حماقت نامہ ٦- احمق پاگل ہو گیا

؎ طُور جل کر میرا کاجل هوگیا
ایک احمق یونہی پاگل هو گیا

اس کی وحشت بڑهتی جا رهی تھی... اس کی سانس بھی پھولی هوئی تھی... سرعتِ رفتار کہ باعث... ایک آدھ دفعہ تو پیر بھی رپٹتے رپٹتے بچا...! وہ اس وقت اپنے آپکو بالکل پا بہ حماقت' محسوس کر رہا تھا... آج صبح هی تو اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ شھر میں ڈیڑھ سو کے قریب مرده خور آ براجمان هوئے هیں...! اور اس خبر پر سر دھن کر رہ گیا تھا... اس نے اور تیزی سے چلنا شروع کر دیا... اس کو بہت خوف محسوس هو رها تھا...! کہیں کوئی عقب سے هی حملہ آور نہ هو جائے... اس نے جلدی سے بھاگتے هوئے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی سعی کی اور اسی کوشش میں سڑک پر آ رها... لوگ بھاگتے هوئے آئے اور اس کے گرد اکٹھا هونے لگے... اس کی تو گگھی هی بندھ گئی... وہ سہمے ہوئے انداز میں ایک ایک چہرے کو وہیں پڑے پڑے سر جھکائے کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا... شکل سے تو کوئی بھی آدم خور نہیں لگ رہا تھا ان میں سے... اس نے دل میں ذرا سا اطمینان محسوس کیا... اور جلدی اٹھ کر اس طرح جلدی جلدی کپڑے جھاڑنے لگا جیسے اس کے بعد ہی کسی کے سر پر چپت رسید کر، سر پر پیر رکھ کر بھاگے گا... مگر پھر وہ اس کے بعد ہی لوگوں سے جان چھڑاتا بڑبڑاتا قریب کے ایک طعام خانے میں جا گھسا... اور اسی طرح سر جھٹکتے ہوئے ایک میز گھیر لی...
"اوئے چھوٹے... ذرا یہ بھاگ کر پانچ روپے کی انسانیت تو پکڑ لانا...!"
وہ چھوٹا آیا... اسکی طرف پر حسرت نگاہوں سے دیکھا... اور بولا...
"صاب جی... پانچ روپے کی انسانیت... آپ انسانیت کو پیسوں سے تولتے ہو...!؟! ھھھھ...!" کتنا خوفناک اور زہریلا قہقہہ تھا...!

ابھی وہ صحیح طرح بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کی سماعت نے ایسی آواز گرفت میں لی جو اس کیلئے غیر نہ تھی... اسکی نظر سامنے کی میز پر شناسا خال و خط سے ٹکرائی اور وہ ساکت رہ گیا... اس نے بے یقینی سے منظر کو دیکھا... وہ شخص کسی کے ساتھ مل کر لاش کو بھنبھوڑ رہا تھا... اس نے ڈر کر ادھر ادھر دیکھا کہ کسی اور نے تو ان دونوں کی طرف نہیں دیکھا... اور یہ تو اس کیلئے قیامت ہی ہو گئی... ادھر تو سارے لوگ ہی لاشیں اٹھائے ہوئے تھے... ہر کوئی مگن تھا... اسے ابکائی سی محسوس ہوئی... کیسے مزے لے لے کر کھا رہے تھے...
"ذہین اوئے... ادھر آ...!"

اس نے دیکھا کہ اسکا دوست ہاتھ ہلا ہلا کر اسے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا اور اپنی میز پر آنے کی دعوت دے رہا تھا... اس کی گردن پر ہچکچاہٹی شکنیں نمودار ہوئیں... مگر وہ پھر ہمت کر کے اس میز پر چلا ہی گیا... لاش ہٹائی جا چکی تھی... غالباً سابقہ بندہ اپنے ساتھ ہی لایا تھا اور لے گیا تھا...
"کون تھا یہ شخص...!؟"

ابھی 'ذہین' نے پوچھا ہی تھا کہ اسکا دوست اٹھ کر باہر چلا گیا اسے انتظار کا کہہ کر... وہ اسی طرح میز پر سمٹا سمٹایا بیٹھا کن اکھیوں سے ارد گرد کا جائزہ لیتا رہا... اسے ایک بار پھر خوف محسوس ہو رہا تھا... کچھ دیر بعد ہی اسکا دوست واپس آگیا... اور ذہین نے ڈر کر آنکھیں زور سے میچ لیں... کیونکہ وہ اکیلا نہیں تھا... وہ اپنے ساتھ اسی بندے کی لاش لایا تھا جس سے کچھ دیر پہلے تک وہ بات کرتا رہا تھا... اس نے لاش اسکے سامنے میز پر پھینکی اور فخریہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھتا ہوا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا... اور اسے شروع کرنے کا اشارہ کرتا ہوا خود بھی میز پر دھرے مردہ جسم کو نوچنا شروع کردیا... 'ذہین' کے بارہا انکار کے باوجود اس نے زبردستی اسے دوستی کا واسطہ دے کر کھانے پر اصرار کرنا شروع کردیا... 'ذہین' نے بدمزگی سے اسکی انگلی اٹھائی اور اپنے دوست کی جانب متذبذب نگاہوں سے دیکھا کِیا... دوست نے سر کے اشارے سے ہمت بندھائی تو اس نے سانس روک کر انگلی اپنے منہ میں منتقل کر لی...! ابھی اس نے ایک ہی انگلی کھائی تھی کہ قریب کی میز سے آواز آئی...
"سنا ہے شہر میں ڈیڑھ سو کے قریب آدم خور آ گئے ہیں...!"
اس کی دہشت سے سانس اکھڑنے لگی اور حواس جاتے رہے... اگلے لمحے جانے کیا ہوا کہ وہ بےدریغ اس تک پہنچ گیا... اور پھر وحشیانہ انداز میں قہقہے لگانے لگا...
"صرف ڈیڑھ سو...!؟ مذاق کی بھی حد ہوتی ہے... عقلوں پر پتھر پڑ گئے سب کی... سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی... سب ہی تو آدم خور ہیں... جی ہاں... نے صحیح سنا... مردہ خور... ہر ایک... کیا کہا...!؟ نہیں...!؟!؟!؟! ہاہاہا... غیبت نہیں کرتے کیا تم...! دھت تیرے کی...!"
اور بندے کو گریبان سے پکڑ کر اٹھا لیا... دوسرے بندوں نے سراسیمگی سے اسے دیکھا...
"کمینے... تُو بھی... تُو بھی یہ کام کر رہا ہے..." وہ اس کو جھنجھوڑتے ہوئے بولا...!
ایک دم سے اسے دوسرے بندوں کا خیال آیا مگر اب تک دیر ہو چکی تھی... اگلے ہی لمحے اس کے سر پر ضرب لگی اور اس کا ذہن پروازِ حماقت میں مشغول ہو گیا...! ڈوبتے ذہن کے ساتھ اس نے دیکھا کے وہ لڑکھڑاتا ہوا بھاگ رہا ہے...!
ـــ۔۔۔ــــ۔ـــــــ۔۔۔ــــ۔۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔۔ـ۔۔۔ــــ۔ـــــــ۔۔۔ــــ۔۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔۔

شہر کی کوئی بھری پری سڑک تھی... لوگوں کا اژدحام تھا... ایک ٹی وی کا مخبر کیمرے کے سامنے کھڑا ہوا تھا... اور کہہ رہا تھا...
"ناظرین! جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں... ایک اشتہاری مجرم 'ذہین احمق آبادی' وزارتِ حماقت کی اہم حماقتوں سمیت فرار ہو گیا ہے... جگہ جگہ انکا مرتکب ہوتا پھر رہا ہے... اہم ترین حماقتیں لے کر فرار ہوا ہے جو ابھی بازار میں متعارف بھی نہیں کرائی گئیں... اب جگہ جگہ حماقت کا ٹھیکیدار بنا پھر رہا ہے... تمام علاقے کے احمق حرکت میں آگئے ہیں اور اسے مسندِ حماقت پر سے ہٹانے کا عزم کر لیا ہے... تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ مسلح بہ حماقت ہے اس لیے اپنی حفاظت یقینی بنائیں... اب یہیں اس نے ایک حماقت کی ہے... یہ دیکھیں اس دیوار پر اس نے خود لکھا ہے...
اگر تم لوگوں کو سچ بتانا چاہتے ہو تو انھیں ہنساؤ... نہیں تو وہ تمھیں مار ڈالینگے... دھت تیرے کی...!'
اور اس کے نیچے ہی ایک شعر بھی رقم کیا ہے ستم ظریف نے...

ہو 'حماقت' کیلیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

مزید اخبار کیلیے ہمارے ساتھ رہیے... کیمرہ مین بغلول کے ساتھ... کذب نیوز... ابو دجال... احمق آباد...!"

رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 30904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.