ہم سب کو ہی کبھی نہ کبھی اور
اکثر ہی Rejection سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ اکثر کی یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ
اس ریجیکشن کے قابل تھے نہیں مگر پھر بھی وہ ریجیکٹ کئے گئے ہیں۔ بہت سے
لوگ اس چیز کا دکھ شدید محسوس کرتے ہیں اور اس غم کو اپنے اوپر ٹھیک ٹھاک
طاری کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ریجیکشن کو اتنی
شدت سے محسوس نہیں کرتے مگر پے درپے ریجیکشن انکو اپنا آپ ضرور محسوس
کرواتی ہے۔ اور وہ زود رنج رہنے لگتے ہیں۔
ریجیکشن کی اقسام بہت سی ہوتی ہیں مثال کے طور پر جاب کی ریجیکشن، رشتے کی
ریجیکشن، دوستی کی ریجیکشن، مدد فراہم کرنے کی ریجیکشن، محبت کا جواب محبت
سے نہ ملنے والی ریجیکشن، ادھار نہ ملنے کی ریجیکشن، اعتبار کے قابل نہ
سمجھے جانے کی ریجیکشن، اپنائیت کی ریجیکشن وغیرہ وغیرہ
آپ خواہ کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں مگر آپ کو ریجیکشن سے پالا پڑے گا
ضرور۔۔۔۔۔۔سو اس سے دور بھاگنے کی بجائے اسکے اثرات سے Immune ہونے کے
طریقی ڈھونڈھنا ہی اصل کمال ہے۔
۱۔ ذاتی تحقیر۔ ریجیکشن کے بعد لوگ ذیاہ تر خود کو حقیر سمجھنا شروع کردیتے
ہیں کہ انکی ذات ہی اتنی بری ہے کہ انکا ریجیکٹ کیا جانا بنتا ہی ہے۔
ریجیکشن کو اسطرح لیں کہ ریجیکشن صرف ایک مرحلے پر محض ایک انکار ہے۔ ذاتی
عزت اور ذاتی غرور کی نفی کرنا اور شدت سے کرنا اس مرحلے پر بیوقوفی ہے۔
۲۔ عزت نفس۔ لوگ ریجیکشن سے تنگ آکر اپنی عزت تک کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر
وقت خود کو اندر ہی اندر اتنی باتیں سناتے ہیں کہ آپ اپنی نظروں میں عزت
ختم ہو جاتی ہے۔
جب آپ اپنی عزت نہیں کریں گے تو دوسرے بھی کبھی آپکی عزت نہیں کریں گے اور
آرام سے آپکی خود سے بیزاری بھانپ کر آپکو عزت کبھیی بھی نہیں دیں گے۔
سامنے والے کو آپ سے بھی جلد یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ آپ اپنی کتنی عزت کرتے
ہیں۔
۳۔ شرمدنگی۔ معاشرے کے لوگ ریجیکٹ ہونے والوں کو شرمندہ کر کر کے ناک میں
دم ضرور کرتے ہیں۔ سو یاد رکھئے ڈھٹائی اور شرمندگی کے درمیان ایک لائن
ہوتی ہے اس کے درمیان توازن کرنا خود سیکھیں۔
خود کو دلاسہ دینا سیکھیں۔ دوسروں کی جانب سے دلائی جانے والی عار اور
طعنوں کا اثر کم ہو جائے گا۔
۴۔ بات چیت۔ ایک بات چیت اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ ایک بات چیت سامنے والے سے
ہوتی ہے۔ ایک بات چیت گروپ کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان تینوں طح کی بات چیت میں ہی
بار بار ریجیکشن کا ذکر نہ کریں۔ یہ غلطی عام طور پر ہوتی ہے۔ بار بار
ریجیکشن کا ذکر کرنا اسکا غم کم کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ اپنے آپ سے بات چیت
میں بھی ریجیکشن کا ذکر نہیں کرنا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریجیکشن طاری رہے گی۔
۵۔ غلطی پر نظر۔ تنہائی میں بیٹھ کر دیانت داری سے سوچیں اور پرکھیں ضرور
کہ آخر غلطی کس کی تھی اس ریجیکشن میں۔ اپنی جو غلطی نظر آئے اسکو درست
کرنے کی ٹھانیں اور اگلر بار نہ دوہرائیں۔ اس سے سیکھِں۔ جو غلطی سامنے
والے کی ہو اس کو جانے دیں کیوں کہ آپ صرف اپنی غلطی ہی کا ازالہ کر سکتے
ہیں۔
۶۔ ریففریشمنٹ۔۔ اپنے آپکو ایک ریفریشنگ فیز میں ضرور لے کر جائیں جو بھی
کام آپکو تازہ دم کرے اسکو ضرور کریں اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو ریجیکشن
سے نمٹنے میں مدد ضرور ملے گی۔ دل میں پڑے زخم خود ٹھیک ہونے لگیں گے۔
۷۔ یقین۔ ہر ناکامی زندگی میں آُپکی ذات کو بنانے کے لئے آتی ہے۔ آپ کے دل
میں یقین کو پختہ کرنے کے لئے کہ وقت سے پہلے اور قسمت سے ذیادہ کبھی بھی
نہیں مل سکتا ۔ شرط یہ ہے کہ آپ خود بھی تو خود کو بتائیں کہ آپ اس بات پر
یقین رکھتے ہیں ایمان رکھتے ہیں۔
۸۔ خوف کا علاج۔ ایک دفعہ ریجیکٹ ہونے کے بعد دل میں ہر اگلی بار جاب یا
پار سے رد کئے جانے کا خوف ہی اکثر لوگوں کی ذات سے جڑ جاتا ہے سو اس چیز
سے بچیں اور خود کو ایسا بنائیں کہ آپ تصور کر سکیں کہ آپ کامیاب ہوں گے یہ
تصور اتنا مضبوط ہو کہ جیسے آُ پ درحقیقت اسکو تجربہ کر کے محسوس کر رہے
ہوں۔
کامیابی آنے سے پہلے چھوٹی چھوٹی مشکلات راستے میں حائل ہونا لازمی ہے سو
خود کو اتنا مضبوط بنائیں کہ کامیابی جب آپ تک آئے آُ واقعی مضبوط بن چکے
ہوں۔ تاکہ کامیبابی سے لطف اٹھا سکیں۔
اکثر دیراور پے درپے ناکامیاں ہی کامیابی کو Welcome کرتی ہیں
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے کہ آپ ناکامیوں کے تسلسل کو کیسے گزارتے ہیں۔
کامیابی کے لئے تیاری کر کے یا۔۔۔۔۔ |