معین اختر کی چوتھی برسی ہے

مجھے وہ وقت یاد آرہا ہے جو میں نے معین اختر مرحوم کی معیت میں ایک محفل میں گزارا تھا یہ ایک عجیب محفل تھی کہاں ابھی لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور کہاں چند ہی لمحوں بعد رنج و الم کی تصویر بنے بیٹھے نظر آتے تھے --
 

image


یہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ تو ایسے محسوس ہوتا کہ نہ یہ طرب و مزاح کی محفل ہے اور نہ ہی غم و یاس کی مجلس بلکہ یہ تو کوئی مذہبی وعظ ہو رہا ہو ایک ہی تقریب تھوڑے تھوڑے وقفے سے مختلف روپ بدل رہی تھی یہ سب کچھ معین اختر کا ہی کمال تھا کہ محفل کو کئی رنگ دے رہے تھے یہ پاکستان اسٹیل کے دو ملازمین کے بچوں جو کہ تھلیسیمیا کے مہلک مرض کا شکار تھے کے لئے چندہ جمع کر نے کی تقریب تھی - اور اسے پاکستان اسٹیل آفیسرز کلب کی طرف سے منعقد کیا جارہا تھا اس سے قبل احسان اللہ شریف نے اپنے مختصر خطاب میں معین اختر کا استقبال کیا -

میں پاکستان اسٹیل آفیسرز کلب کے نیوز لیٹر " کلب انفو " کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اس تقریب کا حال لکھنے کے لئے موجود تھا جب معین اختر نے اس بیماری کے بارے میں تٍفصیل بتائی تو ایسے لگا کہ کسی ماہر ڈاکٹر کا مقالہ سن رہے ہوں جب وہ مریض بچوں کا حال زار بتاکر مذہبی فلسفے کی روشنی میں ایسے افراد کی مدد کرنے کے بارے میں کہہ رہے تھے تو ایسے لگتا تھا کہ ایک تقدس بھرے ماحول میں ہم سب سانس لے رہے ہیں - - جہاں ہم ہیں --وہ بچے ہیں اور سامنے معین اختر ان بچوں کی مدد کے سوالی بنے کھڑے ہیں درد کی آواز لہر بن کر ان کے دل سے نکلتی اور سامعین کے دل میں ہلچل مچاتی محسوس ہوتی تھی ان کے کئی فنکشن دیکھے ہیں لیکں پاکستان اسٹیل کا یہ فنکشن اس لئے یادگار بن کر دل میں سمایا ہوا ہے کہ یہاں پر انکے کئی روپ کئی انداز کئی رنگ ایک ساتھ جلوہ گر تھے کل وہ دو بچوں کے لئے ہمارے سامنے سوالی بنے کھڑے تھے اور آج اللہ کے حضور میں ان کے لئے رحمتوں کا سوالی بن کے کھڑا ہوں اللہ سبحانہ و تعالٰی ان کے درجات بلند فرماۓ اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا رہے-
آمین -یا رب العالمین

جمیل الدین عالی نے ایک مرتبہ کہا کہ ٹی وی ،فلم یا اسٹیج کے اداکار (ستارے) ان کے موضوعات میں شامل نہیں لیکن حیرت ہوئی کہ اس کے باوجود وہ معین اختر کی ایک بات سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے قریباً22 سال قبل ایک پورا کالم 30 اکتوبر 1992 معین اختر صاحب کی کسی بات سے متاثر ھو کر لکھا -

اپنے کالم کا عنوان بھی مرحوم کے نام پر رکھا "معین اختر کا پیام -کام --نام --کام "
 

image

اپنے اس کالم میں جمیل الدین عالی صاحب کہتے ہیں کہ "معین اختر کا ایک قول دل پر نقش ہو گیا ھے اور چاہتا ھوں کہ اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان ان قارئین تک پہنچاؤں جو کسی نہ کسی طریقے سے عملی زندگی گزار رھے ہیں -اور بطور خاص جن کی زندگی میں کارگردگی کوئی اھمیت رکھتی ھے-

جمیل ا لدین عالی کہتے ہیں-“ قارئین جانتے ہیں کہ میں قدیم و جدید مفکرین ہی نہیں بلکہ ایسے افراد کے اقوال بھی نقل کر دیا کرتا ہوں جنہیں میری فہم کے مطابق عام آدمی کے علم میں آجانا چاھئے - “

عالی آگے مزید لکھتے ہیں کہ " معین اختر صاحب نےایک ٹی وی-- این ٹی ایم کے پروگرام میں کچھ یوں کہا ----جناب دیکھئے مجھے اس پیشے میں آئے ستائیس برس ھو گئے ہیں --کئی مرحلوں سے گزرا --معین صاحب نے مرحلے بھی بتائے - اور اس کے بعد معین اختر نے ایک نتیجہ نکالا --پہلے تو کام کی کھاتے ہیں -یعنی بہت کام کرنا پڑتا ہے تب شہرت اور کمائی بنتی ہے - -پھر کچھ عرصہ نام کی بھی کھا سکتے ہیں - کہ مشہور تو ہو ہی گئے -- نام چلنا شروع ہو جاتا ہے -لیکن ساری عمر نام کی نہیں کھا سکتے - -نام کی کھانے کے بعد اگر کچھ مطلوب ہے یا شہرت برقر ار رکھنی ہے تو پھر کام کرنا پڑے گا-“


اس کے بعد جمیل الدین عالی تبصرہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ “ یہ بات میں نے کسی قدر پھیلا کر یا قدرے آسان لفظوں دہرائی ہے -اس لئے کہ آج کل کوئی بھی شعبہ حیات ہو ------- ان میں ہمارے مشاہیر صرف نام کی کھائے چلے جارہے ہیں - کام کی نئی آزمائشوں میں نہیں جاتے --یقیناً یہ انکا جمہوری حق ہے لیکن یہ حق نہیں کہ دوسرے کام کرنے والوں کی جگہ پر صرف اپنے نام کی وجہ سے قبضہ جمائے رکھیں“-

جمیل الدین عالی نے کالم میں جو بات کہی ہے اس پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مکالمہ ہونا چاہئے -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 332761 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More