حماقت نامہ ١

جب سے میں نے اپنا نام 'ذهین احمق آبادی' رکھا هے سارے لوگ مجھے یه باور کرانے کی کوشش کر رهے هیں که میں احمق آبادی که بجائے احمد آبادی لکھنا چاهتا تھا... حالانکه میں کئی مضامین میں صریح حماقت کر کے دکھا چکا هوں که میں هی نرا 'ذهین احمق آبادی' هوں... مگر لوگ هیں که سمجھتے هی نهیں... اور جو سمجھتے هیں وه مجھ سے احمق آباد کا حدودِ اربعه معلوم کرنے کو بے چین هیں... !

تو میں نے سوچا که لوگوں کو خواه مخواه کیوں مبتلائے اضطراب رکھا جائے جبکه میں انکی رهنمائی 'احمق آباد' تک کر سکتا هوں... نهیں یقین آیا...؟ اچھا چلیے حضرت...! میں نے بھی ایک محفل میں شرکت کرنے جانا هے وهاں... میرا هاتھ تھام لیجے... یهاں سے آئیے... وه پگڈنڈی نظر آ رهی هے...؟ وه ادھر جو کثرتِ استعمال که باعث وجود میں آئی هے... یهی راسته هے احمق آباد کا... یه جتنے بھی احمق آبادی هوتے هیں نا یه کوئی نیا کام نهیں کرتے... جو راسته انھیں دکھا دیا جائے اسی پر چلتے رهتے هیں... انے وا... اسی وجه سے احمق آباد کا آج تک کوئی نیا راسته دریافت نهیں هو سکا...! اور یه پگڈنڈی بھی ایک بندے نے بنائی تھی جس کو لوٹا کہا جا سکتا ہے... لوٹا اصل میں ایک استعاره هے ایک چار حرفی لفظ کا جو اتفاق سے 'ل' سے هی شروع هوتا هے... اسی پگڈنڈی پر چلتے رها جائے تو ایک صحرا سے بھی گزر هوتا هے... جہاں اچھے خاصے لوگ آباد هیں.. اور ان لوٹوں کی حماقت کی نذر هو رهے هیں... اور تعجب کی بات هے که ادھر کا مالک مل جل کر رهنے کا کہتا هے... جبکه آدھے لوگ بھوک سے مر رهے هیں اور آدھے لوگ بسیار خوری سے هلاک هو رهے هیں...... مگر ان لوٹوں سے لوٹا پن هی سرزد هو رها هے... وهاں جا کر رهیں تو پتا چلے... اےسی میں ره ره کر ان کے دل بھی منجمد هوکر ره گئے هیں...! اچھا چھوڑیے اسے اور رو به حماقت هوئیے... آ... میرا مطلب هے آگے چلیے... یه لیں اب هم پہنچ گئے هیں احمق آباد میں... ارے یه کیا... ادھر تو یه آدمی دست و گریباں هو رهے هیں... لگتا هے کوئی پرانا ادھار چکا رهے هیں... وه جو هم میں تم میں ادھار تھا، تمھیں یاد هو که نه یاد هو... مجھے بھی نهیں یاد... کیا کہا...؟ یاد هے ذرا ذرا...؟ چلیں جانے دیں... نظر انداز کریں... یا اگر کچھ زیاده هی یاد آرها هے تو جا شریک هوئیے آپ بھی... دو گالیوں کا شوق هے... ابھی پورا هوا جاتا هے... ایسا ادھر هوتا هی رهتا هے... لڑائی مرد کرتے هیں اور گالیاں ماں بہن کی... دھت تیرے کی...! ویسے دشمن کا تمسخر اڑانا ذهنی شکست کی دلیل هے...! خیر چلیے... یقین مانیے ادھر دیکھنے کے لائق ایک چیز بھی نهیں هے... اب آپ سوچ رهے هیں که پھر ادھر آنے کا کیا فائده... چلیں پھر ادهر کی واحد مشهور جگه چلتے هیں... جو که دو قبریں هیں... ایک مرد کی اور ایک عورت کی... ان قبروں میں همارے حمق کی تاریخ پوشیده هے... ان دونوں کو آپس میں حماقت... میرا مطلب هے محبت هو گئی تھی... اور پھر هوا یوں که هم نے ان دونوں کو مار ڈالا... اور پھر ان پر کہانیاں لکھیں اور نظم و نثر کے ڈھیر لگا دیے...! اب گھروں که هر روزن سے ان کے گیت پھوٹتے هیں... هے نا حماقت... بس یهی احمق آباد هے جس کیلئے آپ اتاولے هوئے جا رهے تھے...!

اب میں نے ایک ادبی نشست میں شریک هونے جانا هے... وهاں ملاقات هوگی اگر آپ نے همیں قابلِ اعتناء جانا...!

ضمیمه : آجکل ذهنی مروڑ کے باعث کچھ قابل قدر حماقت انجام نهیں دے پا رها...! دعاء کیجیے...!
رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 28376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.