عقل اور وحی
(شکیل اختر رانا, karachi)
اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف
المخلوقات قرار دیتے ہوئے اسے علم اور عقل کی دولت سے نوازا ہے،دنیا کے
اندر کوئی انسان آج تک ایسا آیا ہے نہ آئے گا،جو عقل سے مکمل عاری ہو، تاہم
اگر کوئی شخص اپنی عقل کا استعمال نہ کرے تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے،قران
مجید کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کو یہ اختیار دیا
ہے کہ وہ پہلے اپنی عقل کا استعمال کرے پھر دین قبول کرے مگر جب وہ اسلام
قبول کرے تو اس کو اپنی عقل کو وحی کا تابع بنانا ضروری ہے،اسے یہ اختیار
حاصل نہیں کہ وحی کے تعلیمات کے مقابلے میں اپنی عقل کے گھوڑے پر سوار ہوکر
گمراہی کی بھول بلیوں میں بٹھکتا پھرے، کیوں کہ انسان جتنا بھی عقل مند ہو
اس کی عقل وحی کے تعلیمات کا احاطہ نہیں کر سکستی،اس حوالے سے قرآن مجید سے
جب رجوع کیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے پیغمبر ﷺ کو دعوت
کا اسلوب سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
"کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہی ہے کہ میں اور میرے پیروکار خدا کی طرف
سمجھ بوجھ کی بنیاد پر دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالی پاک ہے، اور میں
مشرکوں میں سے نہیں : (سورۃ یوسف؛ آیۃ:108)
اس آیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دین کی دعوت عقل کی بنیاد پر ہی
ہے،کیوں کہ اگر کوئی شخص اپنی عقل سلیم کو کام میں لاکر تنہائی میں کچھ دیر
بیٹھ کر یہ سوچے کہ آخر اس کے بنانے والا اور کائنات کے نظام کو چلانے والا
بھی تو کوئی ہوگا، تو خدائے واحد کے اقرار کے بغیر نہیں رہ سکتا،
دوسری جگہ سورہ یونس کی آیت نمبر 39 میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے
میں فرمایا ہے جو لوگ اپنی ناقص عقل کے بل بوتے پر دین کا نکار کرتے ہیں،
"بل کہ جس چیز کے علم پر وہ قابو نہ پاسکے اس کو جھٹلادیا،حالانکہ اس کی
حقیقت ان پر کھلی ہی نہیں،اس طرح ان سے پہلے لوگ بھی جھٹلاتے رہے"
مندرجہ بالا دو آیتوں پر غور کرنے سے ایک سلیم الفطرت انسان اس بات کو
تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دین عقل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، اور اس
گئے گزرے دور میں ایسا کوئی شخص پیدا ہو ہی نہی سکتا جس کی عقل وحی کے
تعلیمات کا مکمل احاطہ کرسکے،اس لیے ایک مسلمان کے لیے یہ بات لازم ہے کہ
دین کے کسی بھی معاملے میں اس کی عقل جواب دے تو اس کو وہ اپنے عقل کا قصور
سمجھ لے نہ کہ اس بنیاد پر دین کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آجائے،
ان باتوں پر غور کرنے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو لوگ سائنسی تجربات
کی بنیاد امور شریعہ میں کجی نکالتے ہیں، وہ انہی سائنسدانوں کی اپنی عقل
کے کرامات ہیں، کیوں کہ تاریخ سائنسی تضادات سے بھر پور ہے، سائنسدان جو
بھی تحقیق کرتے ہیں، اگلے کچھ عرصے میں کوئی اور سائنسدان اس کے خلاف کوئی
اور تحقیق سامنے لاتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ وحی سائنس کی کونسی تحقیق کا
ساتھ دے، اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس دان آج تک اس حقیقت کو نہیں پہنچے
کہ دینی احکامات میں پوشیدہ اصل حمکت کیا ہے، یہی شریعت کا اسلوب ہے، کیوں
کہ اگر دین کی ہر بار ہر کس و ناکس کے دماغ میں آجائے تو پھر دنیا
دارالامتحان کیسے بن جائے؟
دینی امور میں عقل کا گھوڑا دوڑانے کی ابتدا یونانی فلسفے نے کی تھی، مگر
خیرالقرون سے قربت کی وجہ سے مسلمانوں کے عقائد پر یہ اثر انداز نہ
ہوسکے،خیرالقرون سے جتنی دوری بڑھتی گئی اتنا ہی ان ذہنی خرافات نے
مسلمانوں کو متاثر کرنا شروع کردیا.
یونانی فلسفے کا طوفان بلا خیز موجے مارتے ہوئے اس وقت مسلمانوں کے عقائد
کو متاثر کرنے لگا جب خلافت بنی امیہ کے آخری دور میں یونان سے درآمد شدہ
فلسفہ کی بنیادیں خلافت عباسیہ کے دور میں اس قدر مستحکم ہوئیں کہ مذہب اور
فلسفہ کے امتزاج سے "علم کلام" وجود میں آیا...اس علم کے بل بوتے پر عباسی
خلفاء ہارون الرشید اور مامون الرشید کے زمانے میں یونانی علوم اور فنون کے
جو تراجم ہوئے اس میں ایرانیوں اور غیر مسلموں کی دخل اندازی کی وجہ جو
صورت حال سامنے آئی اس کا خلاصہ یہ تها کہ کسی شرعی حقیقت پر ایمان لانے کے
لیے صرف قرآن و حدیث کا بیان کافی نہیں بلکہ وہ شرعی حقیقت اس وقت تک قابل
اعتبار نہیں ہوگی جب تک فلسفہ کے بارگاہ سے اس کی صحت کا فتویٰ صادر نہیں
ہوجائے گا......
اس کا واضح مطلب یہ تها کہ لوگوں نے علم کے اعلیٰ ذریعے یعنی وحی اور الہام
کو چهوڑ کر اس کے ادنیٰ ذریعہ یعنی منطق و فلسفہ کو اپنا ملجا و ماویٰ
بنادیا....جس کی وجہ سے مسلمان ایک یقینی ذریعہ سے محروم ہو کر ظن و گمان
کے راستے پر چل پڑے.....
یہ سب کچھ خلافت کی سرپرستی میں ہورہا تها اس لیے اسے روکنا محال تها...
اگر اس وقت امام غزالی.... ابن رشد اور امام رازی ایسے اجلہ علماء یہ علم
سیکھ کر اس کے ذریعے شریعت کا دفاع نہ کرتے تو شاید آج اسلام کی حقیقت بهی
غرناطہ میں کہیں دفن ہوجاتی اور شریعت کے نام پر ہر طرف عقل کے گھوڑے
دوڑائے جاتے مگر علماء کرام کی کوششوں سے اللہ تعالیٰ کا دین آج بهی اپنی
اصلی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے.....
فلسفہ اور منطق کی تعلیم اس وقت حاصل کرنے کی اجازت ہے جب اسلامی تعلیمات
سے مکمل واقفیت ہو...ورنہ اس دور میں جن لوگوں نے دینی حقائق کی صحت معلوم
کرنے کا ذریعہ محض عقل کو بنایا ان کی مثال اس احمق کی سی ہے جو کسی گز سے
سمندر کے پانی کو ناپنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر کا سمندر کی وسعتوں اور
پانی کی لہروں میں اپنا دیدہ امتیاز کی صلاحیتوں کو گم کر بیٹهتا ہے......
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر دین کا دارو مدار عقل پر ہوتا تو
موزوں کے ظاہری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا کہ باطنی حصہ پر مسح کیا
جاتا....مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو ایک دفعہ سرسید احمد خان نے لکها
کہ حضرت دین کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہونی چاہیے. ...مولانا نے جواب
میں لکها آپ نے الٹا کر دیا ہے اصل یہ ہے کہ عقل کی کوئی بات دین کے خلاف
نہیں ہونی چاہیے............
مطلب اس کا صاف ظاہر ہے کہ جو شخص شرعی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد
فلسفہ و دیگر علوم کی جانب جائے گا تو اگر اس کے سامنے کوئی ایسی بات آجائے
جو عقل اور شریعت میں متصادم ہو تو وہ فورا اپنی ناقص عقل کو رد کر کے
شریعت کی بات مان لے گا....اور اگر کوئی شروع سے ہی راہ فلسفہ پر سفر شروع
کردے تو وہ ہر چیز کو اپنی عقل ناقص پر پرکھے گا اور نتیجتاً گمراہی کی
اتاہ گہرائیوں میں گم ہوجائے گا.......
آج اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھنا چنداں مشکل نہیں
کہ فلسفہ کا میدان ایسے لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو علوم شریعت سے نابلد
ہیں....جس کی وجہ ہر طرف الحاد و زندقہ عام ہے....اور اسلام کے نام پرنت
نئے فرقے وجود میں آرہے ہیں. ....
ضرورت اس امر کی ہے آج بھی امام غزالی اور امام رازی کے جانشین میدان میں
آجائیں اور اس علم کو حاصل کرنے کے بعد اس کو دین کے تابع کر کے شریعت کی
روح کو بچائیں.....اگر علماء کی جانب سے اس جانب سے غفلت برتنے کا یہ سلسلہ
جاری رہا تو بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گ |
|