مہمانوں کو گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا.اور لائٹ رہفریشمنٹ سے انکی
تواضع کی گئ. ہلکی پھلکی رسمی گفتگو کے بعد حسنین نے فیصل صاحب کے ساتھ
مطلب کی بات چیت کا آغاز کیا.......
جی! ہمیں آپ کی بیٹی سیماب بہت پسند ہے آج اسلیئے ہی خدمت میں حاضر ہوئے
اگر آپ بھی روحیل کو پسند کر ََ لیتے ہیں تو پھر بات آگے بڑھائ جاسکتی
ہے.میرا مطلب ہم سیماب کو اپنی بہو بنانا چاہتے ہین..اگر آپ پسند کریں تو؟؟؟؟؟؟؟؟
فیصل زیر لب مسکرانے لگے .......حسنین آپ خواہ مخواہ تکلف کررہے ہیں. لفظی
تک بندی کی قطعی ضرورت نہیں اگر ہمارا ارادہ نہین ہوتا تو شاید ہم اسطرح
ساتھ نا بیٹھے ہوتے .روحیل بیٹا ہمیں بھی بہت پسند ہے.پر حتمی فیصلہ ان
دونوں نے ہی کرنا ہے.اب پرانا دور تو رہا نہیں جب سات پردوں کی شرط ہوتی
تھی.کیوں نہ ان کا سامنا کرا دیا جائے.آخر زندگی انہوں نے ہی گذارنی ہے........
حسنین بھی جواب میں مسکرانے لگے ....کیوں نہیں میں آُپکی رائے سے پورا
اتفاق کرتا ہوں.
دفعتا ہی ثمینہ بیگم سیماب کو لے کر روم میں داخل ہوئیں.روحیل کی تو جیسے
نظر وہیں تھم گئ.پلکیں ایک جگہ ساکت ہوگئین جیسے جھپکنا ہی بھول گئ ہوں....
وہ نازک سی کومل سی بڑی بڑی جھیل سی آنکھوں والی لڑکی اسے اسی وقت پسند آگئ
تھی جب اس نے اسے خاندان کی ایک شادی میں دیکھا تھا.الگ تھلگ سی خاموش کم
صم سیمآب کے بارے میں جب اسکی بہن نگین کو پتہ چلا کہ موصوف کی رائے بدل
رہی ہے تو اس نے پہلے تو بہت شور مچایا.
اللہ بھائ کوئ اور نہیں ملی آپ کو دیکھا نہیں کتنی ریزرو لڑکی ہے.مغرور
کہیں کی. آپ کو تو ایک نظر بھی نہیں دیکھا اٹھا کے. میرے بھائ کو لڑکیوں کی
کوئ کمی ہے کیا....اس نے قدرے ناک بھوں چڑھا کر جواب دیا.......
روحیل اسے منانے لگے .....پیاری بہنا دیکھا ہے میں نے کتنی مغرور ہے وہ
بھلے اس نے مجھے لفٹ نہین کرائ پر اچھی لڑکیوں کی یہی نشانی ہوتی ہے بہت
جلد کسی غیر سے جان پہچان بنانی بھی نہیں چاہیئے اور پھر اب تو جیسے اس دل
کو ضد سی ہوگئ ہے وہ نہیں تو اور کوئ نہیں انھون نے جیسے اعلان کرتے ہوئے
کہا...
ویسے بھی پیار اور اچھے برتاؤ سے کسی بھہ شخص مین تبدیلی لائ جا سکتی ہے
پھر دیکھنا وہ ہی لڑکی تمہیں سب کے ساتھ ہنستی بولتی نظر آئے گی.خیر نگین
کو تو جیسے تیسے انھوں نے منا ہی لیا.ماں اور بابا کو بھی راضی کرکے یہاں
تک لے آئے مگر جیسے آج بھی وہ انکو ایک نظر بھی دیکھنا گوارا نہیں کر رہی
تھی.اسکی نظریں جیسے فرش پر گڑی ہوئیں تھیں.جبکہ انھوں نے صبح سے ہنگامہ
مچاکے
رکھاہوا تھا پوری کی پوری وارڈ روب گویا بیڈ پر الٹ دی تھی تب کہین جاکے
انھوں نے آج پہننے کے لیئے سوٹ سلیکٹ کیا تھا پر وہ لڑکی تو جیسے قسم کھا
بیٹھی تھی نا دیکھنے کی
روحیل میاں بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے ورنہ دال نہیں گلے گی آپ کی.
انہوں نے خود کو بہلانے کی کوشش کی شاید شرما رہی ہے.کوئ بات نہیں دھیرے
دھیرے سب نارمل ہو جائے گا.تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ تو اندر چلی گئ جبکہ باقی
لوگ دوستانہ ماحول میں گفتگو کرنے لگے.....
سیماب شروع سے یایوں کہیئے بچپن سے ایسی نہیں تھی.اسکول اور کالج میں بھی
پڑھائ کے دوران وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی ایک قدرے خاموش اور تنہائ
پسند لڑکی تھی.کوئ اس سے بات بھی کرنے کی کوشش کرتا تو اسے ایسا تندوتیز
جواب دیتی کہ اگلی بار اسکی بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی...
کچھ تو تھا جو وہ خود کو سب سے الگ تھلگ رکھتی تھی....
شاید اسکے بچپن میں کوئ ایسا واقعہ ہوا ہو..
تین سال کی سیماب گول مٹول سی بہت پیاری سی بچی تھی.اسکی آنکھیں ہر وقت
ہنستی رہتیں. گلابی لب، ستواں ناک
زیادہ تو دو اسٹیپ والی بڑے سے گھیر کی فراک میں جس میں سے اسکے گورے گورے
بازو جھانکتے ملبوس رہتی جو دیکھتا اسے ایک بار پیار کیئے بنا نہیں رہ پاتا....انہی
دنوں انکی اوپر کی انیکسی میں ایک کرائے دار رہنے کے لیئے آئے ..شہزاد جی
یہی وہ شہزاد ہیں جن کا ہم نے کہانی کے شروع میں ذکر کیا تھا.شہزاد درمیانے
قد اور متناسب جسم کے مالک ایک خوش شکل آدمی تھے.جاب بھی معقول تھی پر پتہ
نہیں کیوں انھوں نے اب تک شادی نہیں کی تھی.تنہا رہتے تھے.کوئ عزیز رشتہ
دار بھی نہیں تھا...گو کہ یہ سب کوالٹی اکثر لوگ رشتہ ڈھونڈتے وقت لڑکوں
میں تلاش کرتے ہیں.پر انہوں نے کسی پر پوزل کا کبھی خاطر خواہ جواب نکیں
دیا.....اور جب سے وہ انیکسی میں آئے انھیں یہ معصوم سی بچی بہت بھا گئ تھی....بہن
جی اگر آپ برا نہیں مانیں تو میں سیماب کو اپنے ساتھ ََ جاؤں.....
وہ اکثر ثمینہ بیگم سے للجا کر بولتے اگر میری شادی ہوجاتی تو آج میری بھی
سیماب جیسی ایک پیاری سی بیٹی ہوتی وہ بڑی محبت سے اسکی طرف دیکھ کر بولتے
تو فیصل اور ثمینہ منع نہین کرپاتے
پر وہ شادی کیوں نہین کرپائے اس سوال کا جواب شاید انہوں نے کبھی نہیں
دیا.پھر ایسا ہوا وہ اکثر سیماب کو اپنے ساتھ لے جانے لگے کبھی وہ اسکے
لیئے ڈھیر سارے کھلونے لے آتے کبھی ڈھیر ساری چاکلیٹ، کبھی باہر گھمانے لے
جاتے تو کبھی وہ انکی انیکسی میں کھیلتی رہتی.رفتہ رفتہ سیماب بھی ان سے بے
حد مانوس ہو گئ اب تو اسکے والدین بھی ان پر برحد اعتماد کرنے لگے تھے.
ایک دن وہ عجیب سی کیفیت میں کام سے واپس لوٹے اوپر جاتے ہوئے جب انکی نظر
کھیلتی سیماب پر پڑی تو حسب عادت انھوں نے ثمینہ سے پوچھا بہن میں سیماب کو
اوپر لے جاؤں تو انھوں نے ہنس کے اجازت دے دی.
وہ سیماب کو لیئے اوپر اپنے کمرے میں آگئے ...آکر وہ تو اپنے بیڈ پر لیٹ
گئے پر سیماب روم میں موجود اپنے کھلونون میں مشغول ہوگئ....
اچانک ہی انکی نظریں کھیلتی سیماب پر گڑ گئیں اب انکی نظرین اسکے جسم کا
طواف کررہی تھیں.انھوں نے اسے پچکار کر اپنے پاس بلایا اور دھیرے سے اسکے
بازؤں پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے ...انکی آنکھیں سر خ ہورہیں تھیں.....اوہو
بیٹا آپ نے تو اپنی فراک گندی کرلی آئیے میں چینج کر دیتا ہوں.....
اس معصوم بچی کو بھلا کیا پتہ اس فرشتہ صفت نظر آنے والے چہرے کے پیچھے ایک
شیطان جاگ چکا تھا...وہ تنہا بے بس معصوم سی لڑکی نہ اس بات کو سمجھ سکتی
تھی اور نا ہی اپنا دفاع کر سکتی تھی....
وہ شام بھیانک اندھیروں میں ڈوب گئ اور یہانتک کہ ان اندھیروں نے سیماب کی
آئندہ زندگی کو بھی نگل لیا.............. |