چُبھ نہ جائے دیکھنا باریک ہے نوکِ قلم

کافی مغذ کھپائی کے بعد میں چائے وائے پینے ایک چھپر ہوٹل میں گیا تو وہاں ذہین احمق آبادی اور 'محترم اوٹ پٹانگ' صاحب ملے۔۔۔ محترم اوٹ پٹانگ صاحب کچھ بجھے بجھے سے لگ رہے تھے۔۔۔ میں بھی ان کی چارپائی پر ہی جا براجمان ہوا۔۔۔ اور چائے کا کہا بیرے کو۔۔۔
"کیا حماقتیں ہو رہی ہیں؟" میں نے ذہین سے استفسار کرتے ہوئے 'محترم' کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔ ذہین نے جواب میں کہا۔

"بس اسی بات پر غور کر رہے تھے کہ اگر کوئی صنفِ نازک آپکی تحریر پر تبصره کرے کہ 'آپ بہت اچھا لکھتے ہیں' اور آپ کہہ دیں 'بس آپ کی محبت ہے۔۔۔!' تو یہ جواب دینے پر کیا کیا ممکنہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جبکہ موصوفہ نے پاپوش بھی 'قلمی ہِیل' والے پہن رکھے ہوں۔۔۔!؟"

میں نے اس کو نظر انداز کیا اور 'محترم اوٹ پٹانگ' سے پوچھا۔
"کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟"
اس سےپہلے کہ وہ جواب اگلتا ذہین پھر سے بول پڑا۔

"جناب کو حماقت۔۔۔ اررر۔۔۔ محبت ہو گئی ہے۔۔۔!"
اسی اثنا بیرا چائے لے آیا اور بات وہیں رہ گئی۔۔۔

"تو مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟بھجوادے پیغام۔۔۔!" چائی کی چسکی لیتے ہوئے میں نے مفت مشورہ دے داغا۔

"اس کے گھر والے اشاروں میں کہتے ہیں ابھی پڑھائی کرلو پہلے پھر 'لڑائی' بھی کروا دینگے۔۔۔! کر لو گل۔۔۔ ویسے میں نے کہا تو ہے اسے کہ چھوڑ پڑھائی وڑھائی۔۔۔ کیا پڑھائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔۔۔ زندگی بنا زندگی۔۔۔! تیری عمر والوں کے بچے کھیل رهے هیں۔۔۔ اور تو۔۔۔ شرم کر شرم۔۔۔!"

اس بات پر پہلی مرتبہ 'محترم' کی کھوپڑی کی برف پگھلی غالباً چائے اثر دکھا رہی تھی۔۔۔ وہ تڑخا۔۔۔

"ابے او۔۔۔ بچے ان کے کھیل رہے ہیں اور شرم میں کروں۔۔۔ واه۔۔۔ یہ کیہڑی منطق ہے۔۔۔!"

میں نے کہا کہ "اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔۔۔؟ اس کی پڑھائی تو بس اب تب میں ہوئی۔۔۔!"
ذہین جلدی سے اٹھا اور چائے کے پیسے برابر کر نے چلا گیا۔
"بیٹا۔۔۔ تو نہیں سمجھے گا۔۔۔ اصل مسئلہ ہی یہ ہے۔۔۔ بات یہ ہے کہ میں نے ابھی اسے دیکھا نہیں ہے۔۔۔ وہ نقاب کرتی ہے۔۔۔!"
"اوہ۔۔۔ یہ واقعی ٹیڑھا مسئلہ ہے۔۔۔!" میں نے پر سوچ انداز میں کہا۔
اتنے میں ذہین کی واپسی بھی ہو گئی۔۔۔ وہ بیٹھا نہیں۔۔۔ بس وقت دیکھتے ہوئے ایک ہاتھ میں بٹوا لیے اس سے کھیلتے اور آنکھیں سکیڑ تا ہوا بولا۔

"تم لوگوں کو تو معلوم ہے کہ مَیں احمق آباد میں ایک جانا پہچانا احمق ہوں۔۔۔ 'وزارتِ حماقت' میں اعلی عہدیدار ہوں۔۔۔ جس کا کام نت نئی حماقتوں کی ترویج ہے۔۔۔ اسی وجہ سے میں جس بندے کی غمی خوشی میں بھی شرکت کروں وہ اسے باعثِ حماقت سمجھتا ہے۔۔۔ یہاں کا تو معلوم نہیں مگر احمق آباد میں مجھے جب بھی کوئی نقاب اور برقعہ لینے والی پسند آتی ہے تو ایسیوں کو دیکھنے میں شادی هال جاتا ہوں۔۔۔ اور اسکی نظارگی بمع سُود کرتا ہوں۔۔۔ خاص طور پر اس وقت جب 'حماقت پلائی' کی رسم شروع ہوتی ہے۔۔۔ کیا مرد کیا عورتیں سب ایک ہی جگہ ہوتے ہیں۔۔۔ کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ اسکے بازو میں کون اور کس کا ہم زلف کھڑا ہے اور دلہن کے علاوہ اور کس کس احمق کی تصاویر اتارنے میں مگن ہے۔۔۔ ویسے معذرت۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ احمق کا مونث کیا ہے۔۔۔!" وہ اسی طرح آنکھیں سکیڑے شاطر سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ آنکھوں میں عجیب سی چمک در آئی تھی۔ ازلی حماقت اور شطر کا یہ امتزاج بہت خوفناک لگ رہا تھا۔ وہ بٹوے سے کھیلنا بند کر کے ایک آنکھ دباتا گویا ہوا "خیر۔۔۔ میں چلا۔۔۔!" اور بٹوے کو جیب میں اڑستا ہوا نکلا چلا گیا۔

مجھے اور 'محترم اوٹ پٹانگ' کو تو گویا حماقت سونگھ گئی تھی۔۔۔
"اللہ کرے زورِ حماقت اور زیادہ۔۔۔!"
میری گمبھیرتا لیے آواز گونجی۔
 
رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 28538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.