شاعرِ احمق ہوں میں
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
اگر آپکو آخرت سے جڑنا هے تو
آپکو دنیا سے 'ذرا' سا فاصله برقرار رکھنا پڑے گا... دنیا سے فاصله لوگوں
سے فاصله... فاصله بھی اس طرز کا که لوگوں کو آپکی غیر موجودگی کا پتا نه
چلے... لوگ سمجھیں که آپ 'شامل' هیں... لیکن آپ اصل میں ان سے بہت دور
هوں... دور بہت دور... جہاں کچھ نهیں هوتا... کچھ بھی نهیں... کسی کا عکس
بھی نهیں... خاموشی کا رقص بھی نهیں... تخیل پیمائی بھی نهیں... امروز و
فردائی بھی نهیں... داد و بے داد بھی نهیں... کوئی آزاد بھی نهیں... لاهوت
نهیں... لا صوت نهیں... مژه پُراشک بهی نهیں... اور خشک بھی نهیں... تگ و
تاز بھی نهیں... درد کا ساز بھی نهیں... لا مکاں بھی نهیں... کوئی فغاں بھی
نهیں... دل کے شگاف بھی نهیں... عین شین قاف بھی نهیں... نگاهوں کا طواف
بھی نهیں... 'حسن' با غلاف بھی نهیں...! کوئی طور بھی نهیں... کوئی حور بھی
نهیں...! یهاں تک که اپنا آپ بھی نهیں...! صرف وه اور وه...! هو به هو...کو
به کو ... الله هو... الله هو...! مشتِ خاک کو صحرا کردے... آتش بکف
منظر... جو جلا کر رکھ دے... اندر سے... سب کچھ... کچھ بھی نه چھوڑے... اور
پھر اندر سے دیوانه برآمد هو... محفل به عزلت اندر... اور وه لوگوں کو
للکارے... مارو پتھر مجھے... مارو... اور رغرہ سے بولے... هاں میں هوں احمق
آبادی... مارو مارو... رک کیوں گئے... ذهین احمق آبادی... هاهاها... تم بے
شرم لوگو... میں تمھیں تماری اوقات بتا تا هوں... ایک دفعه کا واقعه هے...
ابتدائے آفرینش کا... تمام آدمی جمع تھے... اس نے فرمایا 'ألَسْتُ
بِرَبِّكُمْ' ... اشرف المخلوقات اس ادا پر چیخ اٹھے.'بلی، شھدنا'...
بےشک... هم گواهی دیتے هیں... آسمان هل گئے... فرشتے چلا اٹھے... یه تو کیا
کر رها هے مالک... تو اس کو بنا رها هے جو فساد هے... وه بولا... 'میں وه
جانتا هوں جو تم نهیں جانتے...' ازل کے کسی مرحلے میں ایک وعده کیا تھا...
یاد کرو... هاهاها... اتمامِ حجت كو انبياء کی بعثت هوئی تھی... جو که
انسان فراموش کر چکا اور ارادهٔ گمراهی کرلیا... مگر وه بھول گیا که ابتدا
اور انتھا دونوں الله کی هیں... قل هو الله احد... اشکِ گراں بارِ آهِ شب
فراموش کرده ازل و ابد کیمانند هے... اس کا اعاده انسان پر همیشه ایک بوجھ
بن کر انجانی سی کسک چھوڑ دے گا... تشنگی... کبھی نه اختتام پذیر هونے والی
ندامت با ضخامت... اعلی تر دنیا کی تلاش آخرت سے بیگانه نه کریگی تو اور
کیا کریگی... هائیں هائیں... یه کیا... معاف کر دیجئے ذهنی رو بہک گئی...
میں برباد کرمکِ احمق آباد... میں احمق هوں...
؎ شاعرِ احمق هوں میں، جب حمق فرماتا هوں میں
تب حماقت پر حماقت هی کیے جاتا هوں میں
اسی وجه سے میں لوگوں کو چھیڑتا نهیں... وه سمجھتے هیں میں ان کا مذاق اڑا
رها هوں...! میں تو اکیلا رهتا هوں... ان میں ره کر بھی... 'ذرا' سا فاصله
برقرار رکھتا هوں... فاصله بھی اس طرز کا که لوگوں کو میری غیر موجودگی کا
پتا نه چلے... لوگ سمجھیں که میں 'شامل' هوں...! لیکن اصل میں ان سے بہت
دور هوتا هوں... دور بہت دور... جہاں کچھ بھی نهیں هوتا.. کچھ بھی نهیں...
میں بھی نهیں...!
؎ مزاجِ یار سے جوں جوں شناسا هوتا جاتا هوں
میں تنها، اور تنها، اور تنها هوتا جاتا هوں
خــــــــــــــــــداونــــــــــــــــدا...
خــــــــــــــــــداونــــــــــــــــدا...!
قــــــــــــــــــرارم باش و يـــــــــــــــــا رم باش...!
جــــــــــــــــــهـــــــــــــــــا ں تــــــــــــــــــا
ریـــــــــــــــــکی مــــــــــــــــــحـــــــــــــــــض...!
مــــــــــــــــــی تــــــــــــــــــرســــــــــــــــــم...!
کــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــنــــــــــــــــــارم
بــــــــــــــــــاش...!
|
|