پولیس میں چلبل پانڈے کا کردار
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
پولیس نے قانون کی پاسداری نہیں
کرنی تو رولز کو شاہراہ دستور پر آگ لگادیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا
ہورہا ہے؟ پولیس خود قوانین کی پاسداری نہیں کرتی خود کو قانون سے بالاتر
سمجھتی ہے۔ پنجاب میں غریب ہونااول نمبر کا جرم گردانا جاتا ہے عورت ہونے
کو جرم کے دوسرے درجے میں رکھا جاتا ہے جبکہ غریب کی بیٹی ہونے کو تیسرے
نمبر میں شامل کیا جاتا ہے۔40 سال کی سروس اور پریکٹس کے دوران ایک بھی
مقدمہ ایسا نہیں دیکھا جس میں پولیس نے درست تحقیقات کی ہوں یہاں موجود
پولیس افسران کوئی ایک مثال دے دیں کہ جس میں انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے
ہوں افسران اپنے آفسزمیں مست بیٹھے رہتے ہیں جبکہ اہلکار اپنی من مانیاں
کرتے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں،1934 میں رعایا کو تحفظ دینے
کیلئے قوانین بنائے گئے کہ روزانہ کی بنیاد پر ضمنی اور روزنامچے کی نقل
ایس پی کے پاس جائے گی تاکہ کسی غریب کے ساتھ ظلم نہ ہوسکے لیکن یہ قاعدہ
ختم ہوگیا۔یہ ریمارکس جسٹس جواد خواجہ کی معزز عدالت نے ایک فیصلہ کی سماعت
کے دوران دیئے۔
ہمارے ملک میں کورٹ وہ واحد ادارہ ہے کہ جہاں پر جاتے ہوئے ایک کانسٹیبل سے
لے کر اعلی افسر تک کی پینٹ ڈھیلی ہوتی ہے کور ٹ میں جاتے ہوئے پولیس والوں
کی طبیعت بہت خراب ہوتی ہے کیونکہ وہاں cross questioning کے بغیر جوابدہ
ہونا پڑتا ہے کسی ہینکی پھینکی سے بھی اجتناب برتنا پڑتا ہے اسلئے پولیس
اہلکار و افسران گھبراتے ہیں اور اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ جج؍جسٹس
صاحبان ان کی کلاس بھی خوب لے رہے ہوتے ہیں مٹی پلید کررہے ہوتے ہیں لیکن
شاباش ہے اس کے دیپارٹمنٹ کے لوگوں پر کہ اتنے خوف ،سبکی اورتذلیل اپنی
روایتی روش بدلنے پر ذرا بھی مخلص دکھائی نہیں دیتے ان کی مستقل مزاجی قابل
داد ہے۔سپریم کورٹ پولیس کی ایذا رسانیوں کالے کرتوتوں غیر اخلاقی اور غیر
ذمہ دارانہ رویوں سے زچ ہوچکی ہے اور کتنا زچ ہے اس بات کا اندازہ ان
ریمارکس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رولز کو شاہراہ دستور پر آگ لگانے کی با ت
کی جارہی ہے۔
پولیس کا یہ حال صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ گذشتہ دنوں امریکہ کے30
سے زائد اہم شہروں جن میں واشنگٹن، لاس اینجلس، نیویارک سیٹل آوک لینڈ کیلی
فورنیا سان فرانسسکو وسکانسن میں پولیس گردی کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ جن کا
مقصد پولیس گردی کا خاتمہ تھا مظاہرین اس بات پر مشتعل تھے کہ2014 میں
پولیس نے1149 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔ جس میں 304 سیاہ فام تھے۔لیکن اس
مرتبہ کے پولیس کو لگام ڈالنے کے مطالبے کیلئے سیاہ فاموں کے ساتھ ساتھ
سفید فاموں نے ہرطبقہ فکر بالخصوص طلبا و طالبات نے احتجاج میں حصہ
لیا۔امریکی صدر باراک اوبامہ اور انتظامیہ سے پولیس کا قبلہ درست کرنے کا
مطالبہ بھی کیا اس دوران پولیس نے روایتی انداز اپناتے ہوئے 300 کے قریب
لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔
تو جناب پولیس تو پولیس ہی ہوتی ہے پاکستانی ہو انڈین ہو کہ امریکن یابرٹش
ہاں البتہ کرپشن اور قوانین کی پاسداری بہت حد تک ان کا شیوہ ہے لیکن یہ
چیز ہماری پاکستانی پولیس میں ناپید ہوچکی ہے ان کو سدھارنے اور راہ راست
پر لانے کی تمام کاوشیں بے سود ہوچکی ہیں ماضی میں پولیس افسران عوام اور
پولیس کے مابین موجود خلیج کو ختم کرنے کی بھی کوششیں کرتے رہے ہیں اس
سلسلے میں کھلی کچہریاں، عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے کیوں؟ طرز کے
پروگرام بھی منعقد ہوتے رہے جس کے مثبت نتائج بھی ملنا شروع ہوئے لیکن اس
محکمے کے چلبل پانڈے ٹائپ پولیس اہلکار و افسران المعروف کالی بھیڑیں ہمیشہ
سے ان پروگرام کو سبوثاژ کرتی رہیں۔یہ کرپٹ، اخلاقیات سے عاری، انسانیت سے
نابلداہلکاراس ڈیپارٹمنٹ کو ہمیشہ مظلوم کا دشمن اور ظالم و مجرم کا دوست
ادارہ ثابت کرنے پر اتارو نظر آئے۔ مزے کی بات یہ کہ محکمہ بھی باوجود
شکایات ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہوتا ہے کیونکہ یہ چلبل پانڈے جہاں
خود کرپشن کنگ بنے ہوتے ہیں وہیں پر وہ ’’اوپر کا حصہ‘‘بھی بقول ان کے
باقاعدگی سے ’’ایمانداری‘‘ کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ منہ کھاوے تے انکھ شرماوے
کے مصداق افسران ان کماؤ پوتوں کے خلاف کارروائی سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ جب
میڈیا ان کے ’’کارنامے ‘‘چھاپتا ہے تو یہ بڑے شدو مد اور غصے میں اس کی
تردید کرتے ہیں مگر دوسرے روز ان جرائم پیشہ میں سے ایک دو کو گرفتار کرکے
خبر لگوانے کیلئے پرتول رہے ہوتے ہیں۔
آج کل ایک اور روایت جڑ پکڑتی جارہی ہے کہ اوپر سے وائرلیس چلتی ہے کہ آج
ہر تھانہ دس دس موٹر سائیکل بند کرکے رپورٹ کرے۔وال چاکنگ کے حوالے سے دس
افراد پر پرچہ دیں اور ساؤنڈ ایکٹ کی خلاف ورزی پر بھی لوگوں کو گرفتار کیا
جائے۔ بس پھر کیا تھا تمام’’ فضول کام‘‘(پولیس والوں کی ڈکشنری کے
مطابق)چھوڑ کر اس حکم کو بجا لانے کی خاطر جائز و ناجائز گنتی پوری کرکے
افسران بالا کو رپورٹ بھی کرنا ہوتی ہے اور حکام بالا بھی اس کارکردگی پر
بڑے خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات پچھلے چند دنوں میں کثرت
سے پیش آئے بالخصوص وال چاکنگ کے معاملے پر توپولیس کے خلاف احتجاج بھی
ریکارڈ کرائے گئے کہ اپنے ذاتی بورڈ لکھنے پربھی پولیس کے شیر جوانوں نے
پینٹرز اورسکول کے مالکان کے خلاف بھی پرچے دینے کی روش اختیارکی گئی تھی
کہروڑپکا میں تو تھانہ صدر کے ایس ایچ او کے خلاف سینکڑوں طلبا اور اساتذہ
نے روڈ بلاک کرکے احتجاج کیا مذاکرات کے دوران ایس ایچ او موصوف سے وال
چاکنگ کی تعریف پوچھی گئی تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے نو کمنٹس
کے۔ پھر انہیں وال چاکنگ کی definition بتائی گئی کہ تشہیر کے لئے اپنی
ذاتی جائیداد دکان مکان پر لکھنا یا لکھوانا وال چاکنگ کے زمرے میں نہیں
آتا۔ہاں البتہ کسی کے جذبات مجروح کرنے مذہبی یا فرقہ وارانہ منافرت
پھیلانے یا حکومت کے خلاف کوئی تحریراس زمرے میں آتی ہے لیکن موصوف ٹھس سے
مس نہ ہوئے ۔یہ اور اس قسم کے رویے عوام اور پولیس کو دور رکھنے کی سب سے
بڑی وجوہات ہیں۔ غلط پرچے کا اندراج ڈیوٹی میں غفلت برتنے ، دفعات کا غلط
استعمال اور غیر اخلاقی رویے پر سخت ایکشن لیا جائے تو کسی بہتری کی امید
کی جاسکتی ہے ورنہ تو عوام کے دلوں اور ذہنوں میں پولیس کے خلاف نفرت
الارمنگ ہے- |
|