من گھڑت وظائف اور جعلی تعویزات
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
من گھڑت وظائف اور جعلی تعویزات
18 May 2014 از عثمان احمد
آج کل جعلی تعویزات اور من گھڑت وظائف کا کاروبار اپنے عروج پر ہے، کوئی
بھی چینل لگا لیں وہاں آپ کو دین سے بے بہرہ حضرات ٹیلی فون کالز کے جوابات
میں کچھ اس طرح کے دینی ٹوٹکے بتاتےنظرآئیں گے:
۔۔۔۔ ایک مدنی بہن نے رزق کی کشادگی کے لئے کہا تو وظیفہ پیش خدمت ہے ” ہر
نماز کے بعد اول و
آخر درود شریف کے ساتھ یا رزاق پڑھیں ان شاء اللہ رزق میں فراوانی ہو گی”۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صرف ایک مثال تھی در حقیقت روزمرہ کے مختف مسائل جیسے شادی میں رکاوٹ،
بلاؤں کو ٹالنا، اولاد کا حصول، یا کسی بھی خاص خواہش کی تکمیل کے لئے ایسے
ہی جعلی وظیفوں کا استعمال معمول بن چکا ہے جس کی قرآن و سنت تو دور کی بات
بلکہ صحابہ کرام، تابعین اور سلف صالحین کے دور میں بھی کوئی دلیل نہیں
ملتی۔
ایک مثال
اگر آپ قرآن و احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو رزق میں کشادگی، اولاد کے
حصول، مصیبتوں سے بچنے غرض ہر مسئلے کا حل مل جائے گا۔ مثال کے طور پر رزق
میں کشادگی کے لئے کتاب و سنت کی تعلیمات درج زیل ہیں:
من أحب أن يبسط له في رزقه، وينسأ له في أثره، فليصل رحمه» ۔[رواه البخاري
5986 ومسلم 2557]
ترجمہ: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جو چاہتا ہو کہ اس کی روزی میں
کشادگی ہو اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ
رحمی کرنا چاہیے۔
حضرت مصعب بن سعد ضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد سعد رضی اللہ
عنہ نے دیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو (انہوں نے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم سے پوچھا) جس پر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا ” کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے اورتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“
( بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)
اسی طرح قرآن پاک میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعہ رزق میں برکت
اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن
پاک میں منقول ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا، يُرْسِلِ
السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا، وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ
وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا (سورة نوح،
آیت:12-10)
ترجمہ: میں نے ان ( قوم) سے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بلاشبہ وہ بڑا
بخشنے والا ہے، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا، تمہیں مال واولاد کی فراوانی
بخشے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔
یعنی کتاب و سنت کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے
رزق میں کشادگی ہو تو اسے چاہئے کے اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے،
کمزوروں و محتاجوں کی مدد کرے اور ہر حال میں استغار کرتا رہے۔
لیکن افسوس!
چونکہ رزق کی کشادگی کے لئے کتاب و سنت میں درج کردہ احکامات پر عمل کرنا
مشکل اور جعلی وظیفوں کا 111 مرتبہ ورد کرنا آسان عمل ہے اس لئے عوام کی
ایک عظیم اکثریت صحیح اور خالص دین کو چھوڑ کر جاہلوں کے ایجاد کردہ نقلی
دین پر عمل پیرا ہے۔
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا دین نامکمل تھا جو لوگوں کو ایسی
شریعت سازی کی ضرورت پیش آ گئی؟ کیا اس نام نہاد دینی گروہ میں زرا بھی خوف
خدا نہیں رہا کہ لوگوں کو کتاب و سنت کی تعلیمات سے دور کر کے اپنے بنائے
ہو گمراہ کن دین پر لگانے میں مشغول ہیں؟
موضوع سے متعلق کچھ مفید کتابیں:
دعائیں التجائیں
دن اور رات میں 1000 سے زیادہ سنتیں
حصن المسلم
مسنون وظائف واذکار اور شرعی طریقہ علاج
اسلامی وظائف
اذکار نافعہ
معوذّتین فضائل،برکات،تفسیر |
|