راہ ہدایت کا یہ سلسلہ صرف
انبیاء تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ خلفائے راشدین، اہل بیت اور امامت کے
سلسلے، صحابہ ء کرام، تابعین اور تبع تابعین اور اولیائے کرام تک چلتا ہے
اور تاقیامت انسانوں کی ہدایت کا بہترین انتظام کیا گیا ہے.
تیسرا طریقہ عبادت خصوصا نماز ہے
-------------------------------------
عبادت خصوسا نماز اللہ سے براہ راست رابطہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے..آپکے آس
پاس یا جسمانی طور پر بہت سے اعمال اور واقعات رونما ہوتے ہیں.جسکے نتیجے
میں آپکے حواس متاثر ہوکر دماغ کو معلومات بھیجتے ہیں.اور یوں اپکو آگاہی
حاصل ہوتی ہے.اگر آپ پڑھ رہے ہین تو یہ آوازیں جنھیں آپ سن بھی رہے ہوتے
ہیں وی سب ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں.چاہے ان میں آپکے خیالات ہی کیوں
نہ ضم ہوں.یہ باتیں شعور میں یکجا نہیں ہوتیں بلکہ آپ کی توجہ پوری طرح
پڑھنے کی طرف مبذول ہوتی ہگ.یہی یکسوئ نماز میں بھی شرط ہے اسکے بناء آپ
اللہ سے براہ راست رابطے میں نہیں آسکتے. ایسا سمجھ لیں پھر آپکی نماز اس
وقت ایک طرح کی ایروبک یا یوگا آسن کی حیثیت اختیار کرلے گی جو ورزش تو
کہلائے گی پر عبادت نہیں.
خیر یہ سب صرف وضاحت کے لیئے مختصرا بیان تھا اب ہم اصل بات کی طرف آتے
ہیں.اللہ تعالی کی تعلیمات اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
انسانی زندگی کو دو شعبوں مین تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک گھر کے اندر کا
شعبہ، دوسرا گھر کے باہر کا شعبہ، گھر کے اندر کا شعبہ خواتین کے سپرد کیا
گیا ہے جبکہ گھر کے باہر کا شعبہ مردوں کے. اسکی وجہ یہ ہے مرد جسمانی
اعتبار سے طاقت اور قوت میں زیادہ ہوتے ہیں وہ گھر کے باہر معاشی، سیاسی
اور سماجی امور بہتر طور پر سر انجام دے سکتے ہیں جبکہ عورتیں ان کاموں کی
انجام دہی میں جو ذہنی اور جسمانی تھکان محسوس کرتی ہیں اس سے میری بہنیں
جو ذرہعہ معاش کے لیے گھروں سے باہر ہیں انکار نہیں کریں گیں.اور ان دونوں
شعبوں میں توازن ایک متوازن اور معتدل زندگی کے لیے بہرحال ضروری ہے.
اور دیکھا جائے تو مرد اور عورت کی جسمانی قوت بالکل بھی یکسان نہین.انکی
فطری تخلیق اس بات کی مظہر ہے.کہ اسلام کی تعلیمات غلط نہیں.اسکی مسلم
معاشرے میں خصوصا صحابہ کرام کے دور میں آپکو بہت مکل جائیں گیں.یہ بات اس
طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ عورت کو بنا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت
نہیں.ویسے بھی جہاں اللہ تعالی کے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات
آجاتے ہیں وہاں بحث کی گنجائش نہیں.
مغرب کے آزادی ء نسواں کے تصور کو آج کل ہم نے اپنی زندگیون پر لاگو کرلیا
ہے لیکن جس معاشرے میں پاکیزگی اور اقدار کی اہمیت ہی نہ ہو جہاں معاشرے کی
اس تقسیم کو اخلاقی پستی اور حیا سوزی میں روکاوٹ سمجھا جائے کیا اسے قبول
کرنا صحیح ہوگا.جب مغرب میں یہ لہر پیدا ہوئ تو مرد کو عورت گھر میں بوجھ
لگنے لگی وہ ایک طرف اپنی ہوسناک طبیعت کی تسکین بھی چاہتا تھا تو دوسری
طرف اسکی قانونی معاشی کفالت سے بھی انکاری.اسکا عیارانہ طریقہ نکالا گیا
اور اسے آزادیء نسواں کا نام دیا گیا.مطلب عورت کو یہ سبق پڑ ھایا گیا کہ
وہ آج تک چار دیواری میں قید تھی.اسے اس قید سے باہر اکر مردوں کے شانہ
بشانہ کام کرنا چاہیے.دنیا بھر کے اعزازات اور اونچے اونچے منصب اسکا
انتظار کررہے ہیں جبکہ اسلام نےتو عورت کو کئ سو سال پہلے ہی آزادی دے دی
تھی بلکہ یہی نہیں اسکی سہولت کے لیئے بہت سے قوانین بھی بنائے گئے
تھے.جنکا متبادل آج بھی کسی معاشرے میں موجود نہیں.
پر اس پروپگینڈے کے نتیجے میں عورت باہر آگئ.ذرائع ابلاغ کے ذریعے شور
مچایا گیا کہ عورت کی صدیوں سے قائم غلامی کی زنجیریں توڑ دیں گئیں.
عورت سڑکوں پر آگئ.اسے آفس ورک میں جگہ دی گئ.اجنبی مردوں کی پرائیوٹ
سیکرٹری کے طور پر تو کبھی کلرک کے اور کبھی اسٹینو ٹائپسٹ سیاست چمکانے
لیے کبھی تو کبھی تجارت چمکانے کے لیے اسکے ایک ایک عضو کو برسر بازار رسوا
کرکے گاہوں کو دعوت دء گئ کہ آو ہم سے مال خریدو.جس عورت کو اسلام عزت اور
آبرو کا تاج پہنایا اور عفت و عصمت کے یار ڈالے.وہی اب ایک شوپیس اور مرد
کے لیے تفریح کا ذریعہ بن گئ. آج ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد ہے اگر آپ میری
اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو ذرا بتائیے گا کہ مغرب میں کتنی عورتیں سیاست
کے اہم شعبوں میں ہیں یا جج ہیں یقیننا یہ تناسب ان عورتوں کی بنسبت کم
ہوگا.جو آزادی ء نسواں کے فریب کا شکار ہورہی ہیں.تمام نچلے درجے کے کام
عورت سر انجام دے رہی ہے. وی ویٹرس ہے وہ ہوٹلوں میں روم اٹینڈنٹ
ہے.دوکانوں ہر سیلز گرل ہے دفاتر کے استقبالیہ پر بھی آپکو عورت ہی نظر آئ
گی.بیرے سے لے کر کلرک تک کے فرائض یا مناصب اسی عورت کے سپرد کیے گئے جسے
گھر کی قید سے آزادی عطا کی گئ.عورت اگر گھر کے اندر یہی فرائض انجام دے تس
ذلت اور یہی کام جب وہ گھر سے باہر دوسرے مردوں کے لیے انجام دے تو یہ
آزادی اور اعزاز
عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے ایک وجہ یی بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ
آبادی کا نصف معذور نہیں چھوڑ سکتے تو پہلے صاحبان مردوں کی پوری ابادی کو
تو برسر روزگار کر دیجئے پھر باقی نصف آبادی کے بارے میں سوچیے گا--
انشاء اللہ ہم اس آر ٹیکل کے تیسرے حصے میں اسکے فوائد اور نقصانات کا
جائزہ لیں گے. |