سے’’ ٹھُٹھ‘‘ دکھا دیا جائے،تو
بھی ’’ٹھوٹھے‘‘ کی صحت کو فرق نہیں پڑتا کہ ڈالر ،پونڈ،درہم،دینار،ریال، سب
کا’’اشتراک واخلاص ‘‘کافی حوصلہ افزا رہتا ہے۔ تاہم تعلیمی اور انتظامی سطح
پر اس امداد نے قومی حریت کو خاصا مفلوج کردیا ہے۔امریکہ ،برطانیہ،ترکی ،ایران،
سعودی عرب وغیرہ ہمارے بجٹ پر (واضح اور خفیہ) خطیر رقم کیوں خرچ کرتے
ہیں؟کیا اس لئے نہیں کہ اُن کی مرضی کے نتائج مرتب ہو سکیں؟کیا ہم بیرونی
امداد کے بل بوتے اپنی ہی نسلوں کے خون سے ہاتھ نہیں رنگ چُکے؟
مور اپنے پروں کی رنگینی پر بڑا فخر کرتا ہے مگر اپنے پاؤں کسی دوسرے کو
دکھاناتو دور رہا ،خود بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔اگر ہمیں رفعت ،عظمت،سرفرازی
،کامیابی، اور شفافیت درکار ہے تو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شفاف معاشروں کی
بَنت کیا ہے۔عظیم قوموں کی ترجیحات کیا ہیں۔ہیروز کیسے ہوتے ہیں ۔مغرب میں
لوگ ٹیکس دیتے ہیں ، ہم اُن پیسوں سے حج کر آتے ہیں۔وہ قومی واجبات کی
ادائیگی بروقت کرتے ہیں ،ہم قربانی کے جانور خرید لیتے ہیں۔اُن کے ہاں دودھ
کی بوتلیں اور انڈوں کے کریٹ دروازے کے باہر رکھے رہتے ہیں اور کوئی چوری
نہیں کرتا،ہمارے ہاں پانی کی سبیل کے ساتھ رکھے گلاس کو بھی زنجیر سے باندھ
کر رکھاجاتاہے۔مسجد سے جوتے چوری ہوجاتے ہیں۔وہ دن بھر دفاتر میں دیانت
داری سے کام کرتے ہیں ،ہم دیر سے دفتر پہنچتے ہیں۔چائے پیتے ہیں،پھر نماز
کا وقفہ ہوتا ہے ۔اور ہم ایسے غائب ہوتے ہیں کہ اگلے روز لوٹتے ہیں۔اُ ن کے
تعلیمی میدان ڈاکٹر ، انجینئر ،اور فلاسفر پیدا کرتے ہیں ،مشینیں بناتے ہیں
،نئی نئی راہیں تراشتے ہیں ،جبکہ ہمارا علم و ہنر کپڑے بُننے،اینٹیں بنانے
،اور چمڑا سُکھانے تک محدود ہو گیا ہے۔ہمیں اپنی ادبی روایات پہ بڑا ناز ہے
،مگر ادب کا ایک نوبل انعام آج تک ہمیں نہیں ملا۔ہم دنیا کی امامت کرنے چل
پڑتے ہیں ،جبکہ ہماری جمہوری اور منتخب حکومتوں کو اپنی میعاد پوری کرنے کے
لالے پڑے رہتے ہیں۔ہمیں اسلامی دنیا سے رشتوں پربڑاناز ہے ،مگر اسلامی دنیا
والے ہمارا بنایا ہُوا کپڑا تک نہیں خریدتے۔ہمارے ورکروں کے ساتھ غلاموں
جیسا سلوک کرتے ہیں ۔انہیں شہریت نہیں ملتی۔روزگار نہیں ملتا۔ مل بھی جائے
تو نصف ’’ کفیل‘‘ کا ہوتا ہے۔چند خاندان اور حکمران ’’عالَمِ اسلام‘‘ کے
نام پر ،جبکہ بعض ’’چادرِ زہراء‘‘ کے سہارے، مسلمان قوم کے ’’مامے چاچے
‘‘بنے پھرتے ہیں۔
ہماری کھوپڑی میں مغز ہو نہ ہو جیب میں’’کافری‘‘ اور ’’غداری‘‘کا فتویٰ
ضرور ہوتا ہے۔ ہم تخریب میں تعمیر ، احتجاج میں علاج ، اور بربادی میں
آبادی ڈھونڈتے ہیں۔ہمارے ہاں کوئی نظریاتی جماعت نہیں ،مفاد پرستوں کے ٹولے
ہیں جنہوں نے دھڑے بندیوں کو نظریاتی گروپ قرار دے رکھا ہے۔
کسی نے دین کے نام پہ نظریاتی پن کا مظاہرہ کیا ،اور دولت جمع کرلی۔کالم
نگار پلازے کھڑے کرنے لگے۔کوئی مسلم لیگ کوچھابڑی میں رکھ کر فروخت کرتا
رہا ۔کوئی پی پی پی کو عوام کی حقیقی نظریاتی ’’ماں‘‘ قرار دیتا رہا۔واضح
رہے ابلیس کو اُس کے نظریہ ٔ برتری نے ہی رُسوا کیا۔ابو جہل کو بھی اس کے
نظریاتی تشدد نے گمراہ کیا۔
وطن عزیز جب سے قائم ہُوا ، بیرونی طاقتوں کے زیرِاثر رہا۔وجہ بتلائی گئی
ہم غریب ہیں۔غربت میں کچھ تنگی تو ہوتی ہے مگر زندگی بسر ہوجاتی ہے۔ چادر
کے مطابق پاؤں پھیلائے جائیں تویہ مشکل بھی پیش نہیں آتی۔بس ذرا حرص وہوس
سے دور رہنا پڑتا ہے۔بندہ اگر صابر و شاکر ہو تو اﷲ توفیق بھی دے دیتا
ہے(دین غریبوں سے شروع ہُوا، انہی میں لوٹ جائے گا۔خوشخبری ہے غُرباء کے
لیے)۔دھن دولت کی زندگی میں راحت و آرام بہت، مگر عزت و آبرو اتنی ہی کم۔
جوں ہی جھولی پھیلتی ہے اور اس میں چند ٹکے گرتے ہیں،ساتھ ہی بہت کچھ کھو
جاتا ہے۔عزّت ِ نفس ،غیرت، حمیت ،اور دینے والے کا تحقیر آمیز رویہّ؟
پھر فرد کی ذلّت اُس تک محدود رہتی ہے جبکہ قوم وملّت کی ’’عزت افزائی ‘‘
کیسے ہوتی ہے یہ کسی ’’برادر اسلامی ملک ‘‘ آنے جانے والے سے پوچھ
دیکھیے۔قاہرہ، ریاض،انقرہ،صنعا،دمشق،جدہ ،استنبول،کابل ،تہران،بصرہ،
قطر،بغداد ،مسقط،کویت،اردن،لبنان ، اور ابوظہبی کے ہوائی اڈوں پہ گرین
کارڈحاملین کو ’’اسلامی رشتۂ اخوت ومحبت ‘‘ خوب آبرو بخشتا ہے۔ایسے جھِڑکے
اور جھَٹکے دیئے جاتے ہیں کہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔کج روی،نا اہلی ،عقل
ودانش کا دیوالیہ پن ۔ ’’ بھاگ ان بردہ فروشوں سے ،کہاں کے بھائی۔‘‘
بھٹو کا دور تھا، لاہور کے گورنر ہاؤس میں علماء اور سینئرصحافی جمع
تھے۔بھٹو نے اُنہیں مدعو کرر کھا تھا۔دوران گفتگو شورش کاشمیری مرحوم کے
کندھے پر ہاتھ رکھ کے بھٹو صاحب بولے ’’ شورش ! اِنہیں بتاؤ ، تم میرے
بھائی ہو‘‘آغا جی نے اپنی گردن پہ ہاتھ پھیرا ،اور بولے ــ’’میں نے جب سے
حضرت ِ یوسف ؑـ کاواقعہ پڑھا ہے،کسی کو بھائی کہنا ہی چھوڑ دیا ہے‘‘۔
پاکستان الحمد ﷲ ایک طاقت ہے۔لہو لہو،ریزہ ریزہ،اور زخموں سے چور۔بفضلِ
تعالیٰ پھر بھی کسی شیر اور شاہین سے کم نہیں۔ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج
ہے۔دنیا ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کے ہماری جانب دیکھتی ہے۔سڑسٹھ سالہ لوٹ مار
بھی اس کا بال بیکا نہیں کرسکی۔شومئی قسمت کہ کوئی مدبر ،دلیر،اور فیصلوں
کی صلاحیت رکھنے والاحکمران نہ ملا۔راجہ رینٹل ٹائپ ’’مہربانوں‘‘اور سید
مشرف جیسے ’’قائدین‘‘نے ہی سانس نہ لینے دیا۔یہی لوگ ہیں جو قابل توجہ
ہیں۔اور قابل مرمت بھی۔یہ جب بھی آتے ہیں نئے لگتے ہیں مگر نکلتے پُرانے
ہیں۔ بس قوم کا حافظہ کچھ کمزور ہے۔ مشتاق احمد یوسفی ؔنے کہا تھا ’’ہم نے
غالبؔ کو جب بھی پڑھا،وہ ہر دفعہ نیا لگا،یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ
ہمارا حافظہ کمزور ہے‘‘۔
جو دیکھتا ہوں ،وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا ،سب سے بڑا فسادی ہوں |