قومی ہیرو کی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال

گھڑی پر تین بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے خلاف معمول میں صرف پانچ منٹ لیٹ تھا تیزی سے تقریب والے ہال میں داخل ہو مگر ہال کا نقشہ دیکھ کر اتنی ہی تیزی سے با ہر نکل آیا سمجھا کہ شائد غلط جگہ آگیا ہوں ہال میں کوئی سو ڈیڑھ سو کے قریب کرسیاں تھیں جن میں سے چالیس پچاس کے قریب سکول یا کالج کی بچیاں بیٹھی تھیں اسکے علاوہ چند خواتین اور مرد حضرات تشریف فرما تھے باہر ایک صاحب میری طرح پریشانی کے عالم میں تھے پوچھنے لگے کیا یوم وفات اقبال کی تقریب اسی ہال میں ہے میں نے کہا پتہ تو اسی ہال کا لکھا تھا خیر ہم ڈرتے ڈرتے جا کر ہال میں بیٹھ گئے کہ اگر کوئی کہے کا تو معذرت کرکے باہر آجائیں گے۔ہال میں چند مرد حضرات ہونے کی وجہ سے ہمیں اگلی نشتوں پر جگہ مل گئی حالانکہ میں وقت پر اسلئے پہنچا تھا کہ ہال کافی بڑا ہو گا رش بھی کافی زیادہ ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ جگہ نہ ملے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا ۔ ہماری پریشانی اس وقت کچھ کم ہوئی جب ساؤنڈ سسٹم پر " دریار عشق میں اپنا مقام پیدا کر ـ" کلام اقبال کی آواز سنی،کچھ یقین ہوا کہ ہم درست جگہ پرہیں۔تین بجے کا ٹائم تھا ساڑھے تین بجے مہمان حضرات اسٹیج کی رونق بنے جن میں اوریا مقبول جان، مجیب الرحمان شامی، عارف نظامی ، حافظ عاکف سعید اور دیگر دو تین افراد تھے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت سے ہوا جیسے ہی تلاوت کا آغاز ہوا میڈیا کا ایک ہجوم فوٹو گرافی کیلئے امڈ آیا ، جتنی کرسیوں کی قطاریں تھیں اس سے زیادہ فوٹو گرافر تھے ، شرکاء تقریب بجائے تلاوت سننے کے مختلف اسٹائل سے تصویریں بنوانے میں مصروف ہو گئے اس امید پر کہ شائد صبح اخبارکی ہیڈ لائن اسی تقریب کی ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری تصویر اچھی نہ آئے۔تلاوت کے بعد مہمانوں کو باری باری اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے پانچ سے دس منٹ کا ٹائم دیا گیا، جنہوں نے اپنے علم کے مطابق گفتگو کی، آخر میں مہمان خصوصی کو آدھا گھنٹہ اظہار خیال کیلئے دیا گیا اور بتایا گیا موصوف کا اقبال پر وسیع مطالعہ ہے مگر شائد یہ انفارمیشن غلط تھے موصوف نے لکھی ہوئی تقریر کو نیوز کی طرح پڑھ کر سنا دیا اور شائد وہ لکھی بھی کسی اور نے تھی یا شائد انہوں نے اپنے والد محترم کی کسی کتاب سے نقل کی تھی۔

تقریب کی سب سے دلچسپ با ت بجلی کی آنکھ مچولی تھی دو گھنٹے کی تقریب میں کوئی چھ با ر بجلی بند ہو ئی ، جب دو تین بار لگاتار بجلی بند ہوئی تو بچیوں سے ہنسی ضبط نہ ہو سکی اور وہ انتطامیہ کی بے بسی پر کھل کھلا اٹھیں۔ چیرمین اقبال اکیڈمی نے بتایا کہ یہ تقریب اقبال اکیڈمی کی طرف سے منعقد کی گئی ہے اس میں گورنمنٹ کی طرف سے کوئی تعاون نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ کو دعوت دی گئی تو انہوں نے مصروفیت کا بہانہ کر کے آنے سے انکار کردیا۔جاویداقبال اور ان کا بیٹا تقریب میں شائد اسلئے نہیں آئے کہ جس قوم کیلئے ان کے باپ نے اتنا کچھ کیا اس کے پاس وقت نہیں تو ہم کیوں جائیں ہمارے لئے تو ہما رے باپ نے کچھ کیا بھی نہیں بلکہ " خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کرـ" کا سبق دے دیا ۔

دو گھنٹے جاری رہنے والی اس تقریب میں بمشکل دو سو افراد نے شرکت کی جس میں کافی تعدا دبچوں اور بچیوں کی تھی جو شائد کسی تفریحی ٹور پہ آئے تھے، ہمارا یا گورنمنٹ کے نما ئندوں کا آنا بنتا بھی نہیں تھا کیونکہ اپنے قومی ہیرو ز کو صرف زندہ قومیں یاد رکھتی ہیں ، قوم تو خیر ہم ہیں نہیں کیونکہ کو ئی پنجابی ہے تو کوئی سندھی ، کوئی بلوچی تو کوئی پٹھان ، اگر اور کچھ نہ ہو تو سنی، دیوبندی، اہلحدیث یا شیعہ تو ضرور ہوگا، مگر اس سب کے باوجود ہم ہیں زندہ دل لوگ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم گھنٹوں فلمیں دیکھ سکتے ہیں، سوشل میڈیا استعمال کر سکتے ہیں، کرکٹ میچ کیلئے سارا دن بربا دکر سکتے ہیں ، اور زندہ دل لوگ مرحوم لوگوں کی تقریبات میں نہیں جایا کرتے۔
 
IMRAN HYDER AWAISI
About the Author: IMRAN HYDER AWAISI Read More Articles by IMRAN HYDER AWAISI: 3 Articles with 6162 views President of Awaisia Foundation Regd. Member of Institute of Cost and Management Accountants of Pakistan (ICMAP), Finalist of Institute Chartered Acco.. View More