کیا تم انسان ہو

میں بس سٹاپ پہ کھڑا تھا۔ آپ کے خیال سے بس سٹاپ اسے کہتے ہیں جہاں لوگو ں کا ہجوم ہواور جہاں گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہوں اور جہاں ہارنوں کا شور ہو۔لیکن یہ میرے گاؤں کا بس سٹاپ تھا جہاں لوگ تو ہوتے لیکن گاڑی نہیں ہوتی ،جہاں شور تو ہوتا لیکن گاڑی کا نہیں بلکہ بچوں کے بلبلانے کا جو گھنٹوں سے کھڑے گاڑی کا انتظار کرتے مگر گاڑی ہے کہ نام ہی نہ لیتی آنے کا۔اگر کبھی کبھار کوئی گاڑی آ بھی جاتی تو وہ بھی مسافروں سے ایسے بھری ہوتی جیسے مسافروں کو ٹھوس ٹھوس کر ڈالا ہواور کھبی کھبار ہی کوئی ایک دو مسافر کے لیے ہی سیٹ خالی ہوتی اور باقی کی قسمت میں صرف انتظار ہوتا۔ اسی لیے جب بھی مسافر دور سے گاڑی کا ہارن سنتے یا گاڑی کو آتا دیکھتے تو بھاگ کر سڑک کے کنارے جاتے تا کہ گاڑی میں داخل ہو سکیں مگر گاڑی میں وہی داخل ہو سکتا تھا جس کے بازوں میں دم ہوتا اور جو لوگو ں کو دھکیل سکتاہو۔اس لیے گالی گلوچ، دھکم پیل اور لڑائی جھگڑا وہاں کا روزانہ کا معمول ہوتا۔

اور میرے گاؤں کا بس سٹاپ بھی ایسا جہاں نہ کوئی بیٹھنے کی جگہ،نہ پینے کا پانی اور نہ ہی کوئی سایہ دار جگہ جہاں لوگ آرام سے بیٹھ کرگاڑی کا انتظار کر سکیں بلکہ لوگ گرمی کی شدت میں دھوپ میں کھڑے ہو کر گاڑی کا انتظار کرتے اور پسینہ سے شرابور ہوتے۔

ایسی صورت میں ملک کے حکمرانوں کو عوام کا خیال آئے نہ آئے مگر اﷲ کو ان پر ترس ضرور آیا کیونکہ اسی سڑک کے کنارے کے کچھ دور فاصلے پر ایک بہت بڑا درخت تھا جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر لوگ گاڑی کا انتظار کرتے اور ایک دوسر ے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہتے۔

اسی گرمی کی شدت میں سڑک کے ایک کنارے درخت کی چھاؤں میں اک کھڑا میں اور دوسری طرف سڑک کے کنارے چہرے پرجھریاں ، آنکھوں میں نمی، لبوں پہ اداسی اور دل میں انتظار لیے دھوپ میں کھڑا وہ بوڑھا شخص تھا جسے میں آج تک نہیں بھولا ۔شاید بھولاناچاہتا تھالیکن بھولا نہیں پایا۔ وہ بھی ہماری طرح گاڑی کا انتظار کر رہا تھالیکن وہ سڑک کے کنارے دھوپ میں کھڑے ہو کراور ہم چھاؤں میں بیٹھ کر۔

وہ بوڑھا شخص سڑک کے کنارے دھوپ میں کھڑا تھا اور پسینہ سے شرابور تھا میں سوچ رہا تھا کہ سبی لوگ یہاں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ہیں اور وہ اکیلا وہاں اتنی سخت دھوپ میں کھڑا ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ بابا جی کو بھی چھاؤں میں لے آؤں میں یہی سوچ کر با بے کے پاس گیا اور کہا کہ بابا آپ اتنی گرمی کی شدت میں کھڑے ہیں آئییں چھاؤں میں بیٹھتے ہیں۔

بابا بولا: بیٹا مجھے شہر جانا ہے۔ شہر! شہر تو ہمیں بھی جانا ہے لیکن ابھی گاڑی نہیں آئی ۔
بابا بولا: ہاں معلوم ہے کہ گاڑی نہیں آئی لیکن میں انتظار کر رہا ہوں۔ انتظار! انتظار تو میں بھی کر رہا ہوں وہاں چھاؤں میں بیٹھ کر لیکن آپ دھوپ میں۔وہ کیوں؟
بابا بولا: وہ اس لیے کہ تم نوجوان ہو اس لیے لیکن میں بوڑھا ہوں اس لیے میرا یہاں انتظار کرنا بہتر ہے۔وہ مایوسی سے بولا۔
میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا مطلب کہ آپ کا یہاں انتظار کرنا بہتر اور ہمارا وہاں انتظار کرنا بہتر۔
بابا بولا: جس دن یہاں سے انسان شہر جائیں گے تب میرا وہاں چھاؤں میں بیٹھ کر انتظار کرنا بہتر ہے اب نہیں۔
میں نے حیرت سے پوچھا انسان۔۔۔۔۔۔
وہ غم زدہ ھے لہجے سے بولاکہ جب گاڑی آئے گی تو سمجھ جاؤ گے۔
میں نے پھر اصرار کیا کہ آپ ہمارے ساتھ چلے وہاں چھاؤں میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
بابا سخت لہجے سے بولا کہ دور ہو جاؤ مجھ سے اور مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔ تم اب جاؤ مجھے انتظار کرنا ہے۔

میں واپس درخت کی طرف چل دیا اور پھر مڑ کر کہنے کو جی چاہا ہی تھا کہ بابا نے حیرت بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھا تو میرے تمام لفظ منہ کے اندر ہی رہ گئے اور میں چاہ کر بھی کچھ نہ کہ پایا اور دوبارہ درخت کی چھاؤں میں جا کر بیٹھ گیا۔

بیٹھتے ہی بابا کی کہی ہوئی باتیں میرے ذہن میں آگ کی طرح بھڑکنے لگی اور میں سوچ کی تاریخ خلاؤں میں سفر کرنے لگامگر سوچ کے تمام پہلوؤں نے جواب دینا شروع کردیا اور میں کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔

پھر میں نے حیرت سے بابے کی طرف دیکھا وہ اب بھی وہی کھڑا تھامگر گاڑی تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔وہ کافی دیر سے کھڑا تھا مگر اب اس کی ٹانگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن دل شاید ابھی بھی اس کے ساتھ تھا۔ آخر کار وہ کافی دیر کھڑا رہنے کے بعد تھک چکا تھا اور اب اس کی ٹانگوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کچھ دیر اور کھڑا رہے سکے اور گاڑی کا وہاں کھڑے ہو کر انتظار کر سکے۔اب وہ مایوسی سے درخت کی جانب بڑھنے لگا اور میرے کچھ دور فاصلے پر آ کر درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیامگر وہ مایوسی سے اسی جگہ کو دیکھتا رہا جہاں سے چل کر آیا تھا۔ اس کے چہرے پر اک عجیب سی کفیت تھی جیسے وہ زندگی ہار چکا ہو۔ میں اس منظر کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ کیاہورہا ہے ،وہ پریشان کیوں ہے ، کیوں وہی کھڑا تھا،شہر ہی تو جانا ہے ،کیوں اس کا سڑک کے کنارے انتظار کرنا بہتر ہے، کیوں میرا درخت کے سائے میں انتظار کرنا بہتر ہے۔ کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟کیوں؟

ابھی کیوں کیوں پر ہی تھا کہ گاڑی کے ہارن بجنے کی آواز سنائی دی آواز کو سنتے ہی میری سوچ نے دم توڑ دیااور میں بھاگ کر دوسرے لوگوں کی طرح درخت سے سڑک کے کنارے کی طرف بھاگاتاکہ جلدی سے گاڑی میں سوار ہو سکوں۔ ابھی گاڑی دور ہی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے تاکہ وہ پہلے سوار ہو سکیں۔ خیر جییے ہی گاڑی آکر رکی لوگوں نے گاڑی میں داخل ہونے کے لیے کسی نے کسی کا گریبان پکڑااور کسی نے کسی کو دھول چٹائی اور جو داخل ہوسکتا تھا وہ ہوتا گیا۔یہاں بچے،بوڑھے ،مرد،عوت کوئی کسی کا لحاظ نہ کرتا اور نہ ہی کوئی کسی کی مدد کرتا سب کو اپنے بازوں کے زور پر بس میں سوار ہونا ہوتااور بس میں وہی سوار ہو سکتا جو دوسروں کو دھکیل سکتا ۔ ہم نے بھی بہت کوشش کی کہ ہم بھی داخل ہو سکے مگر نہ ہوسکے ا ور آخر کار ہمیں بس کی چھت پر جگہ مل گئی اور ہم نے ا س پر بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ جگہ تو ملی چاہے چھت پر ملی۔ اب میں اطمینان سے بیٹھا تھا کہ اب شہر ضرور پہنچ جاؤ گا۔ آخرکار ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور میں نے خدا کا شکر ادا کیااور سفر شروع ہوگیا۔

اب گاڑی چل پڑی تھی اور میں پرسکون محسوس کررہاتھا ۔ چلتی گاڑی سے میری نظر اس بوڑھے شخص پر پڑی اور میری نظریں دنگ رہے گئی اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ بوڑھا شخص درخت سے سڑک کے کنارے کی جانب بڑھ رہا تھااور ابھی تک سڑک تک نہیں پہنچا تھا ۔اس نے حیرت زدہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں مایوسی تھی اور میرے دل میں درد اور آنکھوں میں نمی ۔

اس کی مسکراہٹ نے میرے ذہن کے تمام سوالات کے جوابات دے دیے اورمیں مایوس کن نظروں سے اس کی طرف دیکھتارہا اور وہ وہی پہ جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پہلے کھڑا تھااور دوسری گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔وہ اس لیے وہ کھڑا ہوتا کیونکہ کہ اس کی ٹانگوں میں نوجوانوں کی طرح سکت نہیں تھی کہ وہ بھاگ کر گاڑی میں داخل ہو سکے اور بازوں میں وہ طاقت نہ تھی کہ وہ کسی کو دھکیل سکے اور ہم میں کوئی انسان نہیں تھا جو اس کی مدد کر سکے ۔ وہ صحیح تھا جب انسان ہوں گے تبھی مدد کریں گے وہاں لوگ تھے اس لیے کسی نے مدد نہیں کی۔اس نے مجھے بھی ان لوگو ں میں شمار کیامیں جب بھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو نفرت ہوتی ہے خود سے کہ کیامیں ایک انسان نہیں ہوں۔

یقینا میں انسان نہیں ہوں اگر ہوتا تو اس کی مدد ضرور کرتا۔۔۔۔ ہاں ضرور کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کیاتم ایک انسان ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھنک آباؤٹ اٹ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
jamshaid Ali
About the Author: jamshaid Ali Read More Articles by jamshaid Ali: 14 Articles with 11644 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.