22 اپریل ۔۔۔یوم ِ ارض اور پاکستان

 زمین سے محبت کا احساس جگانے کے لئے ہر سال 22 اپریل کو دنیا بھر میں یوم ارض منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد قدرتی ماحول سے محبت اور اس سے عقیدت کااظہار کرنا اور دنیا کی توجہ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف منذول کروانا ہے ۔دنیا کے باقی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے لیکن یہاں اس کی حیثیت ایک نمائش سے زیائدہ کچھ نہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانیوں کو زمین سے محبت نہیں ، یا پاکستانی ماحول دوست نہیں ۔ یہاں اداروں میں رچی بسی کرپشن ،اداروں کی کاہلی اور غفلت، چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے نہ ہونے اور وسائل میں کمی کے باعث زمین دوست ، ماحول دوست اقدامات کے نعرے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کو شدید ترین موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے ۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے کو متاثر کیا ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2010میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی میں2 کروڑ سے زیائد لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 307,374 مربع میل علاقہ زیرآب آیا تھا اور تقریبا دو ہزار کے قریب اموات واقع ہوئیں ۔ اس کے علاوہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010 کے اس سیلاب سے ملکی معیشت کو تقریبا 4.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ سیلاب سے بڑے پیمانے پر سڑکیں تباہ ہوئیں، 10,000 کے قریب ٹرانسمیشن لائنیں اور ٹرانسفارمرز متاثر ہوئے، جبکہ 150 پاور ہاسز زیرآب آئے۔ جس کے باعث 3۔135 گیگا واٹ توانائی کا شارٹ فال ہوا۔اس سیلاب میں سیکڑوں دیہات زیر آب آئے اور 2,416,558 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور 8957 سے زائد مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی بڑی تباہی سے سبق سیکھا جاتا ۔ اور آنے والے سالوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے پالیسی تشکیل دی جاتی ۔دریائی راستوں اور نکاسی آب کے راستوں پر ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا جاتا ۔سیلاب کے دوران امداد میں بڑے پیمانے پرہونے والی بد عنوانی کا نوٹس لیا جاتا ۔فلڈ کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد کیا جاتا ۔رپورٹ نے جن افسران کو حفاظتی پشتے توڑنے ، غفلت اور بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا ۔ اُن کو اُن کے عہدوں سے برطرف کیا جاتا اور اُن کے خلاف انکوائری کی جاتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ انتظامیہ اور متعلقہ ادارے لمبی تان کر سوتے رہے اور آنے والے سالوں میں سیلاب کومزید تباہی پھیلانے کے مواقع فراہم کیے گئے ۔ 2011کے سیلاب نے سندھ کوسب سے زیادہ متاثرکیاجہاں لاکھوں افراد بے گھر اور 17 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں ڈوب گئیں۔2013 میں آنے والے سیلاب سے 178 افراد ہلاک اور855 افراد زخمی ہوئے ۔ اس سیلاب سے مجموعی طور پر ؂ 15لاکھ سے زیائد افراد متاثر ہوئے جن میں سات لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد متاثرین کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔اس سیلاب سے 20,312مکانات مکمل طور پر تباہ جبکہ 28,017جزوی طور پر تباہ ہوئے۔صوبہ پنجاب میں 760353ایکڑ، صوبہ سندھ میں 203,593ایکڑ، بلوچستان میں 63969اور صوبہ خیبر پختونخوا میں 4,279ایکڑ اراضی پر فصلیں تباہ ہوئیں ۔

سیلاب کی اس شدت کا بڑا سبب جنگلات میں کمی کے باعث گلوبل وامننگ میں اضافہ ہے ۔سرکاری اعداد و شمار کیمطابق اس وقت ملک میں پانچ فیصد اراضی پر جنگلات پائے جاتے ہیں حالانکہ بین القوامی قوانین کے مطابق پچیس فیصد اراضی پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے ۔جبکہ یہ پانچ فیصد اراضی بھی محفوظ نہیں اور یہاں پائے جانے قیمتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے جنگلات میں کے رقبے میں کمی آرہی ہے ۔ پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں سالانہ کمی کی ایک اہم وجہ ترقیاتی منصوبوں کے تحت تعمیرات اور ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کا ایندھن کے لیے لکڑی پر انحصار ہونا ہے۔

جنگلات کی حفاظت کا ذمہ دار محکمہ مسائل کا گڑھ بن چکا ہے ۔ محکمہ جنگلات سہولیات کے فقدان ، کرپشن اور ناقص حکومتی حکمت عملی کے باعث بری طرح متاثر ہورہا ہے۔سب سے بڑا مسئلہ سٹاف کی کمی ہے ۔اس حوالے سے محکمہ کی طرف اعلی حکام کو بار بار تحریری یاد دہانی کروائی جاتی ہے تاہم اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ۔ دوسرا بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس کی بنیادی وجہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کا نہ ہونا ہے ۔ ظاہر ایک جب سٹاف کی کمی اس حد تک ہو کہ ہزاروں ایکڑ اراضی پر موجود جنگلات کی حفاظت کے لئے ایک یا دو ملازمین مقرر ہوں اور ان پر نظر رکھنے والے بھی غفلت کی نیند سو رہے ہوں تو وہی ہو گا جو ہو رہا ہے ۔ 100 سال کا درخت معمولی سی کرپشن کی رقم کی نظر ہوجاتا ہے ۔
ؔ اس بار جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

جن علاقوں میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور لکڑی کی سمگلنگ ہورہی ہے وہاں مقامی پولیس اور انتظامیہ اس فعل میں برابر کی شریک ہوتی ہے۔ تاہم حکام بالا کی طرف سے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ ایک اور اہم مسئلہ محکمہ جنگلات کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے ۔محکمہ کی ہزاروں نہیں لاکھوں ایکڑ اراضی ایسی ہے جو اس وقت قبضہ مافیا کے زیر تسلط ہے ۔ اس اراضی کو قبضہ مافیا سے واگزار کرانے کے لئے انتظامیہ سنجیدہ کوششیں نہیں کررہی کہا جاتا ہے اس قبضہ مافیا کی پہنچ دور تک ہے اور ان سے اراضی واگزار کرانے میں اہم شخصیات اور رکاوٹ ہیں ۔محکمہ جنگلات کی ناقص منصوبہ بندی اور مالی وسائل کی کمی کے باعث ہر سال سرکاری زمینوں پر ہونے والی شجرکاری مہم میں کروڑوں روپے کی مالیت کے پودے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس مہم کے دوران لگائے جانے والے پودے عدم توجہ کا شکار ہوکر ضائع ہوجاتے ہیں۔محکمہ کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ شجرکاری مہم کی اشتہاری مہم کو بڑے پیمانے پر کی جاسکے۔ تشہری مہم کیلئے جتنا بجٹ سالانہ رکھا جاتا ہے اس سے یہ ممکن نہیں کہ لوگوں میں شجرکاری کی آگاہی فراہم کی جا سکے۔ ایک مزدور کی یومیہ اجرت 100 سے 150 کے لگ بھگ رکھی جاتی ہے ۔لوگوں کی حوصلہ افرائی اور ماحول دوستی کو فروغ دینے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ سکولوں اور کالجوں میں اس طرز کے مقابلہ جات کا انعقاد کر کے اور میڈیا ، نوجوانوں اور دوسرے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے ایک پر زور مہم شروع کی جاسکتی ہے ۔نظام میں موجود خامیوں کو دور کر کے ہی ہم بہتر مستقبل کے سفر پر روانہ ہو سکتے ہیں ۔ اس میں ہر شخص کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہے ۔ ہر شخص کو آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی ، اور ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔
Asghar Hayat
About the Author: Asghar Hayat Read More Articles by Asghar Hayat: 13 Articles with 23338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.