وہم پرست مرید اور پہنچے ہوئے مرشد

میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کےلڑکے سے دوالیتے ہیں

کچھ لوگوں کی بے وقوفیوں کی مثال میر تقی میر کی اس سادگی سے شاید ملتی جلتی ہے، یا پھر درندوں کے بادشاہ شیر اور بے وقوفوں کے سردار گدھے کی طرح ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ جنگل کا بادشاہ شیر بڑھاپے کی دہلیز پر جب جا پہنچا تو شکار کے قابل نہ رہا، سخت بھوک سے تنگ آکر اس نے بندر کے آگے ہاتھ جوڑے کہ کسی طرح سے کوئی موٹا تازہ شکار گھیر کر لے آئو، بندر کو بادشاہ سلامت پر ترس آگیا اور وہ ایک موٹے تازے گدھے کے پاس جا پہنچا اور اسے کہا کہ جنگل کا بادشاہ بیمار ہے اور آپ جیسے کسی عقلمند کو تاج شاہی پہنانا چاہتا ہے گدھا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور جھٹ دربار شاہی میں حاضر ہوا، بھوک سے نڈھال شیر نے بے تابی سے اس پر حملہ کردیا لیکن جلد بازی میں کمزور شیر کے منہ میں گدھے کی گردن کے بجائے اس کا کان آگیا۔ طاقت ور گدھے نے زور کا جھٹکا دیا کان تو اس کا شیر کے منہ میں ہی رہ گیا لیکن وہ جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ شیر نے اس ناکامی کے بعد بندر کو پھر گدھے کے پاس بھیجابندر نے گدھے سے کہا کہ تمہارا کان تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے گیا ہے۔ شیر تو تمہارے کان میں سر گوشی کرکے تمہیں شاہی اصول بتانا چاہتا تھا۔ تخت نشینی کے لالچ میں آکر بے وقوفوں کا سردار گدھا جنگل کے بادشاہ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور جاتے ہی کسی عقیدت مند مرید کی طرح شیر کے آگے گردن جھکا بیٹھا، شیر نے نہایت ہی آسانی سے گدھے کی گردن مروڑ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔

برطانوی جزائر کی ایک ریاست میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا ایک روحانی پیشوا کی روزانہ آمد سے تنگ ایک نوجوان کی اپنی بیوی سے تلخ کلامی ان دونوں کی طلاق پر منتج ہوئی، عقلمندوں نے اسی روحانی پیشوا کے سامنے طلاق کا یہ مسئلہ بھی پیش کردیا کہ جس کی وجہ سے طلاق ہوئی تھی، روحانی پیشوا نے خاندان کو تسلی دی کہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ متاثرہ خاندان سے کہا گیا کہ وہ طلاق شدہ لڑکی اور اس روحانی پیشوا کے پاکستان جانے کے لئے ٹکٹ کا بندوبست کرے تاکہ وہاں سے حلالہ کروا کر لڑکی دوبارہ اپنے خاوند کے پاس واپس آجائے، پہنچے ہوئے پیر نے پاکستان پہنچنے کے بعد لڑکی واپس کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا کیونکہ وہ اس لڑکی سے اپنے بیٹے کا نکاح کرچکا تھا اور اس بیٹے کو برطانیہ بلانا چاہتا تھا ، لڑکی کے پہلے سسرالیوں نے پاکستان کی صوبائی حکومت سے رابطہ کیا اور اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے لڑکی کو تو برطانیہ لانےمیں کامیاب ہوگئے لیکن اب ’’مرشد‘‘ نے بیٹے کی طرف سے طلاق دلوانے کے لئے آٹھ ہزار پونڈ کا مطالبہ کردیا، آخر معاملہ پانچ ہزار پونڈ پر جاکر طے ہوا، متاثرہ خاتون آج بھی اس پہنچے ہوئے پیر کی کرامات سے خوفزدہ ہے کہ وہ جنات بھیج کر لوگوں کو چار پائیوں سے نیچے گرادیتا ہے۔ سنا ہے کہ لاٹری کے نمبر بھی بتاتا ہے کہ اس کی اپنی پانچ ہزار کی لاٹری لگ چکی ہے۔ ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور بیٹے کا ’’ہنی مون‘‘ اس لاٹری کے بونس کے طور پر ہی تو تھا، ہمارے ایک رازدان دوست کہتے ہیں کہ کاش کہ پیر صاحب کے جنات امریکہ کے صدر کو بھی ’’ چار پائی‘‘ سے نیچے گراسکتے تاکہ وہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانا چھوڑ دیں، ابھی یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ کیا پیر صاحب کا وہ بیٹا جو برطانیہ آنے کا خواہش مند تھا اس کے ویزے میں آسانی کے لئے بھی جنات نے کسی امیگریشن آفیسر کو چارپائی سے نیچے گرایا ہے یا یہ سارے جنات بھی امریکیوں کی طرح صرف ہم پاکستانیوں کو ہی چارپائیوں سے نیچے گراتے ہیں۔ میرے ایک اور دوست بھی میر کی طرح اس سادگی کا شکار ہوچکے ہیں لیکن بعد میں انہوں نے اس عطار کے لونڈے سے دوا لینے سے انکار کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ جب وہ بیمار ہوئے تو ان کی دادی ایک پیر صاحب کے پاس ان کو لے کر گئیں کچھ دن کے بعد اللہ تعالی نے انہیں شفا بخشی تو پیر صاحب نے ان پر ’’ دس وند‘‘ کا دعویٰ کردیا کہ بڑے ہوکر جتنی کمائی کرو گے اس کا دسواں حصہ مجھے دو گے۔ ان کاکہنا تھا کہ جب وہ جوان ہوکر برطانیہ سے پاکستان گئے تو ان پیر صاحب کے بھائی نے ’’حساب کتاب‘‘ کرکے میری جیب کافی ہلکی کردی مزید رقم کے مطالبے پر میرے اس دوست نے گھبراہٹ میں جب ایک عالم دین سے رابطہ کیا تو وہ حیران ہوکر ان سے کہنے لگے کہ اسلام میں زکوۃ تو ڈھائی فیصد ہے یہ ’’ ٹین پرسنٹ‘‘ والا کہاں سے آگیا۔ ’’دس وند‘‘ کی یہ رسم ابھی تک قائم ہے اور خطہ پوٹھوہار کے بعض علاقوں جن میں تحصیل کہوٹہ اور گوجر خان شامل ہیں آج بھی پہنچے ہوئے ’’دس وندی‘‘ ملیں گے۔

تو ہم پرستی کے مارے ہوئے ہم لوگ بہت جلد ایسے پہنچے ہوئے شاطروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور ساری زندگی ان کے ہاتھوں لٹکتے رہتے ہیں۔ جب مصر فتح ہوا تھا تو عمر وبن العاص کے سامنے مسئلہ پیش ہوا کہ بودنہ کے مہینے میں ہر گیارہویں رات کو اگر ایک کنواری لڑکی کو سجا سنوار کر دریا ئے نیل کی نذر نہ کردیا جائے تو دریا اس وقت تک بہتا نہیں ہے۔گورنر مصر نے کہا کہ اسلام کے آنے کے بعد ایسی کوئی ظالمانہ حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ لوگ اپنے ذہنوں میں جمے ہوئے تصورات کے مطابق ڈرگئے اور مصر سے ہجرت شروع کردی کہ اب بلائیں نازل ہونا شروع ہوجائیں گی دریا میں پانی نہ آیا بات عمر بن خطاب تک جا پہنچی، جواب آیا، تم نے بالکل ٹھیک کہا میرا یہ خط دریائےنیل میں ڈال دو خط میں تحریر تھا۔ ’’ اے نیل اگر تو خود چلتا ہے تو نہ چل اور اگر تجھے چلانے والا اللہ واحد ہے تو ہم تجھے اس خالق کا واسطہ دیتے ہیں تو چل پڑ۔‘‘ دریا اس کے بعد سے آج تک نہیں رکا، اگر اس بے بنیاد عقیدے کا خاتمہ نہ کیاجاتا تو دنیا بھر میں ناجانے ظلم کی مزید کتنی ہی قسمیں ایسے ہی غلط عقائد پر موجود ہوتیں مظلوم چیختے اور کوئی نہ سنتا کہ ان کے عقیدے کا معاملہ ہوتا۔ اسلامی تعلیمات ان سب توہمات کی سختی سے نفی کرتی ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا جس شخص کو کسی بدشگونی نے کوئی کام کرنے سے روک دیا اس نے یقیناً شرک کیا۔(البخاری) یہ معمولی نظر آنے والی باتیں زندگی کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنادیتی ہیں اور ان سے نجات زندگی کو آسان بنانے کے علاوہ سکون اور راحت بخش دیتی ہیں۔کوا کیا جانےکہ مہمان نے آنا ہے، دائیں اور بائیں آنکھ کا پھڑکنا کیسے خوشخبری اور بدخبری کا باعث ہوسکتا ہے، ہچکی کا تعلق نظام ہضم سے تو ہوسکتا ہے کسی کی یاد سے نہیں اورہاتھ کی لکیروں میں کہاں سے یہ طاقت آگئی کہ کسی کام میں رکاوٹ بننے لگیں، سکندر اعظم سے کسی نے کہا تھا کہ تمہارے ہاتھوں میں فتح کی لکیرنہیں اس نے خنجر سے اپنے ہاتھ پر لکیر کھینچی اور دنیا فتح کرنے نکل کھڑا ہوا۔ہمارے ہاں توہم پرستی اور ضعیف الاعتکادی کا اس قدر دور دورا ہے کہ کبھی ڈبل شاہ کبھی جعلی عامل تو کبھی پہنچے ہوئے خود ساختہ مرشد کے روپ میں لوگوں کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر ان کو بے دھڑک لوٹتے ہیں اور پھر بھی معتبر اور ’’مرشد‘‘ کہلاتے ہیں۔

ان کو ماننے والوں خواص وعام کی کوئی قید نہیں۔ ان کے زیر اثر لوگ اپنی عزت جان ومال سب کچھ دائو پر لگادیتے ہیں افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ دیکھنے والے پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ یہ اسی طرح بے وقوف بناتے بھی ہیں اور لوگ خوشی سے بنتے بھی ہیں۔بریڈ فورڈ میں ایک پیر صاحب پہنچی ہوئی سرکار، کپڑا پکڑ کر دلوں کا حال بتادیتا ہے۔ لوگوں کو باور کرایاجاتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں لیتے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ یہ کپڑا انہیں نظر، جادو عملیات اورجنات کا پتہ ضروربتادیتا ہے اور اس کے توڑ کے لئے وہ ایک ایسا تعویز تجویز کرتے ہیں جو کسی خاص چمڑے پر لکھا جاتا ہے اور یہ چمڑا ہرن کا ہوتا ہے۔ ملتا بھی لندن سے ہے اورسب کو نہیں ملتا اس لئے یہ پیر صاحب عنایت خاص فرماتے ہوئے اسی چمڑے کا خود ہی بندوبست کردیتے ہیں اور اس کی قیمت کے طورپر دو سو سے ڈھائی سو پونڈ ہدیہ لے لیاجاتا ہے۔ایسے پیر ہی کیا جناب کچھ مولوی بھی ہیں جو اپنے آپ کوبہت بڑا عالم اور فاضل کہتے ہیں لیکن پلے کچھ نہیں ہوتا۔ پیر نصیرالدین نصیر مرحوم نے اسی حوالے سے اپنے ایک خطاب میں کہاتھا کہ علم کی کمی نہیں عقل کی کمی ہے ایک سیر علم کو برتنے کے لئے 10 سیر عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔عقل چھٹانک بھی نہیں اور علم کے حوالے سے شیخ الحدیث ہیں، شیخ القرآن ہیں، بڑا علم، بڑی فراست، بڑی تعلیم ہے لیکن عقل کوئی نہیں۔ ایسے علما سے کو رے اَن پڑھ جاہل مگر دانا بہتر ہیں۔ جس طرح بعض پیر دو نمبر ہیں اسی طرح بعض مولوی بعض لیڈر دو نمبر ہیں۔ان پیروں سے بچو جو تعویز دے کر تقدیریں بدلتے ہیں یہ بتادیں گے ! یہ تقدیر بدل دیں گے۔ اللہ کچھ چاہتا ہے یہ اللہ کو کچھ اور کرنے پر مجبور کردیں گے۔ارے اللہ اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ خود بندے کو پیدا کرکے اسی کے ہاتھوں مجبور ہوجائے، کیا وہ ہمارے جیسے پیروں کے پیچھے چل رہا ہے۔ اس کی حاکمیت اور توحید کا دامن پکڑیں۔ اس پر کوئی غالب نہیں۔ ہمارے پاس تو لوگ آتے ہیں اللہ کا راستہ پوچھنے کے لئے اگر ہم خود ہی اللہ بن جائیں تو ! برطانیہ میں ان پہنچے ہوئے لوگوں کی انگت داستانیں بکھری پڑی ہیں جو نہ جانے خود یہاں کس طرح پہنچے۔

کالم کی تنگ دامنی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اور تفصیلات یہاں بیان کی جائیں، سو اس موضوع پر ’’ شیر اور گدھے‘‘ کی مزید کہانیاں پھر کبھی۔
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 32558 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More