صبح آٹھ سے دس بجے تک میری کلاس
تھی، دس بجے باہر نکلا تو رازی ہال میں کشمیر کے حوالے سے ایک کانفرس تھی
جو دس بجے شروع ہو رہی تھی۔ جس کے مہمان خصوصی آزاد کشمیر کے وزیر اعظم
جناب عبدالمجید صاحب تشریف لانے والے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر
اور میرے محترم پیر استاد جناب مجاہد کامران اُن کے استقبال کے لیے ہال کے
سامنے کھڑے تھے۔ مجھے ایک ضروری کام جانا تھا اس لیے کانفرنس ہال میں جانے
سے معذرت کی اور اُن سے اجازت لے کر تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف لپکا۔ انسان
کی اپنی سوچ ہے اور فطرت کے اپنے فیصلے۔ ضروری نہیں کہ جو آپ سوچیں فطرت
اسے قبول کرے۔ بسا اوقات فطرت اپنے فیصلے آپ کی سوچ پر مسلط کر دیتی ہے اور
یہی ہوا۔ پارکنگ ایریا میں گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ عام گاڑیاں،سرکاری
گاڑیاں، میڈیا کی گاڑیاں اور گاڑیوں کے اس ہجوم میں ایک سبز پلیٹ والی
سرکاری گاڑی میری گاڑی کے پیچھے کھڑی تھی۔ گاڑی لاک تھی اور ڈرائیور یا
مالک کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ خیال تھا ڈرائیور قریب ہی ہوگا۔ میرے
کہنے پر گارڈز اور ڈیپارٹمنٹ کا عملہ سبھی ڈرائیور تلاش کرنے لگے۔ ضروری
کام کی وجہ سے میں ایک خوبصورت اور اپنے پسندیدہ موضوع پر ہونے والی
کانفرنس میں شریک نہیں ہو رہا تھا مگر یہ گاڑی مجھے ضروری کام سے روکے ہوئے
تھی۔
میڈیا کی بہت سی گاڑیاں جو ارد گرد موجود تھیں ان میں موجود میڈیا کے لوگ
بھی ہمارے ساتھ ڈرائیور کا پتہ لگانے کی کوشش اور میری پریشانی میں برابر
کے شریک تھے۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں کہہ رہا تھا کہ پتہ نہیں یہ کس
سرکاری افسر کی گاڑی ہے اور وہ کہاں سے آیا ہے کہ جسے احساس ہی نہیں کہ اس
طرح پارکنگ کی گئی گاڑی کسی دوسرے کے لیے کس قدر پریشانی کا باعث ہو سکتی
ہے۔ میرے اس اظہار پر میڈیا والے ہنسنے لگے کہ پروفیسر صاحب! یہ گاڑی کسی
اور سرکاری افسر کی نہیں ہو سکتی ماسوائے یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کے۔
بیوروکریسی میں موجود سرکاری افسر بہت رکھ رکھاؤ والے ہوتے ہیں۔ ان کے
ڈرائیور بھی پوری سمجھ بوجھ رکھتے اور معاملہ فہم ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات
کے بارے انتہائی تجربہ کار ہوتے ہیں۔ ہمارا تجربہ ہے کہ ایسی حرکت پروفیسر
یا ٹیچر کے علاوہ کوئی دوسرا افسر یا اس کا ڈرائیور نہیں کر سکتا۔ پروفیسر
لوگ ایسے معاملات میں کچھ لاپرواہ اور ڈرائیوروں سے نرم روّیہ رکھتے ہیں جس
کے نتیجے میں گریڈ 21 کے پروفیسر کا ڈرائیور خود کو گریڈ 20 کا سمجھتا اور
عام لوگوں سے اسی طرح کاسلوک کرتا ہے۔ یہ ڈرائیور بہت لاپرواہ، عقل اور
شعور سے بے نیاز اور ایسے معاملات میں انتہائی ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔
میر امؤقف تھا کہ پروفیسر حضرات دنیا کو علم اور شعور کی دولت سے مالا مال
کرتے ہیں وہ خود ایسی حرکت کا کیسے سوچ سکتے ہیں؟ ان کا عملہ بھی ایسا نہیں
ہو سکتا۔ میرے اس جواب پر بہت سے صحافی شرط لگانے کو تیار ہو گئے کہ یہ
گاڑی اگر یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کی نہ ہوئی تو وہ کھانا کھلائیں گے۔ ان
کا موقف سننے کے بعد میں نے یونیورسٹی کے ایک ذمہ دار کو بلایا اور پوچھا
کہ بتاؤ یہ گاڑی کس کی ہو سکتی ہے؟ جواب ملا کہ یہ تو نہیں بتا سکتا کہ
گاڑی کس کی ہے مگر ایسی گاڑیاں زیادہ تر ڈین حضرات کے پاس ہیں۔ میں نے فوری
طور پر کچھ ڈین حضرات کو جن سے میری راہ و رسم ہے فون کیا۔ وہ سبھی تقریب
کی بجائے کہیں اور موجود تھے۔ اس لیے ان کی گاڑی کا یہاں موجود ہونا ممکن
نہیں تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک ڈین کا دفتر تھا۔ میرے پاس ان کا فون نمبر نہیں
تھا۔ انہیں دیکھنے کو پیدل اُن کے دفتر پہنچ گیا۔ وہ دفتر میں موجود تھے۔
میں قابو آگیا۔ چائے اور گپ شپ میں آدھ گھنٹہ بیت گیا۔ جس سے ذہنی پریشانی
اور دباؤ کچھ کم ہوا۔ واپس آیا مگر صورتحال میں کچھ تبدیلی نہ آئی تھی۔
میڈیا والے پوچھ رہے تھے کہ اگر میں ہار گیا تو انہیں بھی کھانا کھلاؤں گا
یا نہیں؟ مگر میں نے ہنس کر کہا میں شرطوں پر یقین نہیں رکھتا۔ آپ کھانے کے
لیے کسی وقت بھی میرے گھر آسکتے ہیں۔
کافی وقت گزر گیا۔ تقریب اختتام کو پہنچنے والی تھی۔ مجبوراً تقریب ختم
ہونے کا انتظا ر کرنے لگا۔ تقریب ختم ہوئی تو ایک نوجوان ڈرائیور گاڑی کی
چابی گھماتے آیا۔ پوچھا بھائی دو گھنٹے سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ آپ کہاں تھے؟
مجھے گاڑی نکالنی تھی۔ جواب ملا ہال میں تھا۔ ایک دفعہ چکر لگایا تھا۔ آپ
سمیت کوئی نظر نہیں آیا۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ نے کھڑی کرتے وقت کچھ سوچا
نہیں کہ ایک گاڑی کا راستہ بند کر کے جا رہا ہوں۔ جواب ملا غلطی ہو گئی ،مگر
ہو گئی اب کیا کیا جائے؟کس کے ساتھ کام کرتے ہو؟ اس نے ایک خاتون ڈین کا
نام لیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ میں خود پر قابو پا کر سنتا ہوا واپس مڑ
گیا۔ وقت وقت کی بات ہے۔ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور بڑھاپا بڑی عجیب چیز
ہے۔ کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار ہو جاتا ہے۔ میں
پرہیز گار تو نہیں مگر گزشتہ دس بارہ سال سے پوری طرح کوشش کرتا ہوں کہ کسی
سے جھگڑا نہ ہو۔ غیر ضروری اُلجھنے سے پرہیز کرتا ہوں۔ میں نے تمام عمر
اساتذہ کی نمائندگی کی ہے اور میرا ایمان ہے کہ حقیقی نمائندگی کرنے والے
شخص کو تمیز اور بدتمیزی دونوں پر پوری طرح عبور ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ
ساتھ یہ شعور بھی کہ تمیز کہاں استعمال کرنی ہے اور بدتمیزی کہاں۔ رب العزت
کا احسان ہے کہ میں نے ان دونوں چیزوں کا زندگی میں بھرپور استعمال پورے
شعور کے ساتھ کیا ہے۔ آج کا نوجوان ڈرائیور اگر پندرہ سال پہلے اس طرح میری
گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کرتا تو یقینا صورتحال بہت مختلف ہوتی۔
سامنے استاد محترم جناب ڈاکٹر مجاہد کامران کھڑے تھے۔ میں ان کی طرف بڑھا،
کچھ صحافیوں نے روکنا چاہا کہ کس کی گاڑی تھی، شرط کون جیتا؟میں شرط ہار
گیا تھا کیا جواب دیتا۔ ابھی آیا کہہ کر استاد محترم کے پاس پہنچ گیا۔
پوچھنے لگے گئے نہیں؟ میں نے اپنی المناک داستان سنائی اور کہا کہ شکایت کر
رہا ہوں۔ کہنے لگے۔ شکایت بھی نہیں کرنی اور کچھ اور بھی نہیں کرنا۔ ٹھیک
ہے استاد محترم۔ آپ کا حکم۔ مگر افسوس تو افسوس ہے جس کا اظہار کوئی راہ تو
ڈھونڈھتا ہے۔میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ ہمارے مسائل کی وجہ تعلیم سے دوری
ہے۔ ہمیں وہ کچھ سکھایا ہی نہیں جاتا جو ایک اچھا انسان اور اچھا شہری ہونے
کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی تعلیم ہے وہ یا
اُن کے زیر سایہ لوگ ایسی حرکت کریں تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
ستر (۷۰) کی دہائی کے اوائل کی بات ہے،میں عابد مارکیٹ مزنگ کی پارکنگ سے
گاڑی لے کر نکلا تو باہر نکلنے والے راستے کے عین آگے ایک گاڑی کھڑی تھی۔
میں نے تین چار دفعہ ہارن دیا مگر گاڑی کے مالک کی بجائے بلڈنگ کے چوکیدار
آگئے اور گاڑی کے مالک کو تلاش کرنے لگے۔ مارکیٹ میں شیزان بیکری اور ایک
دو کے سوا سبھی دکانیں بند تھیں۔ چوکیداروں نے گاڑی کے نمبر کے حوالے سے
لوگوں سے پوچھا مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ دس منٹ بعد ایک صاحب ہاتھوں میں
بیکری کے سامان سے بھرے دو تین لفافے لٹکائے گاڑی کی طرف آئے۔ پچھلا دروازہ
کھولا، سامان رکھا اور پھر خود گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ چوکیدار نے کہا جناب
آپ کی گاڑی ہے؟ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے جواب کیوں نہیں دیا؟ اس دفعہ
پھر انہوں نے جواب دینے کی بجائے چوکیدار کو گھورا اور مڑ کر ایک پیر گاڑی
کے اندر رکھا۔ میں نے آگے بڑھ کر کہا برادر! آپ نے ایک تو غلط حرکت کی ہے،
دوسرا اسے گھور رہے ہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ آپ غلط پارکنگ پر معذرت کرتے۔
انہوں نے کہا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟ میں نے کہا جناب نجوم کا علم نہیں
جانتا۔ آپ بتا دیں۔ بڑے مکروہ لہجے میں گویا ہوئے میں یہاں لاہور میں
اسسٹنٹ کمشنر ہوں۔ بس اتنی سی بات سننے کے بعد ان کا گریبان میرے ہاتھ میں
تھا۔ وہ گاڑی سے باہر تھا اور میں اس سے دست و گریبان۔ میرا ہمیشہ سے خیال
ہے کہ وہ شخص جو انتہائی ذمہ دار عہدے پر کام کرتا ہوجسے لوگوں کو قانون کی
پاسداری کا فرض بتانا کہا گیا ہو، اسے اگر یہ تمیز نہ ہو کہ پارکنگ کہاں
کرنی ہے تو اسے یہ سکھانا بہت ضروری ہے۔ لوگوں نے بمشکل اسے چھڑایا اور وہ
مجھ سے گالیاں کھاتا گاڑی بھگا کر لے گیا۔ بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری مجھے کئی
دفعہ سول سیکرٹریٹ میں نظر آیا مگر نظریں چرا لیتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس
کے بعد اس نے کبھی گاڑی غلط پارک نہیں کی ہوگی۔ |