خواتین مرد حضرات کو بھائی کہہ کر اور خود کو بہن کہلواکر
مطمئن ہو جاتی ہیں... مگر انھیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان سے گفتگو کے بعد ہی
سے مرد کس غلاظت سے نبرد آزما ہوجاتا ہے... شیطان تاک کے بیٹھا ہوا ہوتا ہے...!
وہ تو اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب یہ پاکیزہ رشتہ قائم ہو رہا ہوتا ہے...
کیونکہ نامحرموں کے درمیان شیطان کی استراحت گاہ ہے... خواتین اس بات کا
گمان بھی نہیں کر سکتیں کہ اتنے پاکیزہ رشتے سے پکارنے پر بھی مرد کچھ
غلاظت کی کھچڑی پکائے گا ذہن میں... مگر بات تو یہ ہے کہ مرد کو خود بھی
رشتے اور زبان کا پاس ہوتا ہے... شیطان کو نہیں ہوتا...! ہمیں یہ سمجھنا
ہوگا...! جب دو نامحرم قریب آتے ہیں... چاہے جسمانی طور پر یا دماغی طور پر
اکیلے میں فون پر یا میسجز کے دوران... تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا
ہے... اتنا تو ہمیں پتا ہے... جو ہمیں نہیں پتا وہ یہ ہے کہ جب وہ جدا ہوتے
ہیں تو شیطان ان سے جدا نہیں ہوتا...! وہ مرد کے ذہن کو یا عورت کے ذہن کو
غلاظت کی دُھونی لازمی دے دیتا ہے... اسی وجہ سے لوگ آپکا یقین نہیں کرتے
جب آپ سے ایسے کسی غیر شرعی 'بہن بھائی' رشتے کی بابت استفسار کیا جاتا ہے
اور آپ کہتے ہیں "میں نے اسکے بارے میں کبھی 'اس' طرح نہیں سوچا..!"... اور
مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ بھی اپنی اس سوچ کے ذمہ دار نہیں ہوتے... پتا ہے
کون ہوتا ہے...!؟ شیطان... جی ہاں... آپ کو ابھی تک نہیں معلوم کہ یہ شیطان
کیا ہے... یقین مانیے... اس نے وعدہ کیا تھا رب سے کہ میں ضرور بالضرور
تاقیامت بہکاؤں گا لوگوں کو...!
ادھر میں نفس کے بارے میں بھی بتاتا چلوں... اس کے بارے میں جتنا میں سمجھ
سکا ہوں... نفس ایک ایسا طالبِ علم ہے جس کا استاد یا تو شیطان ہوگا یا آپ
خود... آپ خود اس کو تعلیم کر کے اچھا کر دیں یا وہ اس کو خراب کردے گا...
اور اس کی خصلت بالکل طلباء جیسی ہے... یہ بھول جاتا ہے جو کچھ اسے پڑھایا
جاتا ہے... اس وجہ سے اس کو سدھایا بھی جا سکتا ہے اور اس پر کڑی نظر رکھنا
پڑتی ہے اور بار بار تعلیم کرنا پڑتا ہے... کچھ لوگ جو ہمیشہ سوچتے ہی غلط
ہیں ان کا نفس شیطان سے تعلیم یافتہ ہوتا ہے... پھر شیطان ان پر محنت ختم
کر کے ان کو نفس کے حوالے کر دیتا ہے جسکو وہ خود ہی غلط طریقے پر تعلیم
کرتے رہتے ہیں... اور جنابِ شیطان نئے شکار پر جت جاتا ہے... ایک نئے طریقے
سے... نئے انداز میں... نئی عیاری سے... نئی فنکاری سے... مگر اسکے دھوکے
میں نہیں آتے... نیکو کار اور تقوی دار... پرہیز گار اور ابرار...!
اسی بابت ایک دن 'ذہین احمق آبادی' اور 'محترم اوٹ پٹانگ' بیٹھے باتوں میں
لگے ہوئے تھے...'محترم' بولے...
"کچھ جلدی ہی 'بڑا' ہو گیا میں... اور غضب یہ ہے کہ لڑکیاں مجھے 'بچہ'
سمجھتی ہیں.... انھیں نہیں معلوم کہ مرد کا دماغ کیا ہوتا ہے... میرے لیے
اتنا ہی کافی ہے کہ میں اپنے آپکو بچہ نہیں سمجھتا... وہ اپنی سوچ کی خود
ذمہ دار ہیں...!"
اس پر 'ذہین احمق آبادی' بولا...
"ہاں یار... ہم مرد سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو سب کچھ پتہ ہوتا ہے... لیکن
حقیقت یہ ہے کہ بے چاریوں کو کچھ نہیں پتہ ہوتا... اور رہی بات لڑکوں کی...
تو 14 کے لڑکے کو گلی کی آنٹی بیٹا کہہ کہہ کر کام کروا لیتی ہیں... یہ لا
دو، وہ لا دو... اور وہی بیٹا اسی آنٹی کے عشق میں مر رہا ہوتا ہے...!" اس
نے اپنی بات طنزیہ و حماقتیہ انداز میں اٹھتے ہوئے جاری رکھی... "ادھر لوگ
بڑی لڑکیوں سے عشق اور شادی کو گناہ سمجھتے ہیں شاید...! اصل بات تو یہ ہے
کہ دل میں آج تک صحیح معنوں میں بڑی ہی اتری ہیں... اور بڑی ہمیں 'بچہ'
سمجھتی ہیں... اس سے بےخبر کے دماغ کدھر کی ہوا کھا رہا ہے... بیٹا میں تو
اپنے احمق آباد کی سوچ رہا ہوں... بڑا یاد آرہا ہے... چلے گا...!؟“
'محترم' کا مثبت جواب پاکر وہ رکا نہیں... اس کے گنگنانے کی مدھم لے
'محترم' کو سنائی دی...
؎ عجب نوجوانی تھی اپنی بھی پیارے
نہیں بھولنے کے وہ کافر نظارے
ہاتھ جیبوں میں ڈالے... سر ہُڈ میں کیے... قدموں کو مخصوص روانی میں
بڑھاتا... کسی غزل کی بحر میں پیروں کی نشست و برخاست کرتا... چلتا بنا...
اسے نہیں معلوم تھا کہ احمق آباد سے وہ واپس نہیں آنے کا...! پتا چل بھی
جاتا تو وہ خوفزدہ نہ ہوتا... مؤنث چیزوں سے وہ کم ہی ڈرتا تھا... موت بھی
تو مؤنث ہی تھی...!
؎ واہ رے شوقِ شہادت، کوۓ قاتل کی طرف
گنگناتا، رقص کرتا، جھومتا جاتا ہوں میں
؎ دل مجسّم شعر و نغمہ، وہ سراپا رنگ و بو
کیا فضائیں ہیں کہ جن میں جل ہوا جاتا ہوں میں |