تمام تر آسائشوں سے آراستہ بنگلہ
نما گھر میں سب ہنستے مسکراتے رہے تھے کہ اچانک ایک پیغام نامے نے صف ماتم
بچھا دیا۔ کھلکھلاتے چہرے یکسر مرجھا سا گئے۔ گھر کی خوش اخلاق اور نرم و
نازک دل رکھنے والی بیٹی کی منگنی ٹوٹنے کی خبر نے پورے گھر میں کہرام مچا
دیا تھا۔ بیٹی کو اپنی منگنی کے ٹوٹنے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا تھا مگر
اس کی وجہ سے والدین کو پہنچنے والی تکلیف اس کے لئے کسی قرب سے کم نہیں
تھی۔ ایک ایک پل کس قدر تکلیف دہ اور قرب سے بھرا ہوا ہوگا اس کا اندازہ
شاید ان حالات سے گزرا خاندان یا وہ بیٹی ہی صحیح سے لگا سکتے ہیں۔ ان جانے
خیالات میں کھوئی تکلیف کے چوراہے پر کھڑی وہ بیٹی اشک بھری آنکھوں سے اپنے
اوپر بیتے کچھ پلوں کو رک رک کر بتا رہی تھی۔ جہاں اس کے لفظ ساتھ چھوڑ
جاتے تھے وہاں آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرتے آنسوؤں اس کی داستان الم بیان کرنے کی
کوشش کررہے تھے۔ غم کا اندازہ زبان حال سے نمایاں ہورہا تھا۔ ایسے ایک شخص
دوسرے کو چند رسمی سے جملوں سے دھلاسا دینے کی کوشش کرتا ہے اور میں بھی
وہیں کر پایا، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے یہ جمل کسی کے لئے کتنا سود
مند ثابت ہوتے ہیں اور کتنا نہیں۔
ان چند روز قبل بیتے حالات اور اس کے اثرات سے متاثر ہونے والی بیٹی کی
حالت دیکھ کر مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ معاشرے میں امیر سمجھے
جانے والے گھر کی بیٹی کا رشتہ نہ صرف قیمتی ترین ہونا چاہیے بلکہ بیٹی
والوں کے ناز و نخروں کی سوغات بھی ساتھ میں دینی چاہیے تھی۔ تاہم یہاں
معاملہ بالکل الگ تھلک تھا۔ لڑکے والوں نے بیٹی سمیت تمام نمود و نمائش اور
چمک دھمک کو نظر انداز کردیا تھا۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی لڑکے والے
اس امیر خاندان کے برابر کے لوگ تھے۔ ان کے لئے یہ رشتہ اتنا ہی وقعت رکھتا
تھا جتنا وقعت غریب خاندان کی بیٹی کا رشتہ ایک غریب خاندان کے لڑکے والوں
کے لئے رکھتا ہے۔
رشتوں کی دوڑ بھی کیا عجب رخ اختیار کر چکی ہے۔ یہاں ایک امیر خاندان دوسرے
امیر خاندان سے منگنی صرف اس لئے توڑ دیتا ہے کہ وہ کچھ کم امیر ہے جبکہ وہ
زیادہ امیر ہیں۔ اسی طرح ایک چھوٹے غریب خاندان والوں کو بھی کچھ اس قسم کی
پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ نا
جانے رشتوں کے متلاشی لڑکی کو پسند کرتے ہیں یا پھر اس کے خاندان کے افراد
سمیت ان کی پراپرٹی اور امارت کے رشتہ کرنے آتے ہیں۔
نچلے طبقے سے لے کر متوسط طبقے اور اونچے طبقے تک سب کی سوچ کا زاویہ کم
زیادہ ہندسوں اور الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ تقریباً یکساں ہی ہوتا ہے۔ سچ
کہتے ہیں کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ جب رشتوں کے متلاشی اپنی بیٹی کے
رشتے کے لئے کسی اور کی چوکھٹ پر جاتے ہیں تو ان کے ناز و نخر اتنے ہی ہوتے
ہیں کہ وہ خود بھی ان کو دیکھ کر دو حرف بھیج دیں۔ مطالبات اور فرمائشوں کے
ایسے انبار لگا دیے جاتے ہیں جیسے ان کا یہ آخری رشتہ ہے۔ ایک پل کے لئے
بھی وہ خود کو باپ اور متوقع بہو کو اپنی بیٹی کی جگہ پر رکھ کر سوچیں تو
یقینا ان کے تیور کچھ اور ہوں، مگر یہ سب اس وقت کسی کو نہیں سمجھ آتا، وقت
بدلتا ہے اور یوں سیر کو سوا سیر ملتا اور ان کی بیٹی کے رشتے کے موقع پر
کی جانی والی فرمائشوں اور مطالبات کو دیکھ کر خود ان کو دانتوں پیسنے
چھوٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ایک بات تو مشاہدے سے طے ہے کہ اس معاشرے میں امیر سے لے کر غریب تک سب ہی
پریشان ہیں۔ رشتوں کی بندش یہاں بھی ہے تو مہنگے ترین پوش علاقوں میں رہنے
والوں کی بیٹیاں بابل کے گھر کی دہلیز پار کرنے کی آس میں بالوں میں چاندنی
اتار بیٹھی ہیں۔ رشتوں میں غیر شرعی ، غیر ضروری اور غیر قانونی مطالبات
اور فرمائشوں کی بدولت اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے کہ رشتہ کرنے سے پہلے
والدین متعدد بار سوچتے ہیں کہ نا جانے کیا ہوگا۔ عمریں ڈھل جاتی ہیں مگر
والدین ان سے کی جانی والی فرمائشوں کو پورا نہیں کرپاتے۔ جس طرح کی
صورتحال پیدا کردی گئی اس کو دیکھ کر اب یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہے کہ حرام
کاری حلال اور جائز کام سے کئی گناہ آسان لگنے لگی ہے۔
رشتوں کی تلاش اور ان رشتوں کے تقدس کے لئے ضروری ہے کہ والدین غیر ضروری
مطالبات اور فرمائشوں کو ترک کردیں۔ امیر ہوں یا غریب خاندان سب کو اپنی
حیثیت کے مطابق رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ایک بیٹی کی عزت اور
اس کے والدین کے وقار میں ان کا وقار پنہاں ہوتا ہے۔ آج اگر یوں منگنی کرنے
کے بعد بلاوجہ رشتہ توڑ ا گیا تو یہ دن گھوم پھر کر واپس آپ کے گھر کی
دہلیز پر بھی آجائے گا۔ شاید اب انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ کسی کی
بیٹی کی منگنی کو توڑ کر رشتوں کو پامال کر کے والدین کو کتنا قرب اور
تکلیف پہنچتی ہے، ہاں جس دن خدانخواستہ یہ وقت ان کے گھر پر آیا تب انہیں
اس قرب اور تکلیف کا احساس ضرور ہوگا۔ اس لئے ضروری نہیں کہ وہ دن آئے اس
سے پہلے ان بچوں کے والدین کو سمجھنا چاہیے کہ آیا وہ رشتوں کے معاملے میں
کہیں کسی کی حق تلفی تو نہیں کر رہے اگر ایسا ہے تو فورا خود کو سمجھائیں
ورنہ پھر وقت کے بدلنے کا انتظار کریں۔ جتنا تکلیف ادھر ہوگی شاید اتنا ہی
تکلیف ادھر بھی محسوس ہوگی فرق صرف اتنا ہوگا وہاں ساتھ میں پچھتاوا بھی
ہوگا۔ |