المیہ

 ایک دفعه ایک محترمه نے ف ب کی پچھلی کھڑکی سے کچھ خطوط پھینکے... اور وه بھی پتھر میں باندھ کر... آکے لگے بھی وه اس نامعقول کھوپڑیا پر... بس پھر کیا تھا، حماقتوں کا اخراج اس میں سے ایسا هوا گویا یه سویس بینک رهی هو... ان کا خط کھولا تو لکھا تھا... 'یه بات خیال میں رهے که مابدولت احمقستان کی ملکه عالیه هونے کا شرف رکھتی هیں'... اور میں نے حیران و پریشان هو کر کہہ دیا که بالکل رکھیں مگر میری تو ابھی شادی بھی نهیں هوئی... غالبا 'خوش فهمی' کا شکار هیں آپ... لیکن پھر جلد هی انھوں نے اس بات کی تصریح کردی که 'احمق آباد اور احمقستان میں وهی فرق هے جو کرته اور شیروانی میں هے'...! میں نے احمقستان کا حدودِ اربعه معلوم کرنے کی هر چند کوشش کی مگر ان کا جواب تھا 'یهاں حدود خان موجود هیں نه هی اربعه بی بی کا وجود'...!

پچھلے کچھ عرصے میں ف ب جتنے بندوں کو نمبر دیا هے سارے اتنے ستم ظریف هیں که نه پوچھئے... مس کالیں مارتے هیں... مجال هے جو بنده اٹھا سکے... مس کال تو مجھے ایسے معلوم هوتی هے گویا کسی کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگنا... ویسے یه بھی مجھے اپنی ان حرکات کا شاخسانه معلوم هوتا هے جو بچپن میں کی تھیں...! والله اعلم...! (یه علیحده بات هے که میرا اپنا موبائل بھی قرنوں تک بغیر بیلنس تناول کئے فاقه مستی سے شغل کرتا هے...!) اس سب که باوجود بھی مجھے اپنے یه 'گھنٹی' بجاکر بھاگنے والے 'نئے' دوست پسند هیں... یاد تو کرتے هیں... اگلوں کی طرح تو نهیں... جو 'مس کال' تو چھوڑ 'مسٹر کال' بھی نهیں کرتے...!

انھی میں سے ایک دوست نے همت کر کے کال کی تھی... نام تو انکا بڑا تگڑا تھا مگر لهجه کراچی والوں کی آواز کی مانند چپٹا تھا... تھوڑی سی بات کرنے کے بعد وه بولے که میں تو آپکو آپکی تحاریر کی مانند سمجھا تھا... ان کے لهجے سے مایوسی چھلک رهی تھی گویا میں مسخرے کے بجائے نستعلیق ثابت هوا تھا...! یهی بات میں ان دوستوں کو بھی کہا کرتا هوں جو ملنے کی فرمائش کرتے هیں... میں نے بهتیرا سمجھایا هے که دوستی که دشمن نه بنو خوامخواه... مجھ سے ملنے که بعد میری لکھی هوئی تحاریر پڑھنے پر بھی افسوس هی کرتے ره جاؤگے... ایسا سڑا هوا اور گھٹیا شخص شاید هی دیکھا هو آپنے...!

مجھے ابھی تک محض دو بندوں نے هی پہچانا هے... ایک نے مجھے سرقه باز کہا که میں اصلی لکھاری نهیں هوں بلکه چور هوں... اور دوسری ایک محترمه نے مجھے گھٹیا کہا... میں بھی اپنے آپکو یهی کہلواتا هوں...! لیکن سرقه بازی والا الزام کچھ زیاده هی هو گیا... سوچ رها هوں اپنی تحاریر کے اواخر میں 'بدستِ خود' بھی لکھنا شروع کردوں... ویسے اسی سے تنگ آکر ایک بھائی نے یه اصطلاح بھی استعمال کی تھی که 'ببٹنِ خود'...!

آپ لوگ میری پچھلی دو تین تحاریر ملاحظه فرما کر سوچ رهے هونگے که یه احمق همیں حماقت کا لارا لگا کر مولانا هوا جارها هے... اور سوچ رهے هونگے که میرے قلم کو سنجیدگی نگل لے گی... مگر میں کیا بتاؤں اب که 'المیه' هی یه هے که آپ مجھے ابھی تک مزاح نگار سمجھتے هیں...!
رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 30902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.