’’ زمین انسان کی دوست اور انسان زمین کا دشمن ؟ ‘‘

کائنات میں جتنے بھی سیارے ہیں ان سب میں صرف زمین ہی ایسا واحد سیارہ ہے جہاں انسان ایک نارمل طریقے سے اپنی ذندگی گزار سکتا ہے۔آج کے انسان نے چاند کو تو چھو لیا ہے لیکن ابھی تک وہاں مناسب اندازسے زندگی گزارنے کے قابل بالکل نہیں ہوا۔سائنسدان اور ماہرین نے بھی یہ بات واضح کی ہے کہ دوسرے تمام سیاروں کی نسبت انسانی ذندگی کی بقاء کے لیے زمین ہی سب سے بہترین اور خوبصورت ترین سیارہ ہے۔بندہ ذرا غور کرے تو شائد اس لئے حضرت آدم کو اﷲ تعالیٰ نے زمین پر اتارنے کو ہی ترجیح دی اور یوں زمین کی انسان سے دوستی تب سے ہی شروع ہوئی جب سے حضرت آدم نے اس پر قدم رکھا۔ قرآن مجید میں بھی ’ زمین ‘ کا ذکر 450مرتبہ آیا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ۔ ’’اور اسی نے مخلوق کے لیے ذمین بچھا دی۔جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں۔اور بھس والا اناج ہے اور خوشبودار پھول ہیں۔پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوٗ گے۔‘‘( سورہ رحمٰن۔آیات نمبر۔(13.12.11.10۔ اب اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے یہ ہماری ہی اہم ذمہ داری ہے کہ ہم اﷲ پاک کی عطا کردہ نعمتوں کی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت بھی کریں کیونکہ ایک بہتر ذندگی گزارنے کے لئے ہمیں زمین کی ضرورت ہے نہ کہ زمین کو ہماری اور جنت کے بعد شائد زمین ہی انسان کے لئے ایک خوبصورت مسکن ہے۔

’’عالمی یومِ ِ ارض ‘‘ ہر سال 22اپریل کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے 192ممالک میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد زمین کی حفاظت و بقاء کے لئے اور اس کے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے ایک عہد کرنا ہے۔یہ دن پہلی مرتبہ 1970ء میں منایا گیا تھا۔اس سال 2015میں یہ دن اس عنوان “It’s Our Turn to Lead,”کے ساتھ منایا جارہا ہے۔زمین کی حفاظت کے لئے بنائے جانے والا دنیا کا سب سے بڑا ’ ارتھ ڈے نیٹ ورک ‘ کی 22000ممبران تنظیمیں اس دن دنیا بھر کے لوگوں کو اس مقصد کے تحت متحرک کریں گی کہ وہ زمین کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اپنا فرض ادا کریں کیونکہ ماحولیاتی آلودگی اور کرہ ًارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ایک تشویش ناک حد تک پہنچتا جا رہا ہے۔ آج کہیں خشک سالی کا سامنا ہے اور کہیں سونامی کااور کہیں زلزلوں کا ۔ اس وقت زمین کا انسان سے بڑا کوئی دشمن نہیں اور یہ دشمنی کا آغاز تب ہوا جب سے دنیا میں صنعتی انقلاب نمودار ہو ااوردوسرا یہ کہ آبادی میں خوب اضافہ ہوا۔ زمین انسان کی بقاء کے لئے جبکہ انسان زمین کو فنا کے لئے مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ ہم اپنے اردگرد کے ماحول کوخراب کر کہ نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اس زمین پرموجود دوسری مخلوقا ت کے ساتھ بھی سراسر ذیادتی کر رہے ہیں۔انسان کی طرح دوسری مخلوقات بھی اس کرہ ارض پر ذندگی گزارنے اور یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کا مساوی حق رکھتی ہیں۔حیوانات اور چرند پرند قدرت کا انمول عطیہ ہیں اور ان کی قدرتی نشوونما صرف جنگلات میں ہی ممکن ہے۔ ذمین پر حدت ختم کرنے اور ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار بنانے میں جنگلات بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قدرتی وسائل میں جنگلات کو مرکزی اور اہم حیثیت حاصل ہے اور درخت جو کہ آکسیجن بنانے والے کارخانے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ آکسیجن کے نہ ختم ہونے والے سلنڈر ہیں ۔لیکن افسوس کی بات ہے آج کے انسان نے تو اپنے اس قدرتی وسائل کے خلاف خود ہی کریک ڈاؤن آپریشن شروع کر رکھا ۔جنگلات کابے دردی سے خاتمہ کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ جنگلات تو زمین کی زرخیزی کا زریعہ بنتے ہیں اور درجہ حرارت کو کم رکھنے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ زمین کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچاتے ہیں۔اقبال صاحب کا ایک شعر ہے ۔
کھیتیاں سرسبز ہیں تیری بقاء کے واسطے
کل جہاں تیرے لیے ہے اور تو خدا کے واسطے۔

ماحولیاتی آلودگی کی بات کرتے ہوئے آبی اور فضائی آلودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔آبی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فیکٹریوں سے نکلنے والے استعمال شدہ خطرناک کیمیکلز کا صاف پانی میں شامل ہونا ہے۔کارخانوں اور ٹرانسپورٹ سے اٹھنے والا دھواں فضائی آلودگی کو تقویت دے رہا ہے۔ہم اپنے ملک کی بات کریں تو جیسا کہ پاکستان ایک وسیع ملک ہے جس میں ہر قسم کی سطح زمین پائی جاتی ہے کیونکہ یہاں سطح مرتفع بھی ہے اور سندھ کا خشک ریگستان بھی۔یہاں برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑوں کی فلک بو س چوٹیاں بھی ہیں اور زرخیز اور نرم مٹی سے بنا ہوا میدانی علاقہ بھی۔ویسے زرخیز مٹی کا ذکر کرتے ہوئے علامہ صاحب کا مصرعہ یاد آگیا۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔کہتے ہیں کہ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں جو اپنی مٹی سے پیار نہیں کرتیں ۔بالکل اسی طرح انسان اگر زمین سے محبت کرے گا تو زمین بھی اسے ذندگی دے گی۔آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کیا کچھ نہیں کررہے لیکن کیا ہم انہیں قدرتی طور پر ایک اچھا ماحول دینے کی بھی کوشیش کر رہے ہیں؟خدا نے انسان کو بے شمار قیمتی اور صاف ستھری حالت میں نعمتیں عطا کی ہیں اور مستقبل کی نسلوں کو بھی خدا کی اس نعمت کو استعمال کرنے کا برابر کا حق حاصل ہے اور یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کا خیال کس قدر کرتے ہیں ۔ اوزون لیئر کی بات کریں تو زمین کے اوپر غلاف کی شکل میں اوزون کی تہہ موجود ہے جو سورج کی نقصان دہ شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکتی ہے تا ہم اس میں کئی جگہ پر شگاف پر چکے ہیں جس سے جلد کے کینسر جیسی بیماری جنم لے رہی ہے او رامریکی سائنسدانوں کے مطابق انسان کو مزید یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس لیئر کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ زمین پھولوں میں مسکراتی ہے ۔یعنی زمین کی مسکراہٹ پھولوں سے ہے۔انسان کبھی پہاڑی علاقوں میں سفر کرے تو اسے فطرت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے ۔صاف ستھری آب و ہوا ، خوشگوار فضاء اور سرسبزو شاداب نظارے انسا ن کو اچھی صحت اور ایک خوشنما تا ثر دیتے ہیں۔ لیکن شہری علاقوں میں ذندگی گزارنے والے ایسے خوبصورت ماحول سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ شہروں کے اس قدر گرد آلود ماحول میں بھی انسان کا ذندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ۔لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہمیں زمین اور اپنی ذندگی کی بقاء کے لئے ذیادہ سے ذیادہ درختوں کو اس زمین کی زینت بنانا ہوگا۔ہمیں قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے ہرممکن بچنے کی کوشیش کرنا ہو گی۔ملک میں چائنہ کے صدر کی آمد کی تیاریوں میں صدرمحترم کے گزرنے والے راستوں پر موجودگرین بیلٹس کی بھی سنی گئی ہے اور ان پر خاص توجہ دی جارہی ہے ۔ کاش کہ ایسا ان کے جانے کے بعد بھی ممکن رہے ۔ بس یہ ہی وجہ ہے کہ ہم قدم تب ہی اٹھاتے ہیں کہ جب پانی سر تک آجاتا ہے۔ ۔(ختم شد )۔
Majid Amjad Samar
About the Author: Majid Amjad Samar Read More Articles by Majid Amjad Samar: 17 Articles with 17180 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.