حماقت نامہ ٧- خلائی مخلوق
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
ٹرانسمیٹر سے تحکم بھری آواز نشر
ہو رہی تھی...!
"دِس اِز ایچ کیو (ہیڈ کوارٹر)... جلدی کرو... جنگل کے شمال مشرقی قطعے پر
کچھ پراسرار قسم کی حرکات ریکارڈ کی گئی ہیں... ابھی بھی وہاں کچھ جاری ہے...
سارے پھیل کر اس اَور بڑھو...!"
"راجر کمانڈر...!" اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنی بندوق کاندھے تک
اٹھا کر آگے قدم بڑھانے شروع کیے... اس کی چال نپی تلی اور بے آواز تھی...
کمر کو ہلکے سے موڑے بندوق آنکھ کے قریب رکھے آگے بڑھتے ہوئے وہ رات کی
تاریکی میں جنگل ہی کا حصہ معلوم ہو رہا تھا... ہلکی سی آہٹ پر رک کر اس نے
سانس روک کر غور کیا... کسی کی آواز ہی تھی... جو آگے بڑھنے پر تدریجاً
تدریجاً بڑھنے لگی... اس کو اپنے قدموں اور ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش محسوس
ہوئی... ایک لمحے کو وہ تھما مگر پھر کچھ سوچ کر دانت پر دانت جمائے آگے
بڑھنے لگا... خلائی مخلوق کیسی ہوگی...!؟ اس کے ذہن میں عجیب عجیب خیال
آرہے تھے... اس نے سر جھٹکا... کچھ دور چل کر راہ نے خم کھایا تو اس نے
انسانوں جیسی کسی مخلوق کو ہی پڑا ہوا پایا... وہی قد کاٹھ... وہی اعضاء...
وہ دم سادھے اور آرام سے آگے بڑھنے لگا... اس کے قریب پہنچ کر اس نے ہلکی
سی آہٹ پیدا کی مگر ردِ عمل ندارد... کچھ دیر اسی طرح اس نے اطمینان کیا
اور پھر بندوق لٹکا کر چھوٹی پستول نکال لی اور ٹارچ روشن کرلی... اس کے
چہرے پر کی تو کچھ جانا پہچانا معلوم ہوا... ستواں کان... چپٹی آنکھیں...
وہ کوئی انسان ہی تھا... اسے خیال آیا کے ایچ کیو کو رپٹ کردینی چاہئے...
وہ مطمئن تو ہو ہی چکا تھا اس لئے وہیں پر ٹرانسمیٹر چلا لیا اور انھیں
ماجرا کہہ سنایا کہ سابقہ کسی اپنے جیسے سے ہی ہے... حکم ملنے پر اسنے
ٹرانسمیٹر کھلا چھوڑ کر جامہ تلاشی لی جس سے اس بندے کی آنکھ کھل گئی... اس
نے جلدی سے اٹھ کر ٹارچ کا رخ اس کی طرف کردیا جس سے اسکی آنکھیں چندھیا
گئیں اس نے آنکوں کے آگے ہاتھ کر کے زد سے بچنے کی کی کوشش کی... ذہن ابھی
تک سویا ہوا تھا... وہ گویا ہوا... "ہالٹ! تم نشانے پر ہو... کوئی غیر ذمہ
دارانہ حرکت کی تو انجام کی کسی کو پرواہ نہ ہوگی..!" فوجی نے اس کا کارڈ
نکالا اور بولا... "آخا... تو جناب ہیں یہ... ذہین احمق آبادی... مجرم...
کون نہیں پہچانے گا آنجناب کو...!" اور پھر ٹرانسمیٹر اٹھا کر بولا "جناب
یہ تو ذہین احمق آبادی ہے... کوئی غیر ارضی مخلوق نہیں...!" اس کو غیر ارضی
مخلوق کے منصب سے ہٹانے پر 'ذہین' نے سر تیز تیز نفی میں ہلایا کہ وہ خلائی
مخلوق ہی ہے مگر کون سنتا تھا... اس کو ٹھہرنے کا حکم ملا اور اسے زد پر
رکھنے کا بھی تآنکہ باقی فوجی بھی موقع پر پہنچ جائیں...! اس نے ٹرانسمیٹر
بند کیا اور ذہین کو گھورتا ہوا بولا کہ اس نے خود کو غیر ارضی مخلوق کیوں
کہا... ذہین اس کی پستول پر نظر جمائے بولا... "یہاں کسی خلائی مخلوق نے
نہیں آنا... کیونکہ یہاں پہلے سے ہی موجود ہے... میں ہوں...!" اپنے سینے پر
ہاتھ مارتے ہوئے ذہین نے جملہ مکمل کیا... اس کا تو پارہ ہی چڑھ گیا... "کیا
بکواس کر رہا ہے رے... عقل سے پیدل ہے بے کیا...!؟" ابھی وہ کچھ اور کہنے
ہی لگا تھا کہ اس کی پستول کو جھٹکا لگا اور وہ اگلے ہی لمحے ذہین کے ہاتھ
میں اس کو منہ چڑا رہی تھی... "ہاں یارا... شکل سے بھی پیدل اور عقل سے بھی
پیدل... اب عقل پیدل ہی گھاس چرنے جائے گی ناں... بائیک تو لے کر دینے سے
رہا... کیوں... کیا سمجھا رے...!؟" ذہین آنکھ دباتے گویا ہوا... اور اسکو
غیر مسلح کر دیا... اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے اور ذہین کی پستول کا
رخ اسی کی طرف تھا... کچھ دیر تو وہ گم صم ہی رہ گیا... مگر پھر مصلحت آمیز
انداز میں گویا ہوا... "تم ہو کیا چیز... تم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہو...!؟
اپنے آپکو ہمارے حوالے کردو... کچھ بھی نہیں ہوگا... میرا یقین کرو...!"
ذہین اسکی بات سن کر مسکرایا... "مجھے تو خود بھی نہیں معلوم کہ میں کیا
ہوں... میرے ساتھ رہتے ہوئے بڑے بڑے ٹھیک ہو گئے... میں خود بھی اپنے ساتھ
رہتے ہوئے ٹھیک ہوگیا... دوسروں کی ڈگر چھوڑ کر...!" اس نے بے چینی سے
پہلُو بدل کر پھر کہا... "ذرا سوچو تو... جو تم حرکتیں کر رہے ہو... اس کے
بعد تمہاری گھر والی کا کیا ہوگا...!"
"ہونا کیا ہے... تاحال تو وہ خود بھی نہیں ہوئی... دراصل میرے چھوہاروں کا
ابھی تک موسم ہی نہیں آیا...!" وہ شرماتے ہوئے بولا... "ہاں مگر مجھے دفتر
والی... راستے والی... پڑوس والی... سکول والی... اور بہت سی 'والیوں' کی
بڑی فکر ہے کہ انکا کیا ہوگا... بس ذرا زلفوں میں الجھا ہوا ہوں... اپنی
زلفیں تو ہیں نہیں... کسی اور کی زلفوں پر اکتفا کیا برا... کئی زلفیں میری
'استطاعت' سے بھی بڑی ہیں مگر کیا کیجئے... اب اتنے بھی کسی 'زلف' کے دن
برے نہیں آئے کہ ذہین اسے باجی کہنا شروع کردے...!" ذہین نے حماقت جھاڑی...
اسے 'محترم اوٹ پٹانگ' کا انتظار تھا... جو اس کیلئے کچھ کھانے کو لینے گیا
ہوا تھا...!
"دیکھو! تمھیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے... ذرا سمجھنے کی کوشش کرو...!"
وہ سمجھانے والے انداز میں گویا ہوا تو ذہین بولا... "تو پھر ایسا کرو کہ
مجھے جانے دو... کیا فرق پڑتا ہے...!"
"میں نمک حرام نہیں ہوں...!" وہ غصیلے انداز میں بولا...!
اگلے لمحے ذہین نے چاقو ہوا میں لہرایا اور اسے دکھاتے ہوئے گویا ہوا...
"تمھیں معلوم ہے... اس سے جب بازُو پر لکیر کھنچتی ہے ناں... تو سارا نمک
باہر رس آتا ہے...! ہاں جی...!"
ابھی وہ اس سے بات کر ہی رہا تھا کہ کہیں سے 'محترم' نمودار ہوا اور اپنے
ہاتھ کے ڈنڈے سے اسکے سر کے پچھلے حصے پر ضرب لگائی... وہ بیہوش تو نہ ہوا
پر گر گیا... محترم نے بھاگتے ہوئے ہانک لگائی کہ "جلدی کر اوئے... پورا
دستہ آرہا ہے ادھر...!"
ذہین نے تذبذب سے پہلے اسکی طرف دیکھا اور پھر 'محترم' کی طرف... اور پھر
جلدی سے اس پر جھکا... کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کان کے پاس منہ لے جاکر
سرگوشی کی... "ان سے کہہ دینا کہ میں انکا دشمن نہیں ہوں... مجھے میرے حال
پر چھوڑ دیں... ورنہ مجھے اپنی جان بچانی بھی آتی ہے اور پیاری بھی ہے...
اور ہاں... میں اصل میں غیر ارضی مخلوق ہوں... اور تم بھی... میرا ادھر سے
کوئی تعلق نہیں... جیسے تمہارا نہیں... تمھیں پتا ہے... ہمیں جنت سے نکالا
گیا تھا... ہم اُدھر ہی کی مخلوق ہیں... اور ادھر ہی کا راستہ ڈھونڈ رہے
ہیں... کیوں... کیا سمجھے...!" اسکے جواب میں وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولا...
"تم خلائی مخلوق نہیں ہو... بلکہ طلائی مخلوق ہو... تت... تلائی متلوت...!"
اسکا کاندھا تھپتھپا کر ذہین کھڑا ہوا ہی تھا کہ جوتوں کی آواز آئی... اسنے
چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور سر پر پیر رکھ کر دوڑ لگادی...
اس نے آخری الفاظ بےہوش ہونے سے پہلے جو اسکے سنے تھے وہ تھے...
"دھت تیرے کی...!"
اے 'عاقلِ منطق بِیں!' گیرم کہ 'حُمق' فانیست
لیکن تُو نمی بینی، طوفاں بہ 'حُمق' اندر
(اے منطق پرکھنے والے عقلمند! مجھے معلوم ہے کہ حمق فانی ہے، لیکن تُو نے
نہیں دیکھا وہ طوفان جو اس کے اندر پوشیدہ ہے...!)
|
|