نیپال میں ہفتے کے روز 7.8 اعشاریہ کی شدت سے آنے والے
زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 3200 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ لاکھوں
افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ
نیپال میں اتنے شدید زلزلے کیوں آتے ہیں یا پھر ماہرین اس زلزلے کی تاریخ
کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ماہرین نیپال میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے کی بنیاد 80 برس قبل آنے والے
ایک زلزلے کو دیتے ہیں جب نیپال میں سنہ 1934 میں آنے بڑے زلزلہ نے نیپالی
دارالحکومت کھٹمنڈو کے ایک چوتھائی حصے مکمل تباہ کردیا تھا اور اس زلزلے
کے نتیجے میں 17 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے-
|
|
ماہرین کا کہنا ہے کہ سات سو سال پہلے بھی دو بہت بڑے زلزلے آئے تھے جبکہ
حالیہ زلزلہ بھی سینکڑوں سال قبل آنے والے زلزلوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
ماہرینِ ارضیات کے مطابق ہفتے کے روز آنے والا زلزلہ زمین میں پڑنے والی
دراڑوں کی وجہ سے آیا ہے کیونکہ ان دراڑوں کے باعث ہی ارضی دباؤ ایک سے
دوسری جگہ منتقل ہوا تھا۔
ماہرین نے چںد ہفتوں قبل ہی ایک تحقیق کے دوران سینکڑوں سال قبل آنے والے
ان بڑے زلزلوں کے باعث پیدا ہونے والے زمینی اثرات کو دریافت کیا تھا اور
یہ تحقیق خطے کے میدانی علاقوں میں کی گئی تھی-
حالیہ زلزلے کا نشانہ نیپال کا وہ مرکزی علاقہ بنا ہے جو دارالحکومت
کھٹمنڈو اور پوکھارا شہر کے درمیان واقع ہے اور اس کے دور رس نتائج پیدا
ہوئے ہیں۔
گزشتہ ماہ نیپال میں کی جانے والی اس تحقیق کے دوران ہی ماہرین نے ایک بڑے
زلزلے کی پیشنگوئی کردی تھی جبکہ ہفتے کے روز آنے والے زلزلے کے مرکز سے
بھی آگاہ کردیا گیا تھا-
ماہرین کی ٹیم کی جانب سے مرکزی جنوبی نیپال کے جنگلات کے ایک ایسے حصے کی
کھدائی کی تھی جو دراڑ زدہ تھا اور سطح زمین سے منسلک تھا۔ ماہرین نے یہاں
سے ملنے والے کوئلے کے ٹکڑوں سے معلوم کیا کہ آخری مرتبہ زمین کب رخنہ زدہ
ہوئی تھی۔
مون سون کی بارشیں زمین کو دھو دیتی ہیں اورگھنا جنگل بھی زمین کو چھپا
دیتا ہے جس سے زلزلے سے زمین میں پڑنے والی دراڑیں چھپ جاتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ماہرین کی ٹیم کو کوئلہ کے تجزیے سے پتہ چلا کہ اس علاقے
میں کافی عرصے سے زمین رخنہ زدہ نہیں ہوئی۔ بولنگر کی ٹیم نے دو ہفتے پہلے
نیپال کی ارضیاتی سوسائٹی میں ایک رپورٹ پیش کی اور کہا ’ہم نے بتایا کہ یہ
دراڑیں سنہ 1505 اور سنہ 1833 میں آنے والے زلزلے کی وجہ نہیں تھیں اور
آخری مرتبہ زمینی دراڑوں میں حرکت امکانی طور پر سنہ 1344 میں ہوئی تھی۔
|
|
جب بولنگر اور ان کی ٹیم نے ارضیاتی نمونوں کو دیکھا تو انھیں بہت تشویش
ہوئی۔ ’ہم دیکھ سکتے تھے کہ پوکھارا اور کھٹمنڈو میں خاص طور پر زلزلے کا
امکان ہے کیونکہ سنہ 1344 میں بھی انھیں دو شہروں میں امکانی طور پر زلزلہ
آیا تھا۔‘
جب کوئی بڑا زلزلہ آتا ہے تو عموماً ارضی دباؤ دراڑ زدہ زمین سے آگے منتقل
ہوجاتا ہے اور بظاہر سنہ 1255 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ بڑا زلزلہ آیا جس
سے ارضی دباؤ آگے منتقل ہوگیا۔ چنانچہ اگلے 89 برس تک یہ دباؤ سنہ 1255 کے
زلزلے کے مقام سے مغرب کی جانب اکٹھا ہوتا رہا اور سنہ 1344 میں ایک بڑا
زلزلہ آگیا۔
ایسا دکھائی دیتا ہےکہ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ سنہ 1834 کے زلزلے
سے پیدا ہونے والا ارضی دباؤ رخنہ زدہ زمین کےساتھ ساتھ مغرب کی طرف منتقل
ہونا شروع ہوگیا جو 81 سال بعد ہفتے کو ایک نئے بڑے زلزلے کی شکل میں ظاہر
ہوا۔
ماہرین کی ٹیم کو فکر ہے کہ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں اور آئندہ بھی زلزلوں
کا امکان ہے۔
بولنگر کا کہنا ہے ’ابتدائی اشاروں سے پتہ چلتا ہے زمین میں اب بھی دباؤ
باقی ہے اور آنے والی دہائیوں میں ہم ایک اور بڑے زلزلے کی توقع کر سکتے
ہیں جو ہفتے کے زلزلے کے مقام سے جنوب مغرب میں آئے گا۔‘ |