گداگری

فی زمانہ ملک میں’’ گداگری‘‘ بہت عروج پر ہے اور’’ گداگروں‘‘ نے ہر جگہ اپنا راج قائم کر رکھا ہے ۔ چنانچہ مصنّف نے مناسب سمجھا کہ کتاب میں گداگری پر بھی ایک مضمون شامل کر دیا جائے۔

عوامی فہم کے مطابق گداگری سے مراد ’’ ہاتھ پھیلا کربھیک مانگنا‘‘ ہے ۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پھیلا کر بھیک منانگنا گداگری کی واحد قسم ہے ۔مگر مصنّف کے مطابق اس کے علاوہ بھی گداگری کی کئی اقسام ہیں۔ یہ گداگری عام اوربہت معروف ہے مگر نہایت کمزور اور چھوٹی نوعیت کی ہے ۔ جب کہ دوسری گداگریاں غیر معروف ہیں مگر نوعیت کے اعتبار سے کئی جہتی ، اقتصادی نکتہء نظر سے انتہائی منافع بخش اور عہدے و مقام کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کی ہیں۔ اس مضمون میں مصنّف عام گداگری کے ساتھ ساتھ غیر معروف گداگریوں کو منظرِ عام پر لانے کے لیے بھی قلم کی سیاہی استعمال کر رہا ہے ۔
مضمون میں پہلے گداگری کی تعریف پھر گداگر ی مختلف اقسام پیش کی جائیں گئیں۔

گداگری کی تعریف
عام گداگری کی تعریف کے مطابق’’ اپنی غربت ، بے بسی وغیرہ ظاہر کرکے اﷲ نبی ﷺ اور انسانیت کے نام پر بھیک مانگنا ہے ‘‘۔ مگر یہ تعریق مکمل اور سائنٹیفک نہیں ہے ۔اس تعریف کو مکمل اور سائنٹیفک بنانے کے لیے ہم پہلے علمِ معاشیات اور پھر علمِ نفسیات سے مدد حاصل کرتے ہیں۔

علمِ معاشیات کی ایک مشہور اصطلاح ’’ مجموعی قومی پیداوار یا آمدنی ‘‘ (Gross National Products) ہے ۔اس اصطلاح کا مطلب وہ تمام اشیا ، خدمات اور دیگر آمدن ہے جو ایک ملک کے لوگ ایک سال میں پیدا کرتے ہیں۔مجموعی قومی پیدا وار میں ملک کے لوگوں کی ایک مخصوص تعداد حصہ لیتی ہے اور دوسری مخصوص تعداد حصہ نہیں لیتی۔دوسری مخصوص تعداد میں شامل افراد کو ’’ انحصاری ‘‘ (Depenents) کہتے ہیں۔علمِ معاشیات کے مطابق ایسے انحصاری افراد جو بغیر کسی معقول وجہ اور حقیقی جواز(بچپن ، بڑھاپہ، معزوری وغیرہ ) کے مجموعی قومی پیدا وار میں واجب حصہ نہیں ڈالتے اور اخلاقی اقدار، مذہبی ہدایات اور قانونی ضوابط کیخلاف مختلف طریقوں اور حربوں (بھیک ، چوری ، ڈاکا ْ ، رشوت ، کرپشن،غبن وغیرہ ) کو استعمال کرکے قومی پیداوار سے مستفید ہوتے ہیں ، کو گداگر کہتے ہیں ۔

علمِ نفسیات کے مطابق گداگری پست عقلی معیار کا نام ہے ۔ پست عقلی معیار کو زبانِ عام جہالت کہتے ہیں۔ پست عقلی معیار/جہالت ام المصائب اور مسائل ہے ۔ اس میں مبتلا انسان اخلاقی اقدار اور اُن کی افادیت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا، مذہب کے احکام اور ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہوتا ہے اور قوانینِ ریاست کے ضوابط پر عمل درآمد کرنے کی اہلیت سے معذور ہوتاہے۔ علاوہ ازیں پست عقلی معیار ہڈ حرامی، تن آسانی اور نااہلی کو جنم دیتا ہے۔ جب یہ بُرائیاں انسان میں جمع ہوجاتی ہیں تو وہ ماحول / معاشرے میں موجود قدرتی عناصر ، اُن سے بنی ہوئی اشیا ، ریاستی وسائل اور والدین کی سہولتوں سے مستفید ہو کر اپنی زندگی کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کے قابل نہیں ہو تا ۔ وہ زندگی کی ضروریات فیملی، معاشرے ،قوم اور ملک سے گداگری کے ذریعے پوری کر تا۔

گداگری کی تعریف کی مزید وضاحت کے لیے گداگری کے چند اہم جزویات پیشِ خدمت ہیں ۔

گداگری کی خصوصیات اور جزویات
٭گداگری ذہنی /نفسیاتی طور پر احساس غربت میں مبتلا ہوتی ہے ۔ اور انسان کو مزید دولت اکٹھی کرنے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔
٭گداگری کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے ۔ گداگری ایک بار لپٹ جائے توانسان کے لیے اُس سے علیٰحدہ ہونا مشکل ہوتا ہے چاہے انسان ارب پتی ہو جائے۔
٭ گداگر ی ہڈ حرام اور آرام پسند ہوتی ہے۔ زورِ بازو سے کمانے کی بجائے بھیک مانگنے کو ترجیح دیتی ہے اور معاشرے، قوم اور انسانیت کو کم ازکم خدمات دے کر اُن سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کر نے میں مصروف رہتی ہے ۔
٭ گداگری ذات پرست ہوتی ہے۔گداگروں کی سوچ اور اعمال کی محور ذات کے فوائد تک محدود ہوتا ہے۔ گداگری میں معاشرے کی فلاح ، قوم کی بہتری اور انسانیت کی خدمت کا تصور نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
٭ گداگری اخلاقی اقدار، مذہبی ہدایت و احکام اور ریاست کے قانونی ضوابط کو سمجھنے اور اُن پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ۔اور اُن کو روند کربھیک،چوری، ڈاکا،رشوت ، کرپشن اور ناجائز طریقوں سے ضرورت اور آسائش کے مالی اور دیگر وسائل حاصل کرکے زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہے۔

گداگری کی تعریف اور جزویات پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم گداگری کی مختلف اقسام کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں۔

گداگری کی مختلف اقسام
عام فہم ،علمِ معاشیات،علمِ نفسیات کی تعریفوں اورجزویات سے مستفید ہو کر اور طویل مشاہدات، لاتعداد تجربات اور محدود علم کو بروئے کار لا کر مصنّف نے گداگر ی کی پانچ اقسام دریافت کی ہیں۔ اگلی سطور میں مصنّف اپنی دریافت کردہ گداگری کی پانچوں اقسام کو علیٰحدہ علیٰحدہ قلم بند کر رہا ہے۔

کمزور گداگری
پہلی قسم ’’ کمزور گداگری‘‘ ہے۔ مصنّف نے یہ نام اس لیے تجویز کیا ہے کیونکہ اس گداگری کو معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ اختیار کرتا ہے اور اس گداگری کی اقتصاد ی اہمیت بھی معمولی مالیت کی ہوتی ہے۔

کمزور گداگری کے کھیل میں معاشرے کے تین طبقات حصہ لیتے ہیں۔ اورہر طبقے کے افراد منفرد کردار ادا کرتے ہیں۔پہلا طبقہ اُن افراد پر مشتمل ہے جو جسمانی طور پر کمزور( بیمار ،نشہ زدہ ،اپا ہج، اندھے، لولے لنگڑے وغیرہ) ، اقتصادی طور پر غریب اور عقلی لحاظ سے پسماندہ( ناخواندہ ، بے ہنر، جاہل اور بیوقوف ) ہوتے ہیں ۔ ان افراد کو معاشرے میں گداگر، فقیر یا بھکاری کہا جاتا ہے۔یہ گداگر محنت سے مجموعی قومی پیدا وار میں حصہ ڈالنے کی بجائے ہاتھ پھیلا کر، منت سماجت کر کے ،دعائیں د ے کر ، اﷲ اور رسول کا واسطہ ڈال کر اور دوسرے حربوں کے ذریعے بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اورعوام سے چند روپے، کھانے کی اشیا اور معمولی نوعیت کی چیزیں حاصل کرلیتے ہیں۔ ان گداگروں میں صرف چند فی صد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صحیح معنوں میں بھیک کے مستحق ہوتے ہیں اور باقی لوگ انتہائی بلند درجے کے ہڈ حرام، تن آسان اور نااہل ہوتے ہیں۔

دوسرے طبقے میں وہ افراد شامل ہیں جو گداگروں کو بھیک دیتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد کو زبانِ عام میں’’ سخی یا داتا‘‘کہا جاتا ہے۔مصنّف کے تجربات اور مشاہدات کے مطابق بھیک دینے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان وجوہات میں کچھ ظاہری اور کچھ مخفی ہوتی ہیں۔ ظاہری وجوہات میں گداگروں کی جسمانی معذوری، غربت ، لاچارگی، اور ذہنی پسماندگی کو دیکھ کر ترس کھانا اور گداگروں کی دعائیں ، التجائیں، واسطے ، منتیں ، سماجتیں وغیرہ سُن کر متاثر ہونا شامل ہے ۔ اور مخفی وجوہات میں پہلی یہ ہوتی ہے کہ شاید اﷲرب العزت گداگروں پر ترس کھانے پر خوش ہو جائے اورسخی پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل کر دے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ شایدگداگر کی کوئی دُعا قبو ل ہو جائے اور سخی کی دلی خواہشات ،تمنائیں پوری ہو جائیں، الجھے ہوئے کام سلجھ جائیں اور منصوبے مکمل ہو جائیں۔ تیسری وجہ بھیک دے کر آفات اور مصائب سے محفوظ ہونا ہوتا ہے۔ گویا چند روپے یا معمولی اشیا بھیک دے کر گداگروں کی دعاؤں سے اﷲ رب العزت سے اپنے کام کروانا مقصود ہوتا ہے ۔

وضاحت کے لیے مصنّف ایک سچا واقع کو قلم بند کر رہا ہے۔چند ماہ قبل مصنّف اپنے ایک رشتہ دار محمداسلم(ایک فرضی نام ہے) کے ساتھ اُس کے بیٹے کے لیے لڑکی دیکھنے شہر خانیوال روانہ ہوا ۔ جب کار ایک اشارے پر رکی تو اچانک ایک گداگر نے قریب آ کر محمد اسلم کو دُعائیں دیناشروع کر دیں:ــ’’ اﷲآپ کو خیر و خیر یت سے منزلِ مقصود پر پہنچائے، آ پ کی دلی مرادیں پوری ہوں، جس کا م کے لیے جارہے ہیں وہ پورا ہو‘‘۔ دُعائیں سُن کر مصنّف کو ایسا محسوس ہواجیسے ایک ماہرِ نفسیات نے گداگری شروع کردی ہے۔اس سے پہلے کہ مصنّف کو ئی بات کرتامحمد اسلم نے پرس سے پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور گداگر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔اتنی دیر میں اشارے کی بتی سبز ہوگئی گداگر دُور بھاگ گیا اور محمد اسلم نے کار کا ایکسی لیٹر دبا دیا ۔ کچھ دُور جا کر محمداسلم کو اپنی سخاوت اور مصنّف کی موجودگی کا خیال آیا۔ مصنّف کے کسی ردِ عمل سے پہلے محمد اسلم نے یوں وضاحت پیش کی: ’’ یار ہم لمبے سفر پر جار ہے ہیں اچھا ہے کہ کچھ صدقہ خیرات کر دی جائے اور ہو سکتا ہے کہ گداگر کی دُعاؤں کے صدقے جس کام کے لیے جارہے ہیں وہ پورا ہو جائے‘‘۔ مصنّف محمد اسلم کی باتیں سن کر مصنّف سمجھ گیا کہ محمد اسلم چند روپے خیرات دے کر اپنا سفر محفوظ کر اوراپنی خواہشات جن میں بیٹے کا رشتہ بھی شامل ہے، پوری کروانا چاہتا ہے ۔مصنّف نے صبر کاگھونٹ پی کر لبوں کو سی لیا کہ سفر میں کسی کا موڈ خراب نہ ہو۔ مگر آج مصنّف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاہے اور اُس نے واقع کو اس مضمون میں شامل کر دیاہے۔

چور گداگری
دوسری قسم’’ چور گداگری‘‘ ہے۔ اس گداگری کو وہ لوگ اختیا ر کرتے ہیں جو جسمانی طو ر پر طاقت ور ہیں مگر ہڈ حرام اورجاہل ہوتے ہیں ۔یہ گداگر مجموعی قوی پیداوار میں حصہ لینا فضول اور نقصان دہ کام سمجھتے ہیں۔ یہ گداگر ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگنے کی بجائے قومی دولت سے خواہش اور ضرورت کی چیزیں چوری، جیب تراشی وغیرہ سے حاصل کرتے ہیں۔ عام لوگ ان گداگروں کو چور یاجیب تراش کہتے ہیں مگر مصنّف کی حتمی رائے اور مذکورہ تعریفوں کے مطابق یہ گداگر ہیں۔ اور مصنّف نے کافی سوچ بچار کے بعد اُن کی گداگری کا نام ’’ چور گداگری ‘‘ تجویز کیا ہے۔


منہ زور گداگری
تیسری قسم ’ ’منہ زور گداگری ‘‘ہے ۔اس گداگری کو وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو پہلی اور دوسری اقسام کی گداگری میں شامل افراد سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ یہ لوگ بھیک مانگنے کو بے عزتی اور چوری کرنے کو بزدلی خیال کرتے ہیں۔ اور مجموعی قومی پیداوار میں حصہ ڈالنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ گداگر کم سے کم محنت اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کو کسبِ کمال اور فنکاری تصور کر تے ہیں۔چنانچہ یہ گداگر آتشیں اسلحے کے استعمال اور جسمانی طاقت کے زور پر ڈاکا ، لوٹ مار ، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کا ارتکاب کرکے لوگوں کی سالوں کی کمائی کو منٹوں میں لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص مزاحمت کرے تو اُسے کو قتل کر دیتے ہیں۔ لوگ اُنہیں ڈاکو اور لٹیرے کہتے ہیں مگر مصنّف کے مطابق اور گداگری کی تعریف کے تناظر میں یہ گداگر ہیں اور پہلی اور دوسر ی قسم کے گداگروں سے زیادہ خطرناگ ، نڈر اور منہ زور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنّف نے اُن کے لیے ’ ’منہ زور گداگری ‘‘ کا نام منتخب کیا ہے۔

کمرتوڑ گداگری
چوتھی قسم’’کمر توڑ گداگری ‘‘ہے۔ یہ گداگری بیان کردہ تین گداگریوں سے بڑی ہے ۔ اس گداگری میں شامل افراد زیادہ با اختیار اور طاقت ور ہیں جن میں اعلیٰ عہدو ں پر فائز 22 گریڈ تک کے بیوروکریٹس، قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ممبران، کثیر رقوم کے قرضے معاف کروانے والے بااثر افراد، بڑی بڑی ملوں کے مالکان، نیشنل منصوبو ں کے ٹھیکے لینے والی کمپنیوں کے مالکان ، میڈیا کو کنٹرول کرنے والے افراد وغیرہ شامل ہیں ۔ ان افراد کے نزدیک پہلے بیان کردہ تین اقسام کی گداگری کے ذریعے معمولی نوعیت کے مالی اور دوسرے مفاد ات حاصل کرنا مذاق کے مترادف ہے ۔ یہ افراد اپنی حیثیت، شہرت ،عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے مجموعی قومی پیداوار میں قابل ذکر حصہ ڈالے بغیرکرپشن اور رشوت ، غبن، ناجائز منافع خوری وغیرہ کے ذریعے قومی دولت اور وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔گداگری کی تعریف اور مصنّف کے یقین کے مطابق یہ افراد گداگر ہیں ۔ ان افراد کی گداگری کو مصنّف نے طویل غورو خوص کے بعد ’’ کمر ٹوڑ گداگری ‘‘ سے منسوب کیا ہے ۔ کیونکہ ان کی گداگری نے اٹھارہ ہزار ارب روپوں کے قرضوں ، بے روز گاری، غربت ، مہنگائی وغیرہ کے بوجھ ڈال کر عوام کی کمر توڑ نے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

پُر شور گداگری
پانچویں قسم’’ پُرشور گداگری‘‘ ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی اور بین الاقوامی گداگری ہے ۔ اس گداگری میں ملک کی اعلیٰ قیادت کے کچھ ممبران ( صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے چیف سیکرٹر ی وزیر وغیرہ ) شامل ہوتے ہیں۔ اور اس گداگری کا احاطہ ساری دنیاپر محیط ہے۔ اس گداگری کا طریقہ کار یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی ،قانونی ،انتظامی اور دیگر نوعیت کے مسائل( معیشت کی بد حالی ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، امن وامان ، سیاسی عدم استحکام وغیرہ)پیدا ہونے کا ماحول بنایا جاتاہے۔ پھرذرائع ابلاغ(اخبارات، ٹی وی چینلزوغیرہ) ، سفارت کاری اور دوسرے طریقوں سے مسائل کا بہت بلند شور مچایا جاتا ہے۔ اور جب کبھی سیلاب ،، زلزلہ یا قدرتی آفت نازل ہو جائے تو اُس کو بھی شور میں شامل کرلیا جاتاہے۔ شور مچا کر ملکی اور بین الاقومی قرضوں اور مدد کی صورت میں گداگری کی جاتی ہے۔آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور بین الاقوامی اداروں سے قرضوں اور مدد کے لیے کشکول بڑھایا جاتا ہے، دوست ممالک کے وفود کو کانفرنسوں او سیمیناروں میں مدعو کرکے اپنی غربت اور بے بسی کی صدا لگائی جاتی ہے ۔ اس بین الاقوامی سطح کی بھیک کے شور سے اربوں ڈالرز قرضوں اور امداد اکی صورت میں اکٹھے کیے جاتے ہیں۔پھر اس دولت کو مقتدر گداگر اپنی صوابدید اور خواہشات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ مصنّف کے علم اور مشاہدات کے مطابق ، جمع کردہ دولت کا کچھ حصہ ملکی مسائل کو حل کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے اور باقی دولت بے شمار طریقوں سے گداگر وں کی جیب میں پہنچ جاتی ہے۔ جو اُسے ملک میں محلات بنانے ، نئی نئی ملیں اور کارخانے قائم کرنے ، شہنشاہانہ زندگی بسر ، گداگری اور دیگر گناہوں او ر جرائم کو معاف کروانے کے لیے حج یاعمرہ کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ اورجودولت بچ جاتی ہے اُسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ممالک کے بینکوں یا کاروبار میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ’’ پُرشور گداگری‘‘ میں شامل افراد کو آپ جس نام سے چاہیں پکاریں مگر گداگر ی کی تعریف ، جزویات اور اقسام کے تناظر میں مصنّف کے یقین مطابق یہ افراد ملک کے سب سے بڑے گداگر ہیں۔

مصنّف نے مضمون میں گداگری کی تعریف، جزویات، اقسام کواپنے مشاہدات، تجربات اور محدود علم کے مطابق مختصر ترین الفاظ، نئے انداز اورآسان ا سلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ امیدہے آپ کو مصنّف کی یہ کوشش پسند آئے گی۔ لیکن اگر کسی ذاتی وجہ سے پسند نہ آئے تو مصنّف معذرت خواہ ہے۔
کی تعریف کے مطابق یہ حکمران ملک کے سب سے بڑے گداگر ہیں کیونکہ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ْْْ۔۔۔۔ ۔۔
Rana Saeed Ahmad
About the Author: Rana Saeed Ahmad Read More Articles by Rana Saeed Ahmad: 14 Articles with 24586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.