خواجہ خواجگان!!!شہنشاہ ہند!!!سنجری !!!اجمیری!!!غریب نواز

٭...... مرید ِحضرت عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ!!!
٭...... مرشد ِحضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ!!!
٭...... گھرانہ ِسادات کا روشن چراغ !!!
٭...... منبع علم وحکمت!!!عطائے رسول!!!
٭...... خواجہ خواجگان!!!شہنشاہ ہند!!!سنجری !!!اجمیری!!!غریب نواز!!!
٭...... جن کے در بارمیںسدافیوض وبرکات کے دریچے وا رہتے ہیں!!!
٭...... جہاںسب کی مرادیں برآتی ہیں!!جہاں سب کی جھولیاں بھردی جاتی ہیں!!!
معزز قارئین!!!سُلطان الہند حضرت خواجہ سیّد محمد معین الدین چشتی اجمیری جنوبی ایشیاءمیں تصوّف کے سب سے بڑے سلسلہءچشتیہ کے بانی ہیں اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءجیسے عظیم الشان پیرانِ طریقت کے مرشد ہیں۔ غریبوں کی بندہ پروری کرنے کے عوض عوام نے آپ کو غریب نواز کا لقب دیا جو آج بھی زبان زدِ عام ہے۔

آپ 14 رجب 536 ہجری کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان کے ایک دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے آپ نسلی اعتبار سے صحیح النسب سید تھے آپ کا شجرہ عالیہ بارہ واسطوں سے امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی خواجہ غیاث الدین حسین بہت دولت مند تاجر اور بااثر تھے۔ خواجہ غیاث صاحب ثروت ہونے کےساتھ ساتھ ایک عابد و زاہد شخص بھی تھے۔ دولت کی فراوانی کے باوجود حضرت معین الدین چشتی بچپن سے ہی بہت قناعت پسند تھے۔

جس زمانے میں آپ کی ولادت ہوئی وہ بڑا پرآشوب دور تھا سیستان اور خراسان لوٹ مار کی زد میں تھے ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ سرسبز و شاداب علاقوں میں آگ بھڑک رہی تھی اور خوبصورت شہر کھنڈروں میں تبدیل ہو رہے تھے ملت اسلامیہ میں کئی فرقے پیدا ہو چکے تھے جو بڑی سفاکی اور بے رحمی سے ایک دوسرے کاخون بہا رہے تھے۔ ملاحدہ اور باطینوں کی جماعت نے پورے ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔

یہی وہ خون رنگ اور زہرآلود فضا تھی جس نے خواجہ غیاث الدین حسین کو ترک وطن پر مجبور کر دیا۔ آپ اہل خانہ کو لے کر خراسان چلے آئے ۔ اس وقت حضرت معین الدین چشتی کی عمر مبارک ایک برس تھی۔ خواجہ غیاث الدین حسین کا خیال تھا کہ انہیں ارض خراسان میں کوئی نہ کوئی گوشہ عافیت ضرور مل جائےگا۔ مگر گردش ایاّم کے یہاں بھی وہی تیورتھے جاں گداز فتنے یہاں بھی سر اٹھا رہے تھے ۔

549 ھجری میں خونی سیلاب انسانی سروں سے گزر گیا۔ اس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی عمر 13 سال تھی۔

پھر ایک دن صبر کی تلقین کرنےوالا باپ بھی 551 ھجری کو دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 15 سال تھی۔ آپ اس نازک اور درندگی سے لبریز دور میں ایک شفیق اورمہربان باپ کے سایہ عافیت سے محروم ہو چکے تھے والد گرامی کی رحلت پر آپ ہر وقت اداس رہنے لگے۔ ایسے لمحات میں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی نور نے بڑی استقامت کا ثبوت دیا اور بڑی ہمت اوربردباری کے ساتھ بیٹے کو سمجھایا۔

فرزند!!زندگی کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے اگر تم ابھی سے اپنی تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے۔

اٹھو اور پوری توانائی سے اپنی زندگی کا سفر شروع کرو۔ ابھی تمہاری منزل بہت دور ہے یہ والد سے محبت کا ثبوت نہیں کہ تم دن رات ان کی یاد میں آنسو بہاتے رہو۔ اولاد کی والدین کیلئے حقیقی محبت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر عمل سے بزرگوں کے خواب کی تعبیر پیش کریں۔تمہارے باپ کا ایک ہی خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے۔ چنانچہ تمہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کیلئے ہی صرف کر دینی چاہئے ۔ مادر گرامی کی تسلیوں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ زیادہ شوق سے علم حاصل کرنے لگے۔ مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ تھی مشکل سے ایک سال ہی گزرا ہو گا کہ آپ کی والدہ حضرت بی بی نور بھی خالق حقیقی سے جاملیں۔ اب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس دنیا میں بالکل تنہا رہ گئے۔

والد گرامی کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثے میں ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ درختوں کو خود پانی دیتے۔زمین کو ہموار کرتے پودوں کی دیکھ بھال کرتے۔ حتیٰ کہ منڈی میں جا کر خود ہی پھل بھی فروخت کرتے۔ آپ کاروبار میں اس قدر محو ہو گئے کہ آپ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی کہ جس کا بظاہر کوئی علاج ممکن نہ تھا۔ آپ اکثر اوقات اپنی اس محرومی پر غورکرتے جب کوئی حل نظر نہ آتا تو شدید مایوسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے اوررونے لگتے۔ گویامعزز قارئین !!!یہ خدا کے حضور بندے کی ایک خاموش التجا تھی۔ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی کاگزر ہوا۔ آپ نے بزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے گئے اور حضرت ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔

حضرت ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے ۔ انہوں نے کمال شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے حضرت ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔

حضرت ابراہیم علیہ رحمہ نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا اے نوجوان! آپ کیا چاہتے ہیں؟؟

حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمہ نے عرض کی کہ آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوتی ہے کہ نہیں۔ آپ کالہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم سے انکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے طباق لئے آپ حضرت ابراہیم کے سامنے رکھ دئیے اور خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔

اس نو عمری میں سعادت مندی اورعقیدت مندی کا بے مثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم حیران تھے۔ انہوں نے چند انگور اٹھا کر کھا لئے۔ حضرت ابراہیم کے اس عمل سے آپ کے چہرے پر خوشی کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی نے فرمایا۔ معین الدین بیٹھ جاﺅ!

آپ دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے فرمایا فرزند!!تم نے ایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہی۔ یہ سرسبز شاداب درخت یہ لذیذ پھل یہ ملکیت اورجائیداد سب کچھ فنا ہو جانےوالا ہے۔ آج اگریہاں بہار کا دور دورہ ہے تو کل یہاں خزاں بھی آئےگی۔ یہی گردش روزوشب ہے اور یہی نظام قدرت بھی۔ تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائےگا۔ پھر اللہ تعالیٰ تجھے ایک اور باغ عطا فرمائےگا۔ جس کے درخت قیامت تک گرم ہواﺅں سے محفوظ رہیں گے۔ ان درختوں میں لگے پھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لے گا پھر وہ دنیا کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔

یہ کہہ کر خشک روٹی کاوہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی علیہ رحمہ کے منہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سے نکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سے چل دیئے۔

حضرت ابراہیم قندوزی کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا۔ مگر آپ نے ایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ اس ٹکڑے کاحلق سے نیچے اترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔

قارئین کرام!!آ پ نے اپنا باغ اورچکی ضرورت مندوں کی نذر کردی اور را ہ حق کی تلاش میں نکل پڑے!!
قارئین !!آپ نے جس مکرم ہستی کو اپنا پیر بنایا ان کانام حضرت عثمان ہرونی ہے !!!انہوں نے ہی آپ کو عطائے رسول کے خطاب سے نوازا!!ان سے ملاقات کے بعد آپ کے سامنے سے تمام حجابا ت اٹھ گئے !!!حضرت عثمانہ ہرونی نے فرمایا جو کچھ میرے پاس تھامیں نے معین الدین کو عطاکردیا!!

ایک اور روایت کے مطابق حضرت عثمان ہرونی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو لےکر مکہ معظمہ حاضر ہوئی۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے بعد آپ نے بلند آواز میں فرمایا۔ الٰہی!معین الدین حاضر ہے اپنے اس عاجز بندے کو شرف قبولیت عطا فرما۔ جواب میں ندائے غیبی سنائی دی۔ ہم نے اسے قبول کیا۔ بےشک! یہ معین الدین ہے۔

پھر مکہ معظمہ کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ پھر جیسے ہی سرورِکائنات ﷺ کی قربت حاصل ہوئی حضرت عثمان ہرونی نے خواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔معین الدین! آقائے کائنات ﷺ کے حضور سلام پیش کرو۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے گداز قلب کےساتھ لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ السلام علیکم یا سید المرسلین۔ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ روضہ رسول ﷺ سے جواب آیا۔ وعلیکم السلام یا سلطان الہند۔
قارئین!!آپ کی ریاضت و مجاہدہ ،زہدوتقویٰ نہایت بلند تھا آپ لگاتار سات سات دن کے روزے رکھتے ،پوری پوری رات نمازوںمیں مشغول رہتے غرض یہ کہ کوئی بھی وقت آپ کا عبادت سے خالی نہ تھا!!آپ ان ولی اللہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے بنفس نفیس غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ تعالیٰ سے ملاقات کی !!

قارئین کرام!!!آپ کا امت مصطفیﷺ پر بہت بڑا احسان ہے آپ نے حضرت داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر چلہ کیا اورپھر ہندوستان تشریف لے گئے وہاں آپ نے راجہ پرتھوی اس کے حامیوں ،جادوگروں کے ظلم میں مبتلا لوگوں کی جان چھڑائی اور شہاب الدین غوری کے ذریعے راج پرتھوی کو نسیت و نابود فرمایا !!!

حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز نے جب ہندوستان میں قدم رکھا تو وہاںمسلمانوںکا نام و نشان تک نہ تھا مگر جب آپ نے 6 رجب المرجب 632 ھ میں وصال فرمایا تو نوے لاکھ کلمہ گو ہندوستان میں موجود تھے ،آپ کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور آج اجمیر شریف میں آپ کی آخری آرام گاہ غریبوں ،دردمندوں، بے یارومددگار اور بے اسرا لوگوں کیلئے فیوض وبرکات کا منبع بنی ہوئی ہے !!جہاں سے ہرلمحے ،ہرپل جھولیاں بھرتی ہیں ،واقعی قارئین !!!آپ غریب نواز ہیں !!!

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371063 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.