موت
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
انسان ازلی نہیں ہے لیکن ابدی
ضرور ہے،ابتداء ً نہیں تھا،البتہ انتہاء ً مرنے کے بعد وہ ابد الآباد تک
رہے گا،آج کے دور میں لوگ آخرت کو بھول چکے ہیں،موت سے بے خبروبے خطراسی
زندگی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے،آئے روز جنازے اٹھائے جارہے ہیں،پرانسان ہے
کہ غافل ومغفّل بناہوا ہے،خدا کا خوف نہ آخرت کی فکر،بس ’’ھَل مِن مزید‘‘
کے چکر میں اپنی دنیا و عُقبیٰ کی بربادی پر تُلا ہواہے،ارے فرعون ،ہامان ،نمرود،
شداد، ہٹلر،مسولینی اور چاؤ شسکو کہاں ہیں،تجزیئے ،تبصرے اور فلسفے کے
سورماؤ،شہرت کے پرستارو،سقراط،بقراط، افلاطون،ارسطواور کارل مارکس کہاں
ہیں،جی آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے،یہ سب کے سب تھوڑی تھوڑی زندگیاں گذار کر
مر چکے ہیں،مرنا ہی ایک ایسی حقیقتِ ظاہرہ وباہرہ ہے،جس میں کلام کی کوئی
گنجائش نہیں ہے، انسانی معاشرے میں موت اوراس کی یادبہت سے اصلاحات کا سبب
بن سکتی ہیاور بہت قبائح کودفع کرسکتی ہے، سورۂ اعلیٰ میں اﷲ تعالیٰ کا
فرمان ہے:’’بلکہ تم حیاتِ دنیاوی کو ترجیح دیتے ہو،حالانکہ آخرت ہی زیادہ
بہتراورزیادہ باقی رہنے والی ہے‘‘،یہاں تو کچھ ہی مدت کے لئے رہنا ہے،وہاں
ہمیشہ کے لئے رہنا ہے،گویا وہ منزل ِ مقصود ہے،دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ
اس کے لئے اچھی طرح سے تیاری کی جائے، کیونکہ جسے ہم فناء سمجھتے ہیں وہی
حقیقی حیات اور دائمی بقاء ہے،اسی لئے جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ،کثرت سے
موت کو یاد کیاکرو ،اس لئے کہ موت کا یاد کر نا ،گناہوں کو دور کرتاہے ،
دنیائے مذموم ، غیر مطلوب اور فضول سے بیزار کرتاہے، یعنی جب انسان موت کو
بکثرت یاد کرے گا، تو دنیا میں جی نہ لگے گا ، طبیعت دنیا کے سامان سے نفرت
کریگی ،زاہد ہوجائیگا ،آخرت کی طلب ،وہاں کی نعمتوں کی خواہش اور وہاں کے
عذابِ دردناک کا خوف ہوگا، پس ضرور نیک اعمال میں ترقی کریگا ، معاصی سے
بچے گا،کیونکہ تمام نیکیوں کی جڑ زُہد ہے، جس کا مطلب ہے ،دنیا پر اعتماد
نہ کرنااور اس پر نہ ٹیک لگائے رہنا،اس کے پیچھے پاگل بن کر نہ بھاگنا۔ جب
تک دنیا ،اس کی زینت ،اس کے عہدے،رنگ ونسل،فرقے و مذہب ،مراتب ومناصب ،شہرت
اور جاہ وجلال سے تعلق ترک نہ ہوگا،پوری توجہ اﷲ کی طرف نہیں ہوسکتی ، ہاں
عبادت کے لئے جوامور ضروریہ دنیا ویہ ہیں،وہ مطلوب ہیں اور دین میں داخل
ہیں ،لہذا مذمت سے وہ خارج ہیں، بلکہ جس دنیا کی مذمت کیجاتی ہے، اس سے وہ
چیزیں مراد ہیں، جو حق تعالی ،اس کے سولﷺ،اس کی کتاب سے غافل کریں، گو کسی
درجہ میں بھی سہی ،جس درجہ کی غفلت ہوگی ،اسی درجہ کی مذمت ہوگی ،پس معلوم
ہواکہ موت کا تذکرہ، اس کی باتیں،اس کے متعلقات کی یاد ، اس کا دھیان ،اموات
کے حقوق پاس داری،اس نازک و عظیم الشان سفراور اس کے مابعد کیلئے تو شہ
تیار کرنا ہر عاقل بالغ وسمجھدارپر لازم اور ضروری ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بیس بار روزانہ موت کو یاد کرے،تو درجہ شہادت
پاویگا ،سو اگر تم اسکو یاد کروگے ،توا نگری کی حالت میں ،تو وہ اس دنیوی
غِناکو گرادیگا ،یعنی جب غنی آدمی موت کا دھیان رکھے گا، تو اس غنا کی اسکے
نزدیک وقعت نہ رہیگی، جو باعثِ غفلت ہے ،کیونکہ یہ سمجھے گا کہ عنقریب یہ
مال مجھ سے جدا ہونیوالا ہے، اس سے تعلق پیداکرنا ،کچھ نافع اور مفید نہیں،
بلکہ مضراور نقصان دہ ہے،ہاں وہ کام کرلیں جو وہاں کام آئے، جہاں ہمیشہ
رہناہے ،پس ان خیالات سے مال کا کچھ برا اثر نہ پڑیگا ،اگر تم اسے فقر اور
تنگی کی حالت میں یاد کروگے، تو وہ تم کو راضی کردیگا،تمہاری بسر اوقات سے
،یعنی جو کچھ تمہاری تھوڑی سی معاش ہے، اس سے راضی ہوجاؤ گے کہ چندروز قیام
ہے ،پھر کیوں غم کریں، اس کا عوض حق تعالی عنقریب نہایت عمدہ ساز وسامان
مرحمت فرمائیں گے،یوں بندہ ’’راضی بقضائے الٰہی‘‘ ہوجائے گا جو اولیاء اﷲ
کا مرتبہ ہے ۔
جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: بیشک زمین پکارتی ہے ہردن ستر بار، اے بنی آدم
کھالو جو چاہو اور جس چیز سے رغبت کرو، پس خداکی قسم میں ضرور تمہارے گوشت
اور تمہارے پوست کھاجاؤنگی ،اگر شبہ ہوکہ ہم تو آواز زمین کی سنتے نہیں، تو
ہم کو کیا فائدہ ،جواب یہ ہے کہ جناب رسول کریم ﷺ کے ارشادِ عالی سے جب یہ
معلوم ہوگیاکہ زمین اس طرح کہتی ہے، تو جیسے زمین کی بالفعل آواز سے دنیا
کمانے کاجوش دل پر سرداور ٹھنڈا ہوجاتاہے ،اسی طرح اب بھی اثر ہونا چاہیئے،
کسی چیز کے علم کے واسطے یہ کیا ضروری ہے ،کہ اس کی آواز ہی سے علم ہو،
بلکہ مقصود تو اس کا معلوم ہوجاناہے، خواہ کسی بھی طریقے سے ہو، مثلاً،
کوئی شخص دشمن کے لشکر کو آتا دیکھ کر جیسا گھبراتاہے اور اس سے مدافعت کے
سامان اختیارکرتاہے، اسی طرح کسی معتبر کے خبر دینے سے بھی گھبراتاہے،
کیونکہ دونوں صورتوں میں اسکو دشمن کے لشکر کا آنا معلوم ہوگیا،جو گھبرانے
اور مدافعت کے سامان کا باعث ہے ،پھر کوئی مخبر جناب رسالۃ مآب علیہ افضل
الصلاۃ والسلام سے بڑھ کر، بلکہ آپ ﷺکے برابر بھی نہیں ہوسکتا ،پس جب اور
لوگوں کے کہنے کا اعتبار کیا جاتاہے، تو آپﷺ کے فرمودہ کا تو بطریق اولی
اعتبار ہونا چاہیئے، کیونکہ آپﷺ ’’الصادق الأمین‘‘یعنی نہایت سچے ہیں، حدیث
میں ہے ،کفیٰ بالموت ِواعظاً وبالیقینِ غناً ۔ ترجمہ : کافی ہے موت باعتبار
واعظ ہونے کے ،یعنی موت کا وعظ کافی ہے کہ جوشخص اسکی یاد رکھے اسکو دنیا
سے بے رغبت کرنے کے لئے اور کسی چیز کی حاجت نہیں ،اور کافی ہے یقین روزی
ملنے کا باعتبار غنا کے ،یعنی جب انسان کو حق تعالی کے وعدہ پر یقین ہے ،کہ
ہرذی روح وحیات کو اس اندازہ سے جو اس کے حق میں بہتر ہے، رزق ضرور
دیاجاتاہے، تو یہ کافی غِنا ہے ،ایسا شخص پریشان نہیں ہوسکتا، بلکہ جو مال
سے غنا حاصل ہوتاہے، اس سے یہ یقین والاغِنااعلی ہے ،کہ اس کو فنا نہیں اور
مال کو فنا ہے ،کیا معلوم ہے کہ جو مال اس وقت موجود ہے، وہ کل کو بھی باقی
رہیگا یا نہیں اور خداوند کریم کے وعدہ کو بقاہے ،جس قدر کہ رزق موعود ہے
ضرور ملے گا ۔
حدیث :جو شخص پسند کرتاہے حق تعالی سے ملنا تو حق تعالی بھی اس سے وصال
چاہتے ہیں اور جو حق تعالی سے ملنا پسندنہیں کرتااور دنیا کے مال وجاہ اور
سازو سامان سے جدائی نہیں چاہتا ،تو اﷲ تعالی بھی اس سے ملنا پسند نہیں
فرماتے ، ظاہر ہے کہ بغیر موت کے خدا ئے تعالی سے ملاقات غیر ممکن ہے ،پس
چونکہ موت ذریعۂ ملاقات ِمحبوب حقیقی ہے ،لہذا موت مؤمن کو محبوب ہونی
چاہئے او ر ایسے سامان پیدا کرے جس سے موت ناگوار نہ ہو، یعنی نیک اعمال
کرے ،تاکہ بہشت کی خوشی میں موت محبوب معلوم ہواور معاصی سے اجتناب کرے
،تاکہ موت مبغوض نہ معلوم ہو، کیونکہ گنہگار کو خوف ِعذاب شدید کی وجہ سے
موت سے نفرت ہو تی ہے، اس لئے کہ موت کے بعد عذاب ہوتاہے ، اور نیک بخت کو
بھی گو عذاب کا خوف ہوتاہے اور جنت کی بھی امید ہوتی ہے، مگر تجربہ ہے کہ
نیک بخت کو باوجود اس دہشت کے موت سے نفرت نہیں ہوتی او رپریشانی نہیں ہوتی
اور امید اکثر بمقابلہ خوف کے غالب ہوجاتی ہے او ر اسی طرح یہ بھی تجربہ ہے
کہ کافر وفاسق پر اکثر امید غالب نہیں ہوتی، اسلئے وہ موت سے نہایت
گھبراتاہے ۔
حدیث :جو نہلاوے میت کو پس ڈھک لے اس کو،چھپا لے گا اﷲ تعالی اس کے گناہ
،یعنی آخرت میں گناہوں کی وجہ سے اس کی رسوائی نہ ہوگی ، اور جو کفن دے
مردے کو تو اﷲ تعالی اس کو سند س جو ایک باریک ریشمین کپڑے کا نام ہے وہ
پہنا ویگا آخرت میں اسے ،بعض جاہل مردے کی خدمت سے ڈرتے ہیں اور اس کو
منحوس سمجھتے ہیں یہ سخت بیہودہ بات ہے کیا ان کو مرنا نہیں ،چاہیئے کہ خوب
مردے کی خدمت کو انجام دے ،ثواب جزیل حاصل کرے اور اپنا مرنا یاد کرے کہ
اگر ہم سے بھی لوگ ایسے ہی بچیں، جیسے ہم بچتے ہیں، تو ہمارے جنازہ کی کیا
کیفیت ہوگی اور عجب نہیں کہ حق تعالی بدلہ دینے کو اس کو ایسے ہی لوگوں کے
حوالے کریں ، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، جو غسل
دے مردے کو او راسے کفن دے ، اسکے حنوط لگائے ،حنوط ایک قسم کی مرکب خوشبو
کا نام ہے آج کل اسکے بجائے کافور بھی استعمال ہوتاہے، اٹھاوے اس کے جنازے
کو ،اس پر نماز پڑھے اور نہ افشاکرے اس کی کوئی بری بات جو دیکھے اس سے
،دور ہوجائے گا اپنے گناہوں سے اس طرح جیسے کہ اس دن جبکہ اس کی ماں نے اس
کو جناتھا ،یعنی جیسے گناہوں سے اس دنپاک صاف تھا ۔
حدیث :میں یہ بھی ہے ،جو نہلا وے مردے کو ،پس چھپا لے اس کے عیب کو ،تو اس
کے چالیس کبیرہ گناہ معاف کردیئے جائینگے اور جو اسے کفن دے، اﷲ تعالی اس
کو جنت کا سندس ور استبرق پہناوے گا اور جو میت کیلئے قبر کھودے ،پس اس کو
اس میں دفن کرے، جاری فرمائے گا اﷲ تعالی اس شخص کے لئے اس قدر اجر جو مثل
اس مکان کے ثواب کے ہوگا جس میں قیامت تک اس مردے شخص کو رکھتاہے،یعنی اسکو
اس قدر اجر ملے گا ،جتنا کہ اس مردے کو رہنے کے لئے قیامت تک مکان عاریت
دینے کا اجر ملتا ہے۔
حدیث:پہلا تحفہ مومن کا یہ ہے کہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، اس شخص کے جو میت
کے جنازے کی نماز پڑھتاہے ۔آپﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ وہ
مرجائے اور اس کے جنازے پرتین صفیں مسلمانوں کی نماز پڑھیں ،مگر واجب کرلیا
،اسنے جنت کو یعنی اس کی بخشش ہوجاوے گی ۔آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:نہیں ہے
کوئی ایسا مسلمان کہ وہ مرجائے، پس کھڑے ہوں ،یعنی نمازپڑھیں اس کے (جنازے
) پر، چالیس مرد ایسے جو شرک نہ کرتے ہوں خداتعالی کے ساتھ ،مگر یہ کہ ان
نماز پڑھنے والوں کی شفاعت قبول کی جائی گی، اس مردے کے حق میں، یعنی جنازے
کی نماز جو حقیقت میں دعاہے میت کے لئے ،وہ قبول کرلی جائے گی اور اس مردے
کی بخشش ہوجاوے گی ۔آپﷺ کا ارشاد ہے:کوئی مسلمان ایسانہیں جس کے جنازے پر
ایک جماعت نماز پڑھے، مگر یہ کہ ان لوگوں کی شفاعت قبول کی جائی گی، اس میت
کے بارے میں ۔آپ ﷺ سے مروی ہے:نہیں ہے کوئی مردہ کہ اس پر ایک جماعت
مسلمانوں کی نماز پڑھے ،جو عددمیں سو ہوں، پس سفارش کریں وہ اسکے لئے مگر
یہ کہ وہ سفارش میں قبول کئے جائینگے، مردے کے بارے میں یعنی ان کی دعا
قبول ہوگی اور اس مردے کی مغفرت ہوجاوے گی ۔روایت میں یہ بھی آتاہے:جو
اٹھاوے چاروں اطراف چارپائی (جنازے ) کی، تو اسکے چالیس کبیرہ گناہ بخشش
دیئے جائینگے ۔
ایک حدیث میں ہے، افضل ترین آدمی اہل جنازہ میں سے ،یعنی جو جنازے کے ہمراہ
ہوتے ہیں ان میں سے، وہ ہے جو ان میں بہت زیادہ ذکر کرے اس جنازے کے ساتھ
اور جو نہ بیٹھے یہاں تک کہ جنازہ زمین پررکھدیا جائے اور زیادہ پورا کرنے
والا پیمانہ ثواب کاوہ ہے، جو تین بار اس پر مٹھی بھر خاک ڈالے ،یعنی ایسے
شخص کو خوب ثواب ملے گا ۔
حدیث میں ہے ،اپنے مردوں کو نیک قوم کے درمیان دفن کرو، اس لئے کہ بیشک
مردہ اذیت پاتاہے بوجہ برے پڑوسی کے ،یعنی فاسقوں یا کافروں کی قبروں کے
درمیان ہونے سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے او رصورت اذیت کی یہ ہے کہ فساق
وکفار پر جو عذاب ہوتاہے اور وہ اس کی وجہ سے روتے چلاتے ہیں اس واویلا کی
وجہ سے تکلیف ہوتی ہے، جیساکہ اذیت پاتاہے زندہ بوجہ برے پڑوسی کے ۔
حدیث میں ہے ،جنارے کے ہمراہ کثرت سے لا الہ اﷲ پڑھو ،جنازے کے ہمراہ اگر
ذکر کرے ،تو آہستہ کرے، اس لئے کہ زور سے ذکر کر نا علماء نے مکروہ لکھاہے
۔
صحیح حدیث میں ہے ،جس کو حاکم نے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا، میں نے تم کو منع کیا تھا قبروں کی زیارت سے، ایک خاص وجہ سے جواَب
باقی نہیں رہی ، آگاہ ہوجاؤ ،پس اب زیارت کرو ،ان کی ،یعنی قبروں کی اسلئے
کہ وہ زیارت ِقبور، دل کو نرم کرتی ہے ، دل کی نرمی سے نیکیاں عمل میں آتی
ہیں، رلاتی ہیں ہر آنکھ کو، یاد دلاتی ہے آخرت کو اور تم نہ کہو کوئی غیر
مشروع بات قبر پر ۔
حدیث میں ہے ،میں نے تم کو منع کیا تھا قبروں کی زیارت سے پس (اب ) ان کی
زیارت کیاکرو ،اس لئے کہ وہ زیارت بے رغبت کرتی ہے دنیا سے اور یاد دلاتی
ہے آخرت کو ۔ زیارت قبور سنت ہے اور خاص کر جمعہ کے روز ، حدیث میں ہے کہ
جو ہرجمعہ والدین کی یا والد یا والدہ کی قبر کی زیارت کرے تو اس کی مغفرت
کی جائے گی اور و ہ والدین کاخدمت گذار لکھ دیا جائے گا، مگر قبر کا طواف
کرنا ، بوسہ لینا منع ہے خواہ کسی نبی کی قبر ہو یا ولی کی یا کسی کی ہو ،
او رقبروں پر جاکر اول اس طرح سلام کرے :’’السلام علیکم یا اھل القبور من
المؤمنین والمسلمین یغفر اﷲ لنا ولکم ،انتم سلفنا ونحن بالاثر‘‘ ، جیساکہ
ترمذی اور طبرانی میں اموات کے لئے یہ الفاظ ِسلام آئے ہیں ،قبلہ کی طرف
پشت کرکے اور میت کی جانب منہ کرکے قرآن مجید پڑھے، جس قدر ہوسکے ،حدیث میں
ہے کہ جو قبروں پر گذرے اور سورۂ اخلاص گیارہ بار پڑھ کر مردے کو بخشے تو
مطابق شمار مردوں کے اس کو بھی ثواب دیا جائے گا ،نیز حدیث میں ہے کہ جو
قبرستان میں داخل ہو پھر سورہ الحمد ،سورۂ اخلاص اور سورۂ تکاثر پڑھ کر اس
کا ثواب اہل قبرستان کو بخشے ،مردے اسکی شفاعت کرینگے اور نیز حدیث میں ہے
کہ جو کوئی سورۃ یٓسین کو قبر ستان میں پڑھے تو مردوں کے عذاب میں اﷲ تعالی
تخفیف فرمائے گا اور پڑھنے والے کو بشمار مردوں کے ثواب ملے گا ۔
حدیث میں ہے کہ نہیں کوئی شخص کہ گذرے کسی ایسی میت کی قبر پر جسے وہ دنیا
میں پہچانتا تھا، پھر اس پر سلام کرے، مگر یہ بات ہے کہ وہ میت اس کو پہچان
لیتاہے اور اس کو سلام کا جواب دیتاہے ،گو اس جواب کو سلام کرنے والا نہیں
سنتا۔قبرستان پر سے گذرتے ہوئے دعائیہ سلام کا اہتمام کرنا چاہیئے۔(بہشتی
زیور مع تغییرات واضافات)۔مزارات اور اموات کے حوالے سے بدعات کا بازار بہت
گرم ہے، جو نہ کرنے کے امور ہیں،وہ بڑی پابندی کے ساتھ انجا م پاتے ہیں،جو
کرنے کے ہیں، ان سے اغماض برتا جاتاہے،سندھ کے سہون اور اسلام آبادمیں بری
امام جانے کااتفاق ہوا،اولیاء اﷲ کے مراقدپرمنکرات،مکروہات،بدعات،محرمات
اور فواحش وقبائح کا ایسا طوفان کہ، الامان الحفیظ،یہ وہ سب لوگ ہیں جو
دنیاکے عیش وعشر ت میں ایک کھلی ہوئی حقیقت کو بھول چکے ہیں یابھلا چکے
ہیں،وہ حقیقت کیا ہے، وہ موت ہے موت۔ |
|