الفاظ کی جگالی
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
آپ سوچ رهے هونگے که اپنا نام 'ذهین
احمق آبادی' رکھ کر میں نے نامعقولیت پھیلانے کا سامان کیا هے... لیکن یقین
مانیے که میں ایک 'معقول احمق' هوں... اب آپ سوچ رهے هونگے که احمق بھی
کبھی معقول هوا هے...! مگر میں پھر بھی اسی پر اصرار کروں گا که میں ایک
معقول احمق هوں... آخر احمق هی ٹھہرا... کسی کو اعتراض هو تو روک دے...!
ویسے میں ثابت کر سکتا هوں که دنیا میں عقلمند گردانے جانے والے لوگ هی
نامعقول احمق هیں... جنھوں نے پوری دنیا کو حماقت که جال میں پھانس رکھا هے...
اور وه هیں... سائنسدان... جی هاں... کہہ دیجئے که میں لغویت کا پجاری هوں...
جو برا مانوں تو پانچ روپے آپ کے... اگر کوئی احمق کسی بات کا برا مان جائے
تو سمجھ جائیں که اس کا حمق بنڈل هے... تو میں کہہ رها تھا که سائنسدان سب
سے بڑے احمق هیں... ترقی کا جھانسا دے کر چلے هیں هائیڈروجن اور ایٹم بم
بنانے... واه واه... سبحان الله... چشمِ بد دور... بے اختیار گردن چومنے کو
دل چاهتا هے... چاقو سے.... غالباً ناپنا کہنا چاهئے تھا.... احمق سمجھ کر
معاف کر دیجیے.... ویسے آپ کے کون سے پیسے لگ رهے هیں... لگ بھی رهے هوں تو
میری بلا سے... دھت تیرے کی...!
میں دنیا کے چند بڑے احمقوں میں سے هوں... اور مجھے اس پر فخر هے (هے نا
کتنی بڑی حماقت...!)... آپ کے خیال کے مطابق اگر مجھے اپنی حماقت کا احساس
هے تو میں احمق نهیں هو سکتا... لیکن میرا دعوی هے که اس سے میرا حمق نه
صرف مستزاد هو جاتا هے بلکه پہلو بہ پہلو استناد کا متحمل بھی هو جاتا هے...
اور یه احساس هی مجھ سے حماقت کا ارتکاب کراتا هے که اگر میں احمق هوں تو
ذهانت کا احتمال کیونکر کر سکتا هوں... ویسے احمق هوتے هوئے ذهانت کا
ارتکاب بذاتِ خود حماقت هے... هائیں... یه کیا... عقلمندوں کی سی باتیں
شروع کردیں... هو گئی نا حماقت... فلسفه بھونکنا شروع کر دیا... کبھی کبھی
عظیم حماقتیں بھی سرزد هو جاتی هیں مگر اس کا یه مطلب نهیں که آپ مجھے
عقلمند تصور کر لیں... میں. گالی بالکل بھی برداشت نهیں کرتا... هاں...!
عورتیں بھی احمقوں پر جان چھڑکتی هیں... بشرطیکه وه انکے شوهر 'کامدار' نه
هوں... ویسے عورتوں کا مشغله چغد پیدا کرنا هے جو که احمق سے بھی آگے کی
چیز هوتی هے... جیسا که دلاور فگار فرما گئے...
؎ بھولتی جاتی هے دنیا اب یه قولِ مستند
عقل چوں پخته شود انسان احمق می شود
؎ فطرتاً احمق جو هو انساں نهیں هوتا وه بد
اس سے اعلی نسل کے احمق کو کہتے هیں چغد
اس کا نسخه یه هے که ایک ذهین مرد (میرے جیسے) سے شادی کی جائے اور بس...
اس سے آگے کچھ تگ و دو کی ضرورت هی نهیں... وه شخص کچھ عرصے میں هی اپنے آپ
کو چغد محسوس کرنا شروع کردے گا... اور اپنا بیان یاد کر کے... "بقائم ھوش
و حواس... تمام تر بونگیوں سمیت... میں اسکو اپنے حرم میں شامل کرتا هوں..."
یعنی 'قبول هے' که داغے گئے تین فائر یاد کر کے اس کی صدائیں گونجا کرینگی...
شادی کر دریا میں ڈال... یه وهی لوگ هوتے هیں جو شادی سے قبل یه هانکتے
پائے گئے هیں...
؎ یهترا تیرِ نظر، زخمی جگر، جاؤں کدھر
هے آج 'سنڈے' جانِمن، چهٹّیپه هیں سب 'ڈاکٹر'
بات گو انتهائی درجه بےسروپا اور لغو هے... اور هونی بھی چاهئے... احمق کی
بات ایسی نه هوگی تو اور کس کی هوگی...!
ذهین اور احمق میں یهی فرق هے که ذهین شادی که بعد چغد اور احمق، احمق هی
رهتا هے... ذهین کی 'چغدیت' کا ثبوت یه هے که وه پہلی کے هوتے هوئے دوسری
شادی بھی اکثر کرتا هے اور وه بھی ایسی عورت سے جو گزشته بیوی سے کم
خوبصورت هوتی هے... لوگ آوازے کستے هیں مگر اسے اس وقت تک پتا چل چکا هوتا
هے که خوبصورتی کدھر اور کس کس طرح کاٹتی هے... کیونکه مرد صورت پرست هوتا
هے جبکه شوهر سیرت پرست... کچھ عورتیں صبح شوهر کو 'چھوڑنے' سے قبل اچھی
طرح دم کرتی هیں که هاتھ سے نکل نه جائیں... لیکن مسئله یه هے که وه دم
هوتا هے ناک میں جو بعد ازاں دوسری شادی پر منتج هوتا هے... مرد ایک دوسرے
کی توهین کرتے رهتے هیں لیکن انکا مقصد توهین نهیں هوتا... عورتیں ایک
دوسرے کی تعریف کرتی رهتی هیں، انکا مقصد بھی تعریف نهیں هوتا... مردوں پر
سونا حرام هے اور شادی کے بعد تو اور شد و مد سے سونا بھی...! خواتین
عموماً پابندی پسند نهیں کرتیں چاهے وه سیٹ بیلٹ کی هی کیوں نه هو... وه
جرمانے سے بچنے کیلئے اسے کندھے سے گزار کر گود میں رکھ لیتی هیں... یا پھر
هاتھ میں پکڑے رهتی هیں... غالباً یه کوئی نفسیاتی سرشت هے... مگر جب کوئی
حادثه هوتا هے تو پھر وه یا تو گاڑی کو رفتار میں شکست دے کر شیشے سے باهر
پڑی هوتی هیں یا ماتھا پھوڑ لیتی هیں... هاتھ میں پکڑی هوئی سیٹ بیلٹ بذاتِ
خود مضبوط هوتے هوئے بھی انکو نهیں بچا سکتی... هم مسلمانوں نے بھی کلمے کو
قلب میں اٹکانے کے بجائے فتووں سے بچنے کیلئے بس گلے میں پھنسا رکھا هے...
وقتی کام تو چل جاتے هیں... نکاح، جنازے وغیره تو بھگت جاتے هیں... مگر
امتحان کا ایک جھٹکا همیں اسلام سے باهر پھینک دیتا هے کیونکه عروة الوثقی
همارے قلب میں نهیں بلکه گلے میں اٹکا هوتا هے...!
خیر... میں تو یهاں تک کہنے کو تیار هوں که احمق کی شادی بھی اسی وقت
نموپذیر هوتی هے جب عورت اس کی حماقت کو لیاقت سمجھ لے... مگر بعد میں کفِ
افسوس ملتی ره جاتی هے که کیا حماقت هوئی... اب انھیں کون بتائے که حماقت
چھوت اور متعدی ضرور هے مگر مھلک نهیں... هاں کبھی کبھی مھلک بھی هوجاتی هے
جس کا نتیجه سائنسدان هوتے هیں... جو خلائی دوڑیں لگاتے پھرتے هیں اور نیچے
زمین والے دیکھتے ره جاتے هیں که ارے ارے! پہلے دنیا کے مسائل تو
سلجھالو... پھر بھلے چاند کے مسائل بھی اپنے سر لیتے رهنا...!
عشّاق کی ایک اور کھیپ بھی هے جو عجب وضع کی باتیں هانکتے هیں... جیسے...
شعر ملاحظه فرمائیے...!
؎ ﻣﺠﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ، ﻣﺠﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ'
ﻧﺜﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﮔﺮ ﺳﻮ ﺑﺎﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮞ
اس شعر کا جواب اس کے علاوه اور کیا هو سکتا هے که موصوف کو یه 'گُر' کی
بات بتائی جائے که جب کوئی لڑکی گھاس هی نه ڈالے گی تو سو دفعه کیا، هزار
دفعه بھی پیدا هو جاؤ اپنے اوپر هی نثار هونا پڑے گا... ذرا 'فئیر اینڈ
لولی' لگاؤ اور زنانیوں والی شکل بناؤ... ویسے بھی آج کل یار لوگوں کو
داڑھی کافی وزنی معلوم هوتی هے...!
چونکه میں 'ماهرِ لڑکیات' نهیں هوں که آپکو عورت که موضوع پر بےتکان بور
کرکے جھک مارتا رهوں... تو میں نے سوچا هے که 'طلسمِ هوشنما‘ لکھ ڈالوں...
کیا خیال هے...!؟ اور دور چونکه ترقی کر چکا هے اس لیے حال سے هی مطابقت
پیدا کرنی پڑے گی... بادشاهت کی جگه جمھوریت اور اسکے عھدے بیان کرنے
پڑینگے...! ایک اقتباس سے اپنی عقل کو شکم سیر کرنے کی کوشش کیجیے...!
"راوی بیان کرتا هے که صدر کا نسب چونکه عمرو عیار سے ملتا تھا، اسی لیے اس
کی گلیم اسے وراثت میں پہونچی... اسی وجه سے لوگ اس کے صورت آشنا نهیں
تھے... راوی ماجرا بیان کرتا هے که جن ایام وه اس منصب تک پہونچا تو سردیوں
کا موسم بجوبن تھا جو گلیم اتانے میں مانع تھا... والله اعلم... ان ایام
میں جو وهاں کا وزیرِ اعظم تھا وه ایک 'دراز' قد شخص تھا... وهی وهی جی
هاں... جو الماری کے ساتھ هوتی هے... نه صرف طول اور عرض کی حامل هوتی هے
بلکه شکم بھی رکھتی هے... تو یهاں سے اس وزیر کا حال بتامّل سنو که اسکی
عقل ایک 'دیو' نے ایک دراز میں بند کر رکھی تھی... جو بعد ازاں تحقیق و
توثیق سے بینک کی ثابت هوئی... جی هاں جی هاں... وهی...! اس وزیر کو 'دورے'
پڑتے رهتے تھے، وه بھی غیر مقامی... راوی مزید گوش گزار کرتا هے که وزیر کے
اسی کھلواڑ که باعث کچھ لوگوں نے اس کے کاخ و ایواں کے در و دیوار هلانے
کیلئے انکے سامنے میله لگالیا... اور دھما چوکڑی کر کے مدعی هوئے کہ همنے
کشتیاں جلا دی هیں... بعدهُ وزیر نے اس بابت انھیں قاصد رسید کیا جو که
'عالمِ رویا' میں ان تک طارق بن زیاد کا پیغام لیکر نمودار هوا.. 'کاکے!
کشتیاں جلانے اور بچیاں نچانے میں زمین آسمان کا فرق هے...!' اسی دوران
'محترم اوٹ پٹانگ' نامی بندے نے کہا کہ اگر خود کو دیوبندی، بریلوی یا شیعہ
کہنے سے یا سندھی بلوچی کہنے سے اگر 'قوم' بٹتی ہے تو خود کو ایک خاص جماعت
سے منسوب کرنے پر کیوں نہ بٹے گی...!؟ یا سارا تفرقہ مذہب ہی ڈال رہا
ہے...!؟ مگر طرفین کے کانوں کی جوئیں تک لمبی تان کر 'میٹھاپان' نوشِ جان
کر کے 'خوابِ جوں' که مزے لے رهی تھیں...!“
سچ بولوں تو میرے کان پر کبھی جوں رینگتی هی نهیں... 'جوں کش' شیمپو کا
کمال... اور جب کبھی یه انهونی هو میں اس کو مار دیتا هوں... برداشت نهیں
هوتی ناں...! حالانکه اسے تھپک تھپک کر سلا دینا چاهئے... بےچاری کی اچھی
بھلی نیند خراب هوجاتی هے هماری حرکتوں سے اور اسے رینگنا پڑتا هے... دھت
تیرے کی... یه کیا شروع کر دیا میں نے... کچھ خیال نه کیجیے گا... بس کھسک
جاتا هوں... احمق هی ٹھہرا...! |
|