نیم ملّا

کالج کے زمانے میں مَیں اپنی مقامی مسجد کا نائب اِمام اور مؤذن تھا... ہونا یہ ہوا کہ امام صاحب کو کہیں جانا پڑگیا... غالباً گاؤں... اور نماز کی بھاری ذمہ داری میرے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی... کیونکہ حافظ تھا... اللہ جانتا ہے میں اس قابل نہیں تھا... خیر... اپنی 'امامی زندگی' کے دوران مجھے اپنا آپ بالکل کنواری لڑکیوں کی طرح لگا... جس طرح کنواری لڑکیوں کے ساتھ اکثر ناانصافی ہوتی ہے کہ ہلکی سی چوک ہوئی نہیں اور ہر وہ بندہ جسکا واسطہ ہے یا نہیں بڑھ بڑھ کے لاف گزاف میں مشغول ہوجاتا ہے... ارے اگر انکی عزت نازک ہے تو انکے ساتھ معاملہ بھی ذرا ہولا رکھو... ہر گلی میں چلتا شخص علیحدہ سے لتاڑ رہا ہے... اور ہر وہ بندہ اس 'حرافہ' کو پہچان جاتا ہے جسکو عام حالات میں اس کے وجود کا علم بھی نہیں ہوتا... تب مجھے پتا چلا کہ مولوی ہونا اور لڑکی ہونا کتنا مشکل بنادیا گیا ہے ادھر... جو لوگ عام حالات میں مسجد کے پاس پھٹکتے بھی نہیں وہ ایسی بات پر سب سے پہلے مسجد میں پہنچ جاتے ہیں... 'غیرتِ ایمانی' جاگ جاتی ہے یک دم... اور وہ اودھم مچتا ہے کے پناہ خدا کی... میں اس دور میں نجی کالج میں پڑھتا تھا اور وہ بھی نیا نیا کھلا تھا... میں اس کالج کی پہلی 'کھیپ' میں تھا... اس وجہ سے کافی سختی تھی کیونکہ پہلے اپنا نام بنانا تھا کالج والوں کو... سردیوں کا زمانہ تھا... صبح ساڑھے چھ بجے فجر کی نماز ہوتی تھی اور سات دس پر کالج... صبح کی نماز طویل ہوتی ہے... سات آٹھ منٹ میں دو رکعت پڑھانا... گھر آکر تیار ہونا... گھر سے گاڑیوں کے اڈے تک کا فاصلہ پانچ سے دس منٹ میں طے کرنا... اور اس کے بعد کالج تک کا دس کلومیٹر کا فاصلہ... اسی وجہ سے روزمرّہ ورزش بھی ختم ہوگئی تھی جو کہ گھر کے پیچھے غیر آباد چٹانوں پر وقوع پذیر ہوتی تھی... گھر ایک چھوٹے سے پہاڑی قطعے پر واقع تھا... اس طرح کالج سے ہر روز لیٹ ہو جاتا تھا اور سزا ملتی تھی... میرا دل چاہتا تھا کہ کسی دن اپنے مقتدیوں کو بتاؤں کے ان کے 'امام' کی کالج والے کیا درگت بناتے ہیں... ان میں سے زیادہ تر ویسے بھی وزیرستانی اور افغانی پٹھان تھے... سخت کوش... لیکن پھر رحم آ جا تا تھا کالج والوں پر... سب اسی طرح چلتا رہا... ایک دن سزا سے تنگ آکر ہوا یہ کہ میں فجر کی نماز میں کالج کی وردی پتلون قمیص میں چلا گیا... اور اسی میں امامت کرادی... ذہن پریشان بھی تھا کسی حد تک اور اپنے آپ کو کہہ رہا تھا "بیٹا تُو تو گیا آج"... اس دن جیسی قرأت کی تھی شاید میں نے پوری زندگی میں نہ کی ہو... وہ سوز و گداز... پتا تھا کہ اب کچھ کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا... دعاء کے بعد رُخ جو الٹا تو گلا بنجر ہو چکا تھا... تھوک نگلنے کی کوشش کی تو بڑی دقّت ہوئی... کچھ لوگ پشتو میں کچھ شروع ہو چکے تھے جسکی میرے ذہن نے کچھ اس طرح کی تشریح کی "کافروں کے لباس میں نماز پڑھا رہا ہے... شرم نہیں آتی...!" اور بھانت بھانت کی بہت سی بولیاں... کچھ باقی پٹھانوں نے ہمت بھی بندھائی کہ کچھ نہیں ہوتا... بس احتیاط کیا کرو... اسے لباس کے اندر پہن کر آؤ اور نماز پڑھا کر اوپری لباس اتارو اور کالج کو سدھارو... خیر میں تو جلدی میں تھا اس لیے فوراً رفوچکر ہوگیا... کالج سے واپسی پر میں نے اپنی اس حرکت کیلئے جواز تراشنا شروع کیے... انھی دنوں نیا نیا 'سفرنامۂ تُرکی' پڑھا تھا جس میں مصنّف صاحب نے لکھا تھا کے انھیں وہاں مسجد میں ایک کلین شیوڈ، تھری پِیس میں ملبُوس بندے سے امام مسجد کے طور پر متعارف کرایا گیا... اور اسکی شستہ عربی اور بحرِ علم میں غوطہ زنی کا انھوں نے بتاتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا... شکل سے بالکل نہیں لگتا تھا... ایسا اس باعث ہوا کہ تُرکی میں سرکاری ملازم داڑھی نہیں رکھ سکتا اور کسی سرکاری عمارت میں کوئی عورت بحجاب نہیں رہ سکتی... قانُون طیب اردگان نے نہیں بنایا لیکن وہ اسے ماننے پر مجبور ہیں... قانون میں تبدیلی کیلے وزیرِ اعظم سے زیادہ اختیارات چاہیے ہوتے ہیں... خیر تو میں اپنے معاملے کے جواز کہاں ہزاروں کلومیٹر دُور کے خطے میں تلاشتا پھر رہا تھا... عقل کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑنا اور کسے کہتے ہیں... حالانکہ دونوں جگہوں کے حالات و واقعات مختلف ہیں... اسی ادھیڑبن میں اپنے مؤقف کی حمایت میں ایک جذباتی تقریر تیار کر کے مطمئن ہو رہا... "کیا پتلون میں نماز نہیں ہوتی... ترکی میں جو لوگ نماز پڑھ رہے ہیں کیا انکی نماز نہیں ہوگی... محض ترکی ہی پر کیا موقوف... مغربی ممالک کے مسلمانوں کی نماز نہیں ہوتی کیا...!؟" وغیرہ وغیرہ... بعد میں ماما بابا سے جب سامنا ہوا تو میں اپنی تیار کردہ تقریر دہرانے کیلئے بالکل تیار تھا... میں کھنکھار کر شروع کرنے ہی لگا تھا کے میرے بابا بولے...

"وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْل... اور فتنہ قتل سے شدید تر ہے... اگر علاقے میں فساد ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا... کیا خیال ہے...!؟"

میں گنگ رہ گیا... میری آنکھوں نے پانی اگلنا شروع کردیا... جس حالت میں تھا اسی میں رہ گیا... اللہ کی بات کے آگے کیا کوئی اور بات ہو سکتی تھی...!؟ اسکے بعد جب میں نے اس معاملے کو ہر جہت سے دیکھا تو انکشاف ہوا کہ میں صحیح تھا یا نہیں پر وہ بھی غلط نہیں تھے... امام تو ہوتا ہی وہ ہے جو سنّت کا اتباع کرے ظاہری اور باطنی بھی... ترکی سے کیا مطابقت ادھر کی...!؟ وہاں حالات ہی مختلف... اللہ کا شکر ہے کوئی فساد نہیں ترشوا سکا شیطان وہاں... میرے جیسے نیم ملّاؤں ہی کی وجہ سے اصلی مولوی لوگ بدنام ہو جاتے ہیں شاید... اور لوگ میرے جیسے لوگوں کا 'علم' دیکھ کر واہ واہ کرتے نہیں تھکتے... ہمیں تو ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ 'علم' اور 'معلومات' میں فرق کیا ہے...!؟ بس پھر اسکے بعد سے میں نے کالج لیٹ پہنچنے اور اسکے بعد سزا لینے پر اکتفا کیا اور سر دھننا شروع کردیا... یوں ہی سہی... شاید ہر روز کوئی نہ کوئی گناہ جھڑ ہی جاتا ہوگا...!
 

رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 30905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.