حماقت نامہ ٤- گھر کی مرغی
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
ایک دن 'محترم اوٹ پٹانگ' نے
میری اور 'ذہین احمق آبادی' کی دعوت کی... میں وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گیا...
کیا دیکھتا ہوں کہ 'محترم' جناب اپنی عام عادتوں کے مطابق ایک 'مرغی' کو 'گھیرنے'
میں لگے ہوۓ ہیں... فرق صرف یہ تھا کہ مرغی اصلی تھی... اور مرغی تھی کہ ہر
دفعہ 'جل' دے جاتی تھی... بار بار اپنے دڑبے میں لے جاتی اور جناب بندھے
ہوئے مرغے کی طرح جا گھستے... گویا اس نے کہا ہو 'کبھی آؤ نہ دڑبے، خوشبُو
لگا کے'... اور پھر مرغی باہر آجاتی اور جناب کو بھی اس وجہ سے 'راندۂ دڑبہ'
ہونا پڑتا... اس تگ و تاز میں موصوف کی عجب ہئیت کذائی ہو گئی تھی... بالکل
ویسی ہی جیسی انکی بار ہا ہو چکی تھی جب جب انھیں 'سچی محبت' ہوتی تھی 'مرغیوں'
کو 'گھیرتے' ہوئے...! قصہ مختصر... بڑی مشکلوں سے اسے قابو میں کیا ہم
دونوں نے مل کر اور اس کے 'مرد' کے سامنے اسکی 'عزت' تار تار کردی... اور
وہ ٹکر ٹکر دیکھتا رہا مگر کوئی کوشش نہیں کی بچانے کی... گویا وہ مرغی
عافیہ صدیقی رہی ہو... دکھ تو بڑا ہوا کہ موصوف پتلی پتلی ٹانگوں سے محروم
ہو گئے... لیکن خیر... پکاتے پکاتے کافی دیر ہوگئی مگر 'ذہین' پھر بھی نہ
پہنچا... صبر کا پیمانہ لبریز کیا ہوتا وہ تو لبریز ہو کر بہہ بہہ جاتا تھا
اور ہم اس کو صاف کرتے نہ تھکتے تھے... انتظار بسیار سے تنگ آکر شروع کردیا...
کھانے میں کافی کچھ تھا... مجھے شک ہوا کہ یہ صرف ہماری ہی دعوت تھی یا کسی
'مرغی' پر ہی مرغی کو قربان کر دیا گیا تھا... میں نے مشکوک انداز میں
اظہارِ خیال کیا تو وہ کمینگی سے مسکرادیا... کھانے کے دوران گپ شپ رہی...
'محترم' نے مطلع کیا کہ وہ ذہین کے ساتھ 'احمق آباد' جا رہا ہے... مجھ سے
بولا...
"تُو بھی چل نا... موج رہے گی...!"
"نہیں یارا... کچھ مصروفیت ہے... پھر کبھی سہی...!"
"ٹھیک ہے...!" وہ کندھے اچکاتے بولا...!
کھانا ختم ہونے سے کچھ قبل ہی جناب 'ذہین احمق آبادی' کا ورود ہوا... خوب
آڑے ہاتھوں لیا اور آڑی ترچھی ٹیڑھی میڑھی الٹی سیدھی ہر طرح کی سنائیں...
مگر مجال جو ذرا کان پر جُوں رینگے... باقاعدگی سے بارِیک کنگھی جو مارتا
تھا سالا...! خیر کھانا تو لگا ہوا تھا... اسے میں نے ماقبل کی 'طلسمِ مرغ
رُبا' کی داستان سنائی... خوب ہنسائی ہوئی... دسترخوان پر ڈونگوں میں دال
اور مرغی کو یکجا دیکھ کر 'ذہین' بولا...
"ارے واہ... یہ تو واقعی گھر کی مرغی دال برابر ہو گئی...!"
اسکے بعد وہ تو کھاتا رہا اور ہم دونوں نے ادھر اُدھر کی ہانکنی شروع
کردی... اسے بھی بیچ میں گھسیٹنے کی کوشش کی مگر وہ کھانے کے وقت صرف کھانا
کھاتا تھا... بات کھانے کی ہی ہو رہی تھی... 'محترم' پُر سوچ انداز میں
بولا...
"یارا... ایک بات سمجھ نہیں آئی ظہرانے کے بعد کمر سیدھی کرنے کو قیلولہ
کہتے ہیں... اور رات کے کھانے کے بعد کی استراحت کو آرام کہتے ہیں... ناشتے
کے بعد مسکون ہونے کو کیا کہینگے... کیا خیال ہے...!؟" اس کا انداز
مستفسرانہ تھا...!
میں نے بھی سنجیدگی سے آنکھیں سکیڑ کر غور کرنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے
ہی 'ذہین' کی آواز گونجی...
"ہڈحرامی...!"
ہم نے اس کی طرف مستحسن نظروں سے دیکھا تو وہ اسی طرح لقموں پر لقمے چڑھانے
پر معصوم آمیز حماقت سے مصروف تھا... گویا مرغی دانتوں میں سے بھی نکل بھاگ
کر دغا دے جائے گی...!
'ذہین' اگلے ہی لمحے 'محترم' کو خوشمگیں نظروں سے اس طور گھورا کِیا کے
جبڑے کی 'کچک کچک' کی مدھم لے بھی ٹوٹنے نہ پائے اور مقصد بھی پورا ہوجائے
کیونکہ 'محترم' نے پرواہ نہ کرتے ہوئے اسکی کمر پر دھب رسید کی تھی...!
'دھب' تیرے کی...! اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں...!
|
|