بزبانِ گردہ و پھیپھڑا

افطاری کا وقت ہے... انسان کا گلا کاسہ لئے لڑکھڑاتا ڈگمگاتا نمودار ہوتا ہے... 'مجھے پانی دے دو...' بیچارے کی زبان تک لڑکھڑا رہی ہے... معدہ جس سے مَردوں کے دل کا راستہ نکلتا ہے بچوں کی طرح پچھاڑیں کھا رہا ہے... پیٹ اندر کو دھنسا جا رہا ہے... جسم خود دسترخوان یا میز پر براجمان ہے... کانوں میں تلے جانے کی چچناہٹ گونج رہی ہے... سامنے فروٹ چاٹ رکھی ہے... آنکھیں گھڑی پر ہیں... دماغ ہنکارے بھر رہا ہے 'لگتا ہے گھڑی خراب ہے، وقت گزر کے ہی نہیں دے رہا... شروع ہو جاؤ... موج مناؤ...' افطاری کی چیزوں کی کششِ ثقل ہاتھوں کو کھینچ رہی ہے... دل کی دھڑکن معدوم ہونے کے قریب ہے... بار بار پہلُو بدلے جا رہے ہیں... آنت بی بی علیحدہ آہیں بھر رہی ہیں اور کبھی کبھی اچک اچک کر دیکھنے کی کوشش بھی... مضمحل پھیپھڑے پھولی سانس کے ساتھ خفا ہوئے بیٹھے ہیں... اور ادھر دِل ہے... جو ہر عضو کی پکار پر اس کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہہ رہا ہے 'بکواس بند کرو... بس خاموش... خبردار کوئی انّی مچانے کی کوشش کی... چپکے بیٹھ رہو... او گلے کے بچّے! سدھر جا... تیرے باپ کو بتا دونگا تیری حرکتیں... ابے او معدے کی اولاد! ایک جھانپڑ رسید کرونگا... ابے او ہاتھ! تیرے ساتھ کوئی ہاتھ کردونگا... او چھوٹی آنت... تُو چھوٹی ہی رہے گی کیا... اب بڑی بھی ہو جا... ہمیشہ بچی ہی رہے گی...! اوئے نظر کی بچّی! قدم باہر نہ دھر حد سے... یہ میرے رب کا حکم ہے... تمہاری ایسی کی تیسی... دھت تیرے کی...!' اس کا بس نہیں چل رہا کہ ان اعضاء کو قتل کردے... پابندِ حوالات کر دے... ادھر وقتِ افطار ہوا اور دل نے رب کا حکم بجا لانے پر سر دھننا شروع کر دیا... ہاتھ کی لپک اور نگاہ کی جھپک دیکھنے کے لائق... دماغ بھی خوش... معدہ پھولے نہیں سما رہا... گلا پاؤں پسارے غسلِ شربت میں مصروف... جنابِ پیٹ حدودِ اربعہ بڑھانے بلکہ حدودِ سِتّہ بڑھانے میں مصروف... فروٹ چاٹ صاحبہ آنتوں میں چہل قدمی شروع کر چکی ہیں... پیٹ کی کَل (مشینیں) دھڑا دھڑ چل رہی ہیں... ایک ایک عضو نشاط میں لہریے لے رہا ہے... اور تب سمجھ میں آتا ہے کہ افطاری روزہ دار کیلئے کیوں خوشی کا موقع ہے... اور کس طرح طبعی یا ظاہری طور پر محنت کرنے سے باطنی طاقت یعنی دل کی اجارہ داری نصیب ہوتی ہے جو تقوی کا گڑھ ہے...

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار/تقوٰی دار بنو.

سورت البقرہ- آیت ١٨٣

یہ کیا...!؟ روزے سے تقوی کیسے...!؟ آنکھیں غلط جگہ پر نہیں اٹھتیں... ہاتھ کشش کے باوجود رُکے رہتے ہیں... قدم بےچین تو ہوتے ہیں مگر بےقابُو نہیں... پورے سال کے گناہ گاروں تک کے کان کہتے ہیں 'یارا! گانا سننے کا دل چاہ رہا ہے... نئی ایلبم آئی ہے...!' دوسری اَور آنکھیں ہیں کہ 'مُووِی' دیکھنے پر مصر ہیں اور منہ پھلائے بیٹھی ہیں... ملتجی نگاہوں سے دل کو تک رہی ہیں... 'صرف ایک مرتبہ... پلِیز...!' مگر جنابِ حضرتِ دِل ہیں کے اڑے بیٹھے ہیں... 'سوال ہی نہیں پیدا ہوتا...! دماغ تو نہیں چل گیا... عقل گھاس چرنے گئی ہے بے کیا... یہ رمضان ہے رے...!' اور ان سے احتراز دل میں ایک سکون مؤجزن کردیتا ہے جو دِل کو کبھی حاصل ہی نہیں ہو پاتا... پھر سمجھ آتا ہے کہ روزہ جیسی جسمانی مشقت سے رُوحانی فائدہ کیونکر حاصل ہوتا ہے... اور سکون رگوں تک میں جاگزیں ہوتا ہے...

ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتِ الْاَجْرُ اِنْشَاءَ اللہُ
پیاس جاتی رہی اور رگیں سیراب ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر کو بھی ثبات ہے.

اللہ تعالی مسلمانوں کو ایک مہینہ دیتا ہے کہ وہ اس ایک مہینے میں اپنے اوپر قابو پائیں... شیطان کو بیڑیوں میں جھونک دیا جاتا ہے... اور تیس دنوں تک یہ جنگ اس کے اندر جاری رہتی ہے... اور کون جیتتا ہے...!؟ دِل... جی ہاں... پورے تیس دنوں تک دل ہی جیتتا ہے... آپنے دیکھ رکھے ہونگے اشتہار... تِیس دِنوں میں وزن گھٹائیں... پینتالیس دنوں میں یہ کریں... مگر کیا لوگ کبھی وہ پورا کرتے ہیں...!؟ نوپ... مگر ایک مسلمان ہی ہوتا ہے جو یہ پورے تیس دن مکمل کرتا ہے... لیکن اسے نہیں معلوم کہ وہ کیوں کرتا ہے... اگر اسے پتا ہو کہ یہ تقوی کو بڑھانے کیلئے ہے تو کیا ہی بات ہے... یہ تیس دن محض مشق ہوتی ہے...! جبھی شیطان کو تیس دنوں کی طویل چھٹیوں پر بھیج دیا جاتا ہے...! جس طرح پولیس اور دوسرے محکموں میں میدانِ عمل میں آنے سے پہلے نقلی آگ کو بجھانے کی، نقلی مجرموں کو پکڑنے کی، مصنوعی طور پر جہاز اڑانے کی مشق کرائی جاتی ہے... اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے... بالکل یہی حال ہے ادھر بھی...! گیارہ مہینوں کی جنگ کے بعد زخموں سے چُور دِل محاذ سے لوٹتا ہے تو اس کی مرہم پٹی کی جاتی ہے... اب آگے چلیں... جب کوئی سند وغیرہ ملتی ہے خوشی منائی جاتی ہے کہ نہیں...!؟ آہاں... بالکل اسی طرح تیس دنوں بعد جب آپکو تقوی کی سند ملتی ہے تو عید آتی ہے... خوشی مناؤ...!

مگر اس سب کے باوجود...

ابھی کسی سے پوچھیں رمضان اتنا خاص مہینہ کیوں هے...!؟ کسی بچے سے هی پوچھ لیں... کیوں هے...!؟ کیونکہ اسمیں سموسے پکوڑے هوتے هیں... کیونکہ اس کے بعد عید آتی هے... کیونکہ اس میں روزے رکھتے هیں... کیونکه اس کے شروع میں لوگ مسجد میں جانا شروع هو جاتے هیں اور آخری دنوں میں نماز کے قیام کے دوران صفوں پر خرّاٹے لیتے هیں... کیونکہ تراویح هوتی هے... هر شام دعوت هوتی هے... نهیں نہیں... واللہ ایک بھی نهیں...!

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِّلنَّاسِ ﴿البقرة-۱۸۵﴾
'رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل هوا جو لوگوں کیلئے هدایت هے'

جی هاں... رمضان خاص هے باعثِ قرآن...! روزوں کی اپنی اہمیت علیحدہ... اس مہینے میں قرآن نازل هوا تھا...!
الله تعالی یہ بھی فرما سکتا تھا...

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ تَصُوْمُوْنَ فِیْهِ
'رمضان کا مہینہ جس میں تم روزے رکھتے هو'

لیکن نهیں... الله تعالی نے رمضان کا تعارف قرآن کی نسبت سے کروایا هے...! نشانیاں هی نشانیاں...! غور کر تو دیکھو...!

بس یهی کہنا تھا...!

بلغوا عنی ولو آیة

#خدا_کے_بندو_قرآں_کو_سمجھو

رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 28386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.