دس پتّے توڑے
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
پچھلے دنوں غیر حاضری کے دوران
اپنے ایک کشمیری دوست کے ساتھ فون پر خوب گپ شپ رهی... اتنی گپ شپ رهی که
گھر والوں کو بھی اپنے کان کھڑے کرنے پڑے که صاحب زادے کن هواؤں میں
هیں...!؟ اتنی لامبی لامبی باتیں... کہیں موصوف عرصے سے کسی جگه 'کانٹا'
ڈالے تو نهیں بیٹھے تھے جو اب 'مچھلی' سمیٹ لایا... ویسے بھی آج کل طوطا
چشمی ریشه خطمی میں تبدیل هوتے دیر نهیں لگتی...! بس دو تین 'گُر' کی باتیں
آنی چاهئیں...!
اب انھیں کیا معلوم که اپنا تو حال یه هے که بچپن سے اب تک یه 'نظم' سنتے
هوئے کان پک سے گئے هیں...!
؎ دس پتے توڑے
اک پتا کچا
هرن کا بچه
.
.
.
.
.
سچے سچے جائیں گے
بھیّا کی دلهن لائیں گے
اب مجھے نهیں معلوم که آج تک یه کون سے بھئیا کی دلهن کی بات هو رهی هے جو
آ هی نهیں چک رهی...! لیکن یه بات ضرور هے که اسکے آئے بغیر هی بھئیا کا
منہ سوجا هوا هے...! پتا نهیں غلط بیانی کی کیا ضرورت هے اب...! حالانکه
بولتے یه هیں که 'سچے سچے جائینگے'... یه ذرا سی امید بھی کیوں...!؟ اچھا
چھوڑیں... لڑائی لڑائی معاف...!
اوپر بھیّا سے مراد میں خود نهیں هوں... اگر آپ سمجھنا چاهیں تو آپ کی
مرضی... کون روک سکے هے... جو مزاجِ یار میں آئے...!
دوسری طرف یار لوگ میری 'دو دو چار چار' کی رٹ سے بہت نالاں هیں... ان کے
نزدیک ایک بھی آج کل بہت مشکل هے چه جائیکه دو چار...! ایک کے بعد بھی کبھی
کبھی 'اوپر کی آمدنی' کا انتظام کرنا پڑتا هے... اور پکڑ سے بچنے کیلئے
کہنا پڑتا هے 'هٰذا من فضل ربی'... بات صحیح بھی هے... بھلا سوچیے که اگر
سارے مسلمان دو دو اور چار چار کر کے بیٹھ جائینگے تو بےچاری طوائفوں کا
کیا هوگا... آخر انھیں بھی تو رزق خدا هی دیتا هے نا...!
نهیں... آپ غلط سمجھے... یه ضرورتِ 'فرِشته' کا اشتہار نهیں...! |
|