بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلام عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
حدیث وہ کلام ہے جس میں نبی اکرم ﷺکے قول یا عمل یا کسی صحابی کے عمل پر آپﷺ
کے سکوت یا آپ ﷺکی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو ۔صحابۂ کرام و
تابعین و تبع تابعین و محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء ومؤرخین غرضیکہ ابتداء
اسلام سے عصر حاضر تک‘ امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکرنے تسلیم کیا ہے کہ قرآن
کے بعد حدیث‘ اسلامی قانون کا دوسرا اہم وبنیادی ماخذ ہے اور حدیث نبوی بھی
قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ
نے قرآن میں متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے مثلاً وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ
الذِّکْرَ لِتُبَےِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ
ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۂ النحل ۴۴) اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات
میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور رسول کی اطاعت
احادیث پر عمل کرنا ہی تو ہے۔ غرضیکہ احکام قرآن پر عمل کے ساتھ حضور اکرم
ﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے۔ حق تو
یہ ہے کہ قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اﷲ کی جانب
سے حضور اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ امت مسلمہ کے سامنے
قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ نبی ورسول کی بعثت کا
بنیادی مقصد احکام الہی کو اپنے قول وعمل کے ذریعہ انسانوں کی رہنمائی کے
لئے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔
جس طرح ایمان کے معاملہ میں اﷲ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق نہیں کی
جاسکتی ہے کہ ایک کو مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ٹھیک اسی طرح
کلام اﷲ اور کلام رسول کے درمیان بھی کسی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ
ایک کو واجب الاطاعت مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے کیونکہ ان دونوں
میں سے کسی ایک کے انکار پر دوسرے کا انکار خود بخود لازم آئے گا۔
حدیث‘ مذکورہ مقاصد میں سے کسی ایک مقصد کے لئے ہوتی ہے:
۱) قرآن کریم میں وارد عقائد واحکام ومسائل کی تاکید ۔ ۲) قرآن کریم میں
وارد عقائد واحکام ومسائل کے اجمال کی تفصیل۔
۳) قرآن کریم کے ابہام کی وضاحت۔ ۴) قرآن کریم کے عموم کی تخصیص۔
۵) بعض دیگر عقائد واحکام ومسائل کا ذکر، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ الحشر
آیت نمبر ۷ میں ارشاد فرمادیا (وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ
وَمَانَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا) جس کا حکم نبی اکرمﷺ دیں اس کو بجالاؤ
اور جس کام سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
حدیث کی قسمیں: سند حدیث (جن واسطوں سے نبی اکرم ﷺ کا قول یا عمل یا تقریر
یا آپ ﷺکی کوئی صفت امت تک پہونچی ہے ) کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں
بیان کی گئی ہیں،جن میں سے تین اہم اقسام حسب ذیل ہیں:
صحیح: وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی علم وتقویٰ دونوں میں کمال کو
پہونچا ہوا ہو، اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث سنی ہو۔ نیز حدیث کے متن
میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہو، اور کوئی
دوسری علت (نقص) بھی نہ ہو۔
صحیح کا حکم: جمہور محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء کا ان احادیث سے عقائد
واحکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے۔
حسن: وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی تقویٰ میں تو کمال کو پہونچا ہوا
ہو، اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث بھی سنی ہو، نیز حدیث کے متن میں کسی
دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہو۔ لیکن کوئی ایک راوی
علم میں اعلیٰ پیمانہ کا نہ ہو۔
حسن کا حکم: جمہور محدثین ومفسرین وعلماء کا ان احادیث سے عقائد واحکام
ثابت کرنے میں اتفاق ہے، البتہ اس کا درجہ صحیح سے کم ہے۔
ضعیف: حدیث حسن کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو۔
ضعیف کا حکم: احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل میں استدلال کے لئے فقہاء
وعلماء ومحدثین کی تین رائے ہیں:
۱) احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل دونوں میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔
۲) احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل دونوں میں استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
۳) عقائد یا احکام تو ثابت نہیں ہوتے، البتہ قرآن یا احادیث صحیحہ سے ثابت
شدہ اعمال کی فضیلت کے لئے احادیث ضعیفہ قبول کی جاتی ہیں۔ جمہور محدثین
ومفسرین وفقہاء وعلماء کی یہی رائے ہے، مشہور محدث امام نووی ؒ نے علماء
امت کا اس پر اجماع ہونے کا ذکر کیا ہے۔
﴿نوٹ﴾ حدیث کی اصطلاح میں صحیح‘ غلط یا باطل کے مقابلہ میں استعمال نہیں
ہوتا ہے بلکہ صحیح کا مطلب‘ ایسی حدیث جس کی سند میں ذرہ برابر کسی بھی
نوعیت کی کوئی کمی نہ ہو اور تمام راوی علم وتقوی میں کمال کو پہنچے ہوئے
ہوں، جبکہ حدیث حسن کا مطلب ہے کہ جو صحیح کے مقابلہ میں درجہ میں کچھ کم
ہو، ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند کے کسی راوی میں کچھ ضعف ہو جیساکہ
اوپر بیان کیا گیا۔ غرضیکہ ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے۔ ضعیف
حدیث میں ضعف عموماً معمولی درجہ کا ہی ہوتا ہے۔ ذخیرہ حدیث میں اگرچہ کچھ
موضوعات بھی شامل ہوگئی ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں،نیز
محدثین وعلماء نے دن رات کی جدوجہد سے ان کی نشاندھی بھی کردی ہے۔
ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے:
خیر القرون سے آج تک اصطلاح حدیث میں صحیح کے مقابلہ میں موضوع استعمال
ہوتا ہے یعنی وہ من گھڑت بات جو حضور اکرم ﷺ کی طرف غلط منسوب کردی گئی ہو،
محدثین وعلماء نے دن رات کی جدوجہد سے ان کی نشاندھی بھی کردی ہے اور ذخیرہ
حدیث میں ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ ضعیف حدیث صحیح حدیث کی ہی
ایک قسم ہے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری کی وجہ سے جمہور علماء اس کو
فضائل کے باب میں قبول کرتے ہیں۔ مثلاً سند میں اگر کوئی راوی غیر معروف
ثابت ہوا یعنی یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے یا اس نے کسی ایک موقع پر جھوٹ
بولا ہے یا سند میں انقطاع ہے (یعنی دو راویوں کے درمیان کسی راوی کا ذکر
نہ کیا جائے مثلاً زید نے کہا کہ عمر نے روایت کی حالانکہ زید نے عمر کا
زمانہ نہیں پایا، معلوم ہوا کہ یقیناً ان دونوں کے درمیان کوئی واسطہ چھوٹا
ہوا ہے) تو اس نوعیت کے شک وشبہ کی وجہ سے محدثین وفقہاء وعلماء احتیاط کے
طور پر اس راوی کی حدیث کو عقائد اور احکام میں قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ جو
عقائدیا احکام قرآن کریم یا صحیح احادیث سے ثابت ہوئے ہیں ان کے فضائل کے
لئے قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ بخاری ومسلم کے علاوہ حدیث کی مشہور ومعروف تمام
ہی کتابوں میں ضعیف احادیث کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور امت مسلمہ ان
کتابوں کوزمانۂ قدیم سے قبولیت کا شرف دئے ہوئے ہے، حتی کہ بعض علماء کی
تحقیق کے مطابق بخاری کی تعالیق اور مسلم کی شواہد میں بھی چند ضعیف احادیث
موجود ہیں۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کی متعدد کتابیں تحریر فرمائیں، بخاری
شریف کے علاوہ ان کی بھی تمام کتابوں میں ضعیف احادیث کثرت سے موجود ہیں۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم سے قبل اور بعد میں احادیث پر مشتمل کتابیں تحریر کی
گئیں مگر ہر محدث نے اپنی کتاب میں ضعیف حدثیں ذکر فرمائی ہیں۔ اسی طرح بعض
محدثین نے صرف صحیح احادیث کو ذکر کرنے کااپنے اوپر التزام کیا مثلاً صحیح
ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان وغیرہ، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب
میں احادیث ضعیفہ بھی ذکر فرمائیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خیر القرون
سے آج تک تمام محدثین نے احادیث ضعیفہ کو قبول کیا ہے۔ سب سے مشہور ومعروف
تفسیر قرآن (تفسیر ابن کثیر) میں اچھی خاصی تعداد میں ضعیف احادیث ہیں لیکن
اس کے باوجود تقریباً ۷۰۰ سال سے پوری امت مسلمہ نے اس کو قبول کیا ہے اور
وہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے اور اس کے بعد میں لکھی جانے والی
تفسیروں کے لئے منبع وماخذ ہے۔
اگر ضعیف حدیث قابل اعتبار نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ محدثین نے اپنی کتابوں
میں انہیں کیوں جمع کیا ؟ اور ان کے لئے طویل سفر کیوں کئے؟ نیز یہ بات بھی
ذہن میں رکھیں کہ اگر ضعیف حدیث کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو سیرت
نبوی اور تاریخ اسلام کا ایک بڑا حصہ دفن کرنا پڑے گا کیونکہ سیرت اور
تاریخ اسلام کا وافر حصہ ایسی روایات پر مبنی ہے جس کی سند میں ضعف ہو۔
زمانہ ٔ قدیم سے جمہور محدثین کا اصول یہی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر
ہے اور انہوں نے ضعیف حدیث کو صحیح حدیث کی اقسام کے ضمن میں ہی شمار کیا
ہے۔مسلم شریف کی سب سے زیادہ مقبول شرح لکھنے والے امام نووی ؒ (مؤلف ریاض
الصالحین ) فرماتے ہیں: محدثین، فقہاء اور جمہور علماء نے فرمایا ہے کہ
ضعیف حدیث پر عمل کرنا فضائل اور ترغیب وترہیب میں جائز اور مستحب ہے ۔ (الاذکار،
ص ۷۔۸) اسی اصول کودیگر علماء ومحدثین نے تحریر فرمایا ہے جن میں سے بعض کے
نام یہ ہیں: شیخ ملا علی قاری ؒ (موضوعات کبیرہ ص ۵ ، شرح العقاریہ ج ۱ ص
۹، فتح باب العنایہ ۴۹/۱)، شیخ امام حاکم ابو عبداﷲ نیشاپوریؒ (مستدرک حاکم
ج ۱ ، ص ۴۹۰)، شیخ ابن حجر الہیثمی ؒ(فتح المبین، ص ۳۲)، شیخ ابو محمد بن
قدامہ ؒ (المغنی ۱ / ۱۰۴۴)، شیخ علامہ الشوکانی ؒ(نیل الاوطار ۳ / ۶۸)، شیخ
حافظ ابن رجب حنبلی ؒ(شرح علل الترمذی ۷۲/۱ ۔ ۷۴)، شیخ علامہ ابن تیمیہ
حنبلی ؒ(فتاویٰ ج ۱ ص ۳۹)، شیخ نواب صدیق حسن خان ؒ(دلیل الطالب علی
المطالب ص ۸۸۹)۔
عصر حاضر میں بعض حضرات جو مسلمانوں کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں،
اپنے رائے کو امت مسلمہ کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جو وہ کہتے ہیں
وہی صرف احادیث صحیحہ پر مبنی ہے اور پوری امت مسلمہ کے اقوال احادیث ضعیفہ
پر مبنی ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر میں حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کامعیار صرف یہ
ہے کہ جو وہ کہیں وہی صرف صحیح ہے۔ حالانکہ احادیث کی کتابیں تحریر ہونے کے
بعد حدیث بیان کرنے والے راویوں پر باقاعدہ بحث ہوئی، جس کو اسماء الرجال
کی بحث کہا جاتا ہے۔ احکام شرعیہ میں علماء وفقہاء کے اختلاف کی طرح بلکہ
اس سے بھی کہیں زیادہ شدید اختلاف محدثین کا راویوں کو ضعیف اور ثقہ قرار
دینے میں ہے۔ یعنی ایک حدیث ایک محدث کے نقطہ نظر میں ضعیف اور دیگر محدثین
کی رائے میں صحیح ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی حدیث پیش کی جائے تو فوراً عام
لوگوں کو بغیر تحقیق کئے ہوئے یہ تبصرہ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ حدیث صحیح
نہیں ہے۔ اس لئے کہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ وہ حدیث صحیح ہو، جس سے نبی اکرم
ﷺ کے قول کا انکار لازم آئے ۔ اور اگر کوئی عالم کسی حدیث کو قابل عمل نہیں
سمجھتا ہے تو وہ اس پر عمل نہ کرے لیکن اگر کوئی دوسرا مکتب فکر اس حدیث کو
قابل عمل سمجھتا ہے اور اس حدیث پر عمل کرنا قرآن وحدیث کے کسی حکم کے
مخالف بھی نہیں ہے، تو ہمیں چاہئے کہ ہم تمام مکاتب فکر کی رائے کا احترام
کریں، مثلاً ماہ رجب کی ابتداء پر آپ ﷺ سے ﴿اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ
رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان﴾ پڑھنا ثابت ہے اور یہ حدیث مسند
احمد، بزار، طبرانی، بیہقی جیسی کتابوں میں موجود ہے جن کو پوری امت مسلمہ
نے قبول کیا ہے۔ تو جو علماء اس حدیث کی سند پر اعتراض کرتے ہیں وہ یہ دعا
نہ پڑھیں، لیکن اگر علماء کرام کی ایک جماعت اس حدیث کو قابل عمل سمجھ کر
یہ دعا مانگتی ہے تو ان کے بدعتی ہونے کا فتوی صادر کرنا کونسی عقلمندی ہے۔
اسی طرح علماء ، فقہاء اور محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ۱۵ ویں
شعبان سے متعلق احادیث کے قابل قبول اور امت مسلمہ کا عمل ابتداء سے اس پر
ہونے کی وجہ سے ۱۵ ویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر نفل نمازوں کی
ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اور دعاؤں کا کسی حد تک اہتمام کرنا
چاہئے۔ لہٰذا اس نوعیت سے ۱۵ ویں شعبان کی رات میں عبادت کرنا بدعت نہیں
بلکہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ غرضیکہ ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی
ایک قسم ہے اور امت مسلمہ نے فضائل اعمال کے لئے ہمیشہ ان کو قبول کیا ہے۔
نبی اکرم ﷺکے زمانے میں حدیث لکھنے کی عام اجازت نہیں تھی تاکہ قرآن وحدیث
میں اختلاط نہ پیدا ہوجائے، البتہ انفرادی طور پر صحابہ کرام کی ایک جماعت
نے نبی اکرم ﷺ کی اجازت سے احادیث کے صحیفہ تیار کررکھے تھے۔خلفاء راشدین
کے زمانہ میں بھی حدیث لکھنے کا نظم انفرادی طور پر جاری رہا۔ حضرت عمر بن
عبد العزیز رحمہ اﷲ علیہ ( ۶۱ھ۔۱۰۱ھ)نے اپنی خلافت کے زمانہ (۹۹ھ۔ ۱۰۱ھ)
میں احادیث کو جمع کرانے کا خاص اہتمام کیا۔ اس طرح حضرت عمر بن عبد العزیز
رحمہ اﷲ علیہ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر احادیث
کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرلیا گیا تھا جو بعد میں تحریر کی گئیں کتابوں کے
لئے اہم مصدر بنا۔
۲۰۰ ہجری سے ۳۰۰ ہجری کے درمیان احادیث لکھنے کا خاص اہتمام ہوا، چنانچہ
حدیث کی مشہور ومعروف کتابیں: بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ،
نسائی وغیرہ( جن کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے) اسی دور میں تحریر کی گئی ہیں،
جبکہ موطا امام مالک ۱۶۰ ہجری کے قریب تحریر ہوئی۔ ان احادیث کی کتابوں کی
تحریر سے قبل ہی ۱۵۰ ہجری میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (شیخ نعمان بن ثابت) کی
وفات ہوچکی تھی۔ امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ
علیہ کی حدیث کی کتاب ﴿کتاب الآثار﴾ ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل
مرتب ہوگئی تھی۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ پوری دنیا میں باقاعدہ
لکھنے کے عام معمول ۲۰۰ ہجری کے بعد ہی شروع ہوا ہے یعنی حدیث کی طرح تفسیر،
سیرت اور اسلامی تاریخ جیسے دینی علوم کی باقاعدہ کتابت ۲۰۰ ہجری کے بعد ہی
شروع ہوئی ہے۔ اسی طرح عصری علوم اور شعر وشاعری بھی ۲۰۰ ہجری سے پہلے
دنیامیں عمومی طور پر تحریری شکل میں موجود نہیں تھی کیونکہ کم تعداد ہی
پڑھنا لکھنا جانتی تھی۔ ۲۰۰ ہجری تک تمام علوم ہی حتی کے شاعروں کے بڑے بڑے
دیوا ن بھی صرف زبانی طور پر ایک دوسرے سے منتقل ہوتے چلے آرہے تھے۔ اگر یہ
اعتراض کیا جائے کہ حدیث کی باقاعدہ کتابیں ۲۰۰ ہجری کے بعد سامنے آئی ہیں
تو اس نوعیت کا اعتراض تفسیر قرآن ، سیرت کی کتابوں اور اسلامی تاریخ اور
شاعروں کے دیوانوں بلکہ یہ اعتراض دیگر عصری علوم پر بھی کیا جاسکتا ہے
کیونکہ باقاعدہ ان کی کتابت ۲۰۰ ہجری کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ ۲۰۰ ہجری تک
اگرچہ متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں مگر عام طور پر تمام علوم صرف
زبانی ہی پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے بعد حدیث‘ اسلامی قانون کا دوسرا اہم وبنیادی
ماخذ ہے اور حدیث نبوی بھی قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل
اور حجت ہے ۔ حدیث کے بغیر ہم قرآن کو سمجھنا تو درکنار اسلام کے پانچ
بنیادی اہم رکن کو بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ |