حماقت نامہ ٢
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
صاحب آپ تو احمق آباد آکر همیں
فراموش هی کر بیٹھے... میری ادبی محفل میں بھی شرکت سے گریز کیا معنی...؟
آپ بھی کہیں 'احمقی' تو نهیں هو گئے... (احمقی سے مراد احمق آبادی هے...!)
کیا فرمایا...؟ پٹرول نهیں تھا...؟ هاں بھائی... بات تو سچ هے مگر بات هے 'کھسکائی‘
کی... پٹرول کھسکایا جا رها هے آج کل... یا شاید خود هی کھسک رها هے...
بچپن سے والدین سے سنتے آرهے هیں که بیت الخلاء میں ڈیرا نهیں جمانا...
ورنه باهر قطار لگ جائے گی... مگر یهاں تو پٹرول پمپوں کے باهر بھی قطاروں
کی قطاریں کھڑی هیں اور پمپ هیں که انکا پٹرول هی نهیں 'خطاء' هو چُک رها...!
لیکن اب بھی کچھ جی دار لوگ ایسے هیں جو پٹرول 'دوهنے' کیلئے پمپوں کے باهر
قطاریں رمائے بیٹھے هیں... مگر پمپ کے 'تھن' هیں که هاتھ آکے هی نهیں دے
رهے... ویسے 'بھینس' تو پیسوں کی 'جگالی' دن رات کر رهی هے...! یه کیا شروع
کردیا میں نے... حماقت در حماقت از حماقت بر حماقت... با حماقت تا حماقت...!
تن حماقت ، من حماقت...!
؎ ارادے جن کے پخته هوں، نظر جن کی هو 'پمپوں' پر
بھرا سکتے هیں ایسے 'احمقی' پٹرولیم اب بھی
هاں تو میں ادبی گوشوارے کا بیان کر رها تھا... کیا هی رنگ جما... ایک
ساتھی نے تو یه بیان تک داغ دیا که اگر احمق اڑ سکتے هوتے تو احمق آباد
جہازوں کا اڈه هوتا...! حالانکه یار لوگ تو ابھی بھی احمق آباد کے تاریک
گلیاروں میں 'میٹھے پان' کا 'دم' لگاتے هوئے 'جہاز' ملاحظه فرما سکتے هیں...!
بس ضرورت هے 'دیدهٔ بینا' کی... الله تعالی توفیق دے....!
افتتاحیه تو بیان هی نهیں کیا... شروع میں حمد و نعت پڑھی گئیں جس میں هم
نے بھی اپنی 'غزلیه حمد' پیش کی...!
؎ نیند جانے کیوں میری آنکھوں سے کوسوں دُور هے
دل نجانے کیوں یونهی دھڑکا دھڑک کر چُور هے
؎ تھا یه استفسار لوگوں کا که "کیوں مخمُور هے؟"
"کُوزهٔ ابرُو میں انکے شربتِ انگُور هے!"
؎ لایا هے قاصد پیام انکا یه عرضِ جلوه پر
"خلد میں!" ، پر وه تو پابندِ نوائے صُور هے
؎ دل مرا ٹھہرے گا کیونکر اس نظر کے سامنے
جس کی مژگانِ ستم کا اک نتیجه طُور هے
-ذهین احمق آبادی
بات چل نکلی اشعار اور انکے اجوِبه کی... جس کی مثال کسی نے یوں دی که...
؎ خط کبوتر کس طرح پہنچائے بامِ یار پر
پر کترنے کو لگی هیں قینچیاں دیوار پر
جس کا جواب کسی نا معلوم شاعر نے دیا تھا...
؎ خط کبوتر اس طرح پہنچائے بامِ یار پر
پر هی پر لکھا هو خط اور پر کٹے دیوار پر
اس کا جواب بھی کسی دل جلے احمقی نے موقع پر رسید کر دیا...!
؎ خط کبوتر هی کیوں اب پہنچائے بامِ یار پر
موبائل پر بات لکھ کر دل کے اب تُو پار کر
بس اسی طرح کا اوٹ پٹانگ ادبی کھلواڑ هوتا رها وهاں... نه سر نه پیر...
هماری شمولیت بالکل اس طرح کی هی تھی که....
ع؎ بوم نوبت می زنَد بر گنبدِ اردو ادب
الف سے اردو ، الف سے الُّو... وه بھی کاٹھ کا...! دھت تیرے کی...! |
|