انسانی تاریخ اور معاشرے کی تشکیل میں ریاضی کا کردار۔
حیران کن مساواتیں
قوانین قدرت کو جان کر انسان نےاپنے معاشرے کوآرام دہ، خوشحال اور تیز تر
بنایا، ۔ان تحقیقاتی کاوشوں میں کچھ تحقیقات ایسی ہیں جنہیں وہ بنیادی
حیثیت حاصل ہے کہ جو موجودہ جدید ترقّی کی اساس ہے۔اشیاء اور واقعات میں
تبدیلی کا مطالعہ و تجزیہ اور ان تبدیلیوں پر حاکم قوانین قدرت کو
"ریاضیاتی زبان" میں پیش کرکے انسان نے وہ علم حاصل کیا کہ جس نے ہر حرکت
اور واقعے کو ایسی مساوات یا کلّیہ کی صورت میں پیش کیا گیا کہ جن کا
سمجھنا بہت آسان اور اطلاق آفاقی تھا۔ ریاضی کی ترقّی نے ، علم ھندسہ اور
کیلکولس کی مدد سے بڑے بڑے مسائل حل کیے۔
کسی بھی واقعے ، قدرتی مظہر یا تبدیلی کو الجبرا یا کیلکولس کی مساوات میں
بیان کر نا اور پھر اسے انسانی معاشرے کی تشکیل میں استعمال کرنا ایک مشکل
اور سست عمل تھا جو رفتہ رفتہ تاریخی طور پہ خود بخود وقوع پذیر ہوا۔یہ عمل
صدیوں پر محیط ہے۔ یعنی مختلف ادوار میں مختلف سائنسدانوں، ریاضی دانوں اور
فلسفیوں وغیرہ نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے۔ یہ نظریات انفرادی طور پہ تو
اپنا وجود رکھتے تھے لیکن یکجا نہیں تھے۔ ان سائنسی نظریات کو یکجا کرکے
منظم طور پہ انسانی معاشرے کی مادّی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کا سہرا
پہلے عرب مسلمانوں اور پھر پچھلی تین صدیوں سے یورپی ملکوں کے سر ہے، یورپ
نے انقلابی طور پہ سائنس کو ترقّی دے کر معاشرے کے خد و خال بدل دیے۔
اگر ہم بہت بنیادی بات کریں تو ریاضی کی تیز رفتار ترقی کا آغاز اعشاری
نظام سے ہوا۔ اس نظام سے حساب کتاب بہت آسان ہوگیا۔صرف دس اعداد، یعنی صفر
سے لے کر نو تک، کے اعداد کی مدد سے دھايئوں کی بنیاد پر ضرب اور تقسیم کا
عمل حیرت انگیز طور پر سہل، آسان اور تیز ہوگیا۔ رومن ھندسہ اعشاری نظام سے
پہلے رائج تھا۔اس نظام میں حساب کتاب کا عمل دشوار تھا ۔مثال کے طور پہ اگر
ہم رومن نظام ھندسہ میں ضرب کا عمل کرنا چاہیں تو یہ ایک مشکل امر ہوگا۔اگر
میں تین کو چھ سے ضرب دینا چاہوں تو اعشاری نظام میں مساوات یوں بنے گی:
3×6=18 ، جس میں 1 "دھائی" کا عدد ہے اور 8 "اکائ" کا ، یعنی 18=دس +آٹھ،
یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 18 میں موجود 1 کا عدد دراصل ایک نہیں ہے بلکہ
دس(دہائی) ہے جسے آٹھ میں جمع کرنے سے اٹھارہ کا عدد حاصل ہوتا ہے۔یہ ایک
نظام ہندسہ ہے جس کی بنیاد یا بیس " دس " پر ہے اب اگر میں اسی مسئلہ کو
رومن اعداد میں حل کروں تو کچھ یوں ہوگا:
III×VI=XVIII
یعنی رومن ھندسہ صرف ہندسہ ہے، نظام ھندسہ نہیں ہے۔ یہ صرف نشان یا"سمبل"
ہے، اس میں حساب کتاب کرنے کے لیے سارے "سمبل" یاد کرنے پڑیں گے جو بے شمار
ہیں۔ تقسیم کا عمل اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوگا۔ لہذہ اعشاری نظام نے سائنس
کی تیزتر ترقّی کا دروازہ کھولا۔ اعشاری نظام کب اور کہاں ایجاد ہوا
،تاریخی طور پہ اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔سائنس میں اس نظام کا اطلاق
مامون الرشید کے زمانے میں "مدینہ الحکمت" نامی گہوارہء علمی سے ہوا، کہا
جاتا ہے کہ اعشاری نظام کا تخیل ملک ہندوستان سے عربوں تک پہنچا۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی اور پیچیدہ مساواتوں کے حل اعشاری نظام
میں بھی مشکل تر ہوتے چلے گئے۔اس مسئلہ کا حل ایک عقل مند شخص جان نیپیر
(1610ء) نے لوگارتھم کی شکل میں پیش کیا۔اس عمل میں بہت بڑے اعداد کا آپس
میں "ضرب " دینے کا تکلیف دہ عمل "جمع" کے عمل سے بدل دیا جاتا ہے۔ لیکن اس
عمل میں جدول(ٹیبل) کا استعمال لازمی تھا۔ بعد میں ایک اور سہل ترین نظام
ہندسہ اختیار کیا گیا جسے آج کل کے جدید دور کا قلب کہا جا سکتا ہے، یعنی
"ثنائی" نظام (بائنری نظام) جس سے "عددی ٹکنالوجی" وجود میں آئی۔ جسے
ڈیجیٹل نظام کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں صرف دو اعداد استعمال ہوتے ہیں یعنی
0 اور 1 ۔ آج کے سارے نظام ہائے اطلاعات و نشریات، حسابات، کمپیوٹر، تصاویر
و شبیہات ، انٹرنٹ اور متحرّک نقول(سیمولیشن) اسی ثنائی نظام کے مرہون منّت
ہیں۔گویا یہ سارے شعبہ جات بنیادی طور پہ عدد اور صرف عدد کی ترکیبات ہیں۔
ثنائی نظام عدد نے معاشرے میں ایک واضح انقلاب برپا کیا۔
اب ہم ان سائنسی مساوات کا ایک مختصر جائزہ لیں گے جو جدید معاشرے کی تشکیل
کا باعث بنیں۔پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کے کن میدانوں میں ان مساواتوں
نے تبدیلی پیدا کی۔
تعمیرات ، فاصلوں کی پیمائش
مسئلہ فیثا غورث فہم علم ہندسہ کی اساس ہے، تعمیرات ، فاصلوں کی پیمائش
وغیرہ کی بنیاد یہی ہے۔
آسان حساب کتاب
لوگارتھم کی مساوات کا کارآمد ترین استعمال : یہ مساواتیں ضرب کے عمل کو
جمع کے عمل سے تبدیل کرکے حساب کو بہت آسان بنا دیتی ہیں۔
اشیاء میں تبدیلی کیسے آتی ہے؟
کیلکولس اشیاء میں تبدیلی کی فہم دیتا ہے، اشیاء میں تبدیلی کیسے آتی ہے؟
اور ریاضی داں اور سائنسداں کیسے تبدیلی کو سمجہتے ہیں۔۔۔۔؟ اس کا جواب اخذ
شدہ (ڈیری وےٹو) اور تکلمہ(انٹگرل)۔۔۔۔اورکیلکولس کی دوسری اساسیات کے قلب
میں واقع ہے۔
فلکیات
نیوٹن کا قانون سائنسی تاریخ کا ایک غیر معمولی حصہ ہے۔ یہ تقریبا" مکمل
طور پر وضا حت کرتا ہے کہ سیارے جس طرح حرکت کر رہے ہیں، وہ کیوں اس طرح کر
رہے ہیں۔ نیوٹن کا قانون کشش دو سو سال تک قائم رہا، یہاں تک کہ یہ آئین
اسٹائین کے نظریہء اضافیت نے اس کی جگہ لی۔تسخیر کائنات کی ابتداءاور علم
فلکیات کی بنیاد یہی مساوات ہے۔
نشریات میں پیچیدہ عدد سے سگنل کا تجزیہ
ریاضی داں ہمیشہ سے اعداد کے تصور کو، کہ اعداد دراصل کیا ہیں، وسعت دیتے
چلے آۓ ہیں۔ قدرتی اعداد(نیچرل نمبر)، منفی اعداد، کسر (فریکشن)سے لے کر
حقیقی اعداد(رئیل نمبر) تک ،وغیرہ۔
اس عمل کو منفی ایک کے جذر(اسکوائر روٹ)، جسے یونانی حرف" آئیوٹا" سے
پہچانا جاتا ہے، نے مکمل کیا۔ اور پیچیدہ اعداد (کمپلکس نمبر) کا دور شروع
ہوا۔ سگنل پروسسنگ میں پیچیدہ عددکا استعمال لازمی ہے۔
ایولر کا مشاہدہ ان ابتدائی مثالوں میں سے ایک ہے جنہیں اب "مقامیاتی غیر
متغیر"(ٹوپولوجکل ان ویرینٹ) کہا جاتا ہے۔۔۔وہ عدد یا خصوصیت جو ایک دوسرے
سے مشابہت رکھنے والی اشکال میں مشترک ہںا
شماریاتی ماڈل:
نارمل ڈسٹری بیوشن :یہ طبعیات، حیاتیات اور سماجی علوم میں متعدد خصوصیات
کے ماڈل بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ آزاد تعملات کے بڑے بڑے گروپوں کے
رویّے بیان کرتا ہے
تفرّقی مساوات
مساوات موج شروع کی ایک ابتدائی تفرّقی مساوات (ڈفرینشیل ایکویشن)تھی، اس
مساوات کو حل کرنے کی جو ترکیب وضع کی گئی اس نے دوسری تفرّقی مساواتوں کو
سمجھنے کے دروازے بھی کھول دیے۔
اعداد و شمار
فوریر بدلاؤ (یا فوریر ٹرانسفورم) جدید اشاراتی تعمل ( سگنل پروسسنگ)اور
تجزیہ کاری اور اعداد و شمار کے سکڑاؤ(کمپریسڈ ڈیٹا) کے عمل کی جان ہے
بہاؤ:
نیویر اسٹوکس مساوات "بہنے" کے رویے کی وضاحت کرتی ہے۔ جیسے پائپ میں پانی
کا بہاؤ۔اس کا اطلاق اور جگہوں کے علاوہ پانی یا کسی بھی مائع کی پائپ لائن
کی تعمیر میں بھی ہوتا ہے ، جن کا جال دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
برقیات
میکسویل کی چار مساواتوں کا سیٹ برقیات اور مقناطیسیت کے رویّوں اور ان کے
درمیان تعلق کو بیان کرتا ہے۔ بحرحال اب جدید طبیعیات برقی مقناطیسیت کی
کوانٹم میکانیاتی وضاحت پہ بھروسہ کرتی ہے۔ اور اب یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ
مساواتیں محض ایک تخمینہ ہیں جو انسانی پیمانے پر ٹھیک کام کرتا ہے ۔لیکن
برقیات جس پر انسانی معاشرے کے بیشتر نظاموں کا انحصار ہے، انہی مساواتوں
کی مرہون منت ہے۔
بدنظمی کی پیمایئش
تھرمو ڈايینمکس کا دوسرا قانون :ایک بند نظام میں ناکارگی(اینٹروپی) ہمیشہ
مستحکم رہتی ہے یا بڑھتی رہتی ہے۔ ناکارگی کسی نظام کی بدنظمی کی پیمایئش
ہے، کہ وہ نظام کتنا بدنظم ہے
ایٹمی قوّت
آئین اسٹائین نے اپنے نظریہء اضافیت سے طبیعیات کے دھارے کو یکسر تبدیل کر
دیا۔ اعلی' مقام رکھنے والی مساوات وضاحت کرتی ہے کہ مادّہ اور توانائی ایک
دوسرے کے متبادل ہیں۔ اور یہ کہ کشش ثقل دراصل مکاں اور وقت کا خم ہے۔ایٹمی
قوّت کے انقلاب کی ابتدا ءیہی مساوات ہے ۔
ایٹم اور زیریں ایٹم ذرّات
شروڈنگر کی مساوات ایٹم اور زیریں ایٹم ذرّات کے رویّوں کی تشریح کرتی
ہے۔جدید کوانٹمی میکانیات اور نظریہء اضافیت عمومی تاریخ کے کامیاب ترین
سائنسی نظریات ہیں۔جتنے بھی تجرباتی مشاہدات ہم نے اب تک کیے ہیں وہ ان
نظریات کی پیش گوئیوں کے عین مطابق ہیں۔
کرّہء ہوائی اور موسمیات
نظریہء افرا ط وتفریط ،یہ مساوات "مے" کا نقشہء نقل و حرکت ہے جو ماہر
حیاتیات رابرٹ مے کے مقالے(1976) سے مشہور ہوا۔یہ ایک عمل کو بیان کرتا ہے
جو ایک وقت کے دورانیے(ایکس) میں ارتقاء پذیر ہے۔مستقل عدد(کے) کی کچھ
مخصوص مقداروں کے لیے نقشہ افراتفری کا رویہ دکھاتاہے۔کرّہء ہوائی اور
موسمیات کے میدان میں اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
مصنوعات کی قیمت
بلیک ۔شولز مساوات مالیات کے پیشہ ور افراد کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ
وہ ان مالی مصنوعات کی قیمت ، ماخوذ حاصل(ڈیریویٹو) کی خصوصیات اور درپردہ
اثاثہ جات کی بنیاد پہ ، حساب کر کےنکال سکیں۔
اب ہم ان مساوات کا تھوڑا سا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:
1۔ مسئلہ فیثا غورث:
یہ مسئلہ اثباتی ہمارے فہم علم ہندسہ کی اساس ہے۔اسکی مساوات اس نسبت کی
وضاحت کرتی ہے جو ایک مستوی پر ایک قائمتہ الزاویہ مثلث کے اضلاع کے درمیان
پائی جاتی ہے۔ یعنی دو چھوٹے اضلاع کی لمبائیوں کے مربع کا مجموعہ لمبے ضلع
کی لمبائ کے مربع کے برابر ہو گا۔Type equation here.یہ نسبت ،ایک طرح سے ،
عام مسطح اقلیدسی جیومیٹری کو غیر اقلیدسی کروی جیومیٹری سے ممتاز کرتی
ہے۔مثال کے طور پہ اگر ایک قائمتہ الزاویہ مثلث کسی کرہ کی سطح پہ کھینچی
جاۓ تومسئلہ فیثا غورث اس پر لاگو ہی نہیں ہوگا!
a^2+b^2=c^2
2۔لوگارتھم:
لوگارتھم ،قوت نما فنکشن کا الٹ یا معکوس ہوتے ہیں۔کسی خاص اساس کا کوئی
لوگارتھم یہ بتاتا ہے کہ کسی عدد کو حاصل کرنے کے لیے کون سا عدد اساس پر
بطور قوت لگا نے کی ضرورت ہے۔مثال کے طور پہ اساس 10 لیجیے ، ایک کا
لوگارتھم ہوگا زیرو ، کیونکہ 10 کی قوت 0 برابر ایک کےہے۔ اسی طرح 10 کا
لوگارتھم ہوگا 1 کیونکہ 10 کی قوت 1 =10 ۔ اور اسی طرح 100 کا لوگارتھم
ہوگا 2 ،کیونکہ 10 کی قوت 2=100
لوگارتھم کی مساوات کا کارآمد ترین استعمال : یہ مساواتیں ضرب کے عمل کو
جمع کے عمل سے تبدیل کر دیتی ہیں۔
Log(ab)=log(a)+log(b)
بڑے اعداد کو سرعت کے ساتھ ضرب دینے کا یہ طریقہ کمپیوٹر کی ایجاد سے پہلے
بہت عام تھا۔اس کی مدد سے ریاضی، طبیعیات اور فلکیات میں حساب کے عمل میں
خاطر خواہ تیزی آگئی تھی۔
3۔کیلکو لس:
موجد :نیوٹن 1668ء
جو فارمولہ یہاں دیا گیا ہے وہ کیلکولس میں ڈیریویٹو کی تعریف ہے۔ ڈیریویٹو
کسی مقدار میں تبدیلی کی شرح کو ماپتا ہے۔ مثال کے طور پہ ہم ولاسٹی یا
اسپیڈ(رفتار) کو مقام کے ڈیریویٹو کے طور پہ تصور کر سکتے ہیں۔ یعنی مقام
کے تبدیل ہونے کی شرح۔ اگر آپ تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہے ہوں تو
آپ ہر گھنٹہ کے بعد اپنے مقام میں تین میل کی تبدیلی پیدا کر چکے ہونگے۔
فطری طور پہ زیادہ تر سائنس اس بات کی تفہیم میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے کہ،
اشیاء میں تبدیلی کیسے آتی ہے؟
اور ریاضی داں اور سائنسداں کیسے تبدیلی کو سمجہتے ہیں۔۔۔۔؟ اس کا جواب اخذ
شدہ (ڈیری وےٹو) اور تکلمہ(انٹگرل)۔۔۔۔اورکیلکولس کی دوسری اساسیات کے قلب
میں واقع ہے۔
df/dt=lim┬(h→∞) (f(t+h)-f(t))/h
4۔قانون کشش ثقل:
دریافت کنندہ: نیوٹن 1687ء
نیوٹن کا قانون کشش دو اشیاء کے درمیان قوت کشش (ایف)کو کائناتی مستقل
(جی)، دونوں اشیاء کی کمیتوں(ایم1 اور ایم2) اور ان اشیاء کے درمیان
فاصلے(آر) کے لحاظ سے بیان کرتا ہے۔ نیوٹن کا قانون سائنسی تاریخ کا ایک
غیر معمولی حصہ ہے۔ یہ تقریبا" مکمل طور پر وضا حت کرتا ہے کہ سیارے جس طرح
حرکت کر رہے ہیں، وہ کیوں اس طرح کر رہے ہیں۔اس قانون کی کائناتی فطرت بھی
غیر معمولی ہے۔۔ یعنی اس کا اطلاق نہ صرف زمین، نظام شمسی بلکہ کائنات میں
کہیں بھی ہو سکتا ہے۔۔ نیوٹن کا قانون کشش دو سو سال تک قائم رہا، یہاں تک
کہ یہ آئین اسٹائین کے نظریہء اضافیت نے اس کی جگہ لی۔
F=G m1m2/r²
5۔ منفی ایک کا جذر:
موجد: ایولر 1750ء
Square Root of Minus one
i=√(-1)
ریاضی داں ہمیشہ سے اعداد کے تصور کو، کہ اعداد دراصل کیا ہیں، وسعت دیتے
چلے آۓ ہیں۔ قدرتی اعداد(نیچرل نمبر)، منفی اعداد، کسر (فریکشن)سے لے کر
حقیقی اعداد(رئیل نمبر) تک ،وغیرہ۔
اس عمل کو منفی ایک کے جذر(اسکوائر روٹ)، جسے یونانی حرف آئیوٹا سے پہچانا
جاتا ہے، نے مکمل کیا۔ اور پیچیدہ اعداد (کمپلکس نمبر) کا دور شروع ہوا۔
ریاضی کے مطابق پیچیدہ اعداد (کمپلکس نمبر) اعلی' درجے کے نفیس اعداد ہیں۔
الجبرا سے جو کام ہم لینا چاہتے ہیں وہ مکمل انداز میں ہوتا ہے۔ایسی صورت
حال جس میں حقیقی اعداد میں کسی مساوات کا حل واقعے کے مطابق نہ ہو تو اس
کا حل پیچیدہ عدد (کمپلکس نمبر) میں ہوتا ہے۔ مثلا":
x2 + 4 = 0
کا حل حقیقی اعداد میں نہیں ہو سکتا لیکن اس مساوات کا حل ایک پیچیدہ عدد
ہے، یعنی 4- کا جذر(اسکوائر روٹ) یا
x=2i
کیلکولس کو پیچیدہ عدد تک وسعت دی جا سکتی ہے، اور ایسا کرنے سے ہمیں ان
اعداد کی کچھ حیران کن تشاکل(سمٹری) اور خصوصیات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ خصوصیات
پیچیدہ عدد (کمپلکس نمبر) کو برقیات (الیکٹرونکس) اور تعاملات اشارات(سگنل
پرو سسنگ) میں لازمی بنا دیتی ہیں۔
۔ایولر کا کلیہء کثیر السطح(پولی ہیڈرا فارمولہ)6
ایولر 1751ء
Euler’s Formula for Polyhedra
V-E+F=2
کثیر السطح ، کثیر الاضلاع کی سہ سمتی شکل ہے۔ جیسا کہ مربع اور مکعب۔ کثیر
السطح کے کونے ورٹکس کہلاتے ہیں کونوں کو ملانے والے خطوط اسکے کنارے یا
اضلاع ہوتے ہیں۔ ان خطوط سے تشکیل پانے والا کثیر الاضلاع، کثیرالسطح کا
ایک رخ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مکعب میں 8 ورٹکس، 12 اضلاع اور 6 رخ ہوتے
ہیں۔ اگر ورٹکس اور رخوں کی تعداد کو جمع کیا جاۓ اوراس میں سے اضلاع کی
تعداد کو نفی کر دیا جاۓ تو یہ حل حاصل ہوگا:
8+6-12=2
یولر کا کلیہ بیان کرتا ہے کہ ایک با سلیقہ کثیر السطح میں ورٹکس اور رخوں
کی تعداد کے مجموعہ میں سے اگر اضلاع کی تعداد کو منہا کیا جاۓ تو ہمیشہ 2
حاصل ہوگا ، چاہے کثیرالسطح کے کتنے ہی رخ ہوں۔
یولر کا مشاہدہ ان ابتدائی مثالوں میں سے ایک ہے جنہیں اب "مقامیاتی غیر
متغیر"(ٹوپولوجکل ان ویرینٹ) کہا جاتا ہے۔۔۔وہ عدد یا خصوصیت جو ایک دوسرے
سے مشابہت رکھنے والی اشکال مشترک رکھتی ہیں۔ کثیرالسطح اشکال کی تمام
اقسام میں یہی کلیہ لاگو ہے۔اس مشاہدے اور اسکے ساتھ یولر کے "مسئلہ ء
کونکس برگ پل" کے حل نے، ریاضی کی اس شاخ کے لیے راہ ہموار کی جسے مقامیات
یا ٹوپولوجی کہتے ہیں جو جدید طبعیات کے لیے ایک لازمی شاخ ہے۔
7۔ عمومی درجہ بندی(نارمل ڈسٹریبیوشن)
سی۔ایف گاز 1810ء
Normal Distribution
∅(x)=1/√2πρ e^((x-ρ)²/2ρ²)
شماریات میں گھنٹی کی شکل کا عمومی امکانیاتی پھیلاو کے خط منحنی کا گراف
(نارمل ڈسٹریبیوشن گراف)ہر جگہ موجود ہے۔ یہ طبعیات، حیاتیات اور سماجی
علوم میں متعدد خصوصیات کے ماڈل بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔اس کے کثرت سے
نظر آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ آزاد تعملات کے بڑے بڑے گروپوں کے رویّے
بیان کرتا ہے۔
8۔ مساوات موج(ویو ایکویشن)
جے ۔ڈی ایلمبرٹ 1746ء
Wave Equation
∂²u/∂t²=c²∂²u/∂x²
یہ ایک تفرّقی مساوات(ڈفرینشیل ایکویشن) ہے۔یعنی ایک ایسی مساوات جو یہ
وضاحت کرتی ہے کہ کس طرح کوئی خاصیت اپنے ماخوذ حاصل(ڈیریویٹو) کے معنوں
میں وقت گزرنےکے ساتھ تغیر پذیر ہے۔(ڈفرنشیل ایکویشن یا تفرّقی مساوات)۔
مساوات موج ، موجوں یا لہروں کے رویّوں کی وضاحت کرتی ہے۔ جیسے ستار کے
مرتعش تار کی لہریں، کسی تالاب میں کنکر پھیکنے سے پیدا ہونے والی موجیں،
یا بلب سے آنے والی روشنی۔مساوات موج شروع کی ایک ابتدائی تفرّقی مساوات
تھی، اس مساوات کو حل کرنے کی جو ترکیب وضع کی گئی اس نے دوسری تفرّقی
مساواتوں کو سمجھنے کے دروازے بھی کھول دیے۔
9 ۔فوریر بد لاؤ (فوریر ٹرانسفورمیشن)
جے۔فوریر 1822 ء
Fourier Transform
f(ω)=∫_∞^∞▒〖f(x) e^(-2πixω) □(24&dx)〗
فوریر بدلاؤ ، مزید پیچیدہ موجوں کی ساخت کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے۔جیسا
کہ انسانی گفتگو کی آواز۔اگر ایک پیچیدہ اور بے ترتیب موجی شکل دی جایے
جیسے کسی شخص کی باتوں کی رکارڈنگ، تو "فوریر بدلاؤ" کے ذریعے اس پیچیدہ
موجی شکل کو متعدّد سادہ موجوں کے ایک امتزاج کی شکل میں تبدیل کیا جا سکتا
ہے ، جو تجزیے کو بہت سادہ بنا دیتا ہے ۔ فوریر بدلاؤ جدید اشاراتی تعمل
اور تجزیہ کاری اور اعداد و شمار کے سکڑاؤ کے عمل کی جان ہے۔
10-نیویر اسٹوکس مساوات:
سی۔نیویر ،اور جی۔ سٹوکس 1845ء
Navier–Stokes Equation
ρ(∂v/∂t+v•∇v)=-∇p+∇•T+f
مساوات موج کی طرح یہ ایک تفرقی مساوات ہے۔ نیویر اسٹوکس مساوات "بہنے" کے
رویے کی وضاحت کرتی ہے۔ جیسے پائپ میں پانی کا بہاؤ، ہوائی جہاز کے پروں پر
ہوا کا بہاؤ یا سگرٹ سے اٹھنے والا دھواں۔ اسکے باوجود کہ ہمارے پاس ان
مساوات کے تخمینی حل موجود ہیں جو کمپیوٹر پہ کافی اچھی نقل(سیمولیشن) بنا
سکتے ہیں ، لیکن ابھی تک یہ سوال باقی ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ان مساوات
کا بالکل درست ریاضیاتی حل نکالا جا سکے؟
11۔میکسویل کی مساواتیں:
جے۔سی میکسویل 1865ء
Maxwell’s Equations
∇•E=ρ/ϵₒ
∇•H=0
∇×E=-1/c ∂H/∂t
∇×H=1/c ∂E/∂t
یہ چار مساواتوں کا سیٹ برقیات اور مقناطیسیت کے رویّوں اور ان کے درمیان
تعلق کو بیان کرتا ہے۔میکسویل کی مساواتیں کلاسیکل برقی مقناطیسیت میں وہی
مقام رکھتی ہیں جو کلاسیکل میکانیات میں نیوٹن کے قوانین حرکت اور آفاقی
قانون کشش رکھتے ہیں۔ روز بروز کے پیمانے پر برقی مقناطیسیت کے تعملات کی
وضاحت کے لیے یہی بنیادی مساواتیں ہیں۔ مگر بحرحال اب جدید طبیعیات برقی
مقناطیسیت کی کوانٹم میکانیاتی وضاحت پہ بھروسہ کرتی ہے۔ اور اب یہ صاف
ظاہر ہے کہ یہ مساواتیں محض ایک تخمینہ ہیں جو انسانی پیمانے پر ٹھیک کام
کرتا ہے ۔
12۔حرارتی حرکیات(تھرموڈائینمکس) کا دوسرا قانون:
بولٹزمین 1874ء
Second law of Thermodynamics
dS≥0
یہ قانون کہتا ہے کہ ایک بند نظام میں ناکارگی(اینٹروپی) ہمیشہ مستحکم رہتی
ہے یا بڑھتی رہتی ہے۔ ناکارگی کسی نظام کی بدنظمی کی پیمایئش ہے، کہ وہ
نظام کتنا بدنظم ہے۔ایک نظام جس کی ابتداء ایک منظّم، غیر متوازن حالت سے
ہوتی ہے مثال کے طور پہ ایک گرم خطّے کے برابر میں ایک سرد خطّہ ہمیشہ اپنے
درجہء حرارت کو ہموار رکھنے کی کوشش کرے گا، یعنی گرم خطّے سے حرارت کا
بہاؤ سرد خطّے کی جانب ہوگا یہاں تک کہ حرارت دونوں جانب یکساں ہو
جاۓ۔حرارتی حرکیات کا دوسرا قانون طبیعیات کے چند مقدمات میں سے ایک ہے
جہاں وقت اس طرح کی اہمیت رکھتاہے۔ بہت سے طبعی تعملات قابل مراجعت ہوتے
ہیں، ہم مساوات کو الٹی سمت میں بھی چلا سکتے ہیں، بغیر کسی مشکل کے۔لیکن
یہ دوسرا قانون صرف ایک ہی سمت میں چلتا ہے۔اگر ہم برف کا ٹکڑا گرم کافی
میں ڈالیں تو برف ہی پگھلے گا، کافی کبھی نہیں جمے گی!
13۔نظریہء اضافیت:
آئن سٹائن 1905ء
Relativity
E=mc²
آئین اسٹائین نے اپنے نظریہء اضافیت سے طبیعیات کے دھارے کو یکسر تبدیل کر
دیا۔ اعلی' مقام رکھنے والی مساوات وضاحت کرتی ہے کہ مادّہ اور توانائی ایک
دوسرے کے متبادل ہیں۔ یعنی توانائی مساوی ہے مادّے کی مقدار اور روشنی کی
رفتار کے مربّع کے حاصل ضرب کے۔خصوصی اضافیت نے تخیّل پیش کیا کہ روشنی کی
رفتار ایک کائیناتی حدّ رفتار ہے اور وقت کا دورانیہ مختلف رفتار سے سفر
کرنے والوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔اور یہ کہ کشش ثقل دراصل مکاں اور وقت کا
خم ہے۔یہ نیوٹن کے قانون کے بعد ہماری کشش ثقل کی تفہیم میں ایک بڑی تبدیلی
تھی۔ کائنات کے حتمی مقدّر ، اسکی بناوٹ، اور نقطہء آغاز کی تفہیم کے لیے
نظریہء اضافیت کی ضرورت ہے۔
14۔شروڈنگر مساوات:
ای۔شروڈنگر 1927ء
Schrodinger’s Equation
ih ∂/∂t φ=Hφ
یہ مساوات کوانٹمی میکانیات میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ نظریہء
اضافیت ہماری کائنات کی ایک بہت بڑے پیمانے پہ تشریح کرتا ہے، اسی طرح یہ
مساوات ایٹم اور زیریں ایٹم ذرّات کے رویّوں کی تشریح کرتی ہے۔جدید کوانٹمی
میکانیات اور نظریہء اضافیت عمومی، تاریخ کے کامیاب ترین سائنسی نظریات
ہیں۔جتنے بھی تجرباتی مشاہدات ہم نے اب تک کیے ہیں وہ ان نظریات کی پیش
گوئیوں کے عین مطابق ہیں۔ کوانٹمی میکانیات جدید ترین ٹیکنالوجی کے لیے بھی
ضروری ہے۔ایٹمی توانائی ، نیم موصل کی بنیاد پر بناےء جانے والے کمپیوٹر،
اور لیزر "کوانٹم مظاہر" کے ارد گرد ہی تیّار کیے جاتے ہیں۔
15۔نظریہء اطلاعات:
سی۔شینن 1949ء
Information Entropy
H=-∑▒〖p(x)log p(x) 〗
شینن کی مساوات ناکارگیء اطلاع( انفورمیشن اینٹروپی) ویسی ہی ناکارگی ہے
جیسی کہ برقی حرکیات میں ہوتی ہے۔یعنی بے ترتیبی کی پیمائش۔ لیکن یہاں یہ
پیمائش ہے کہ کسی " پیغام" میں موجود " اطلاع" کا عنصر کتنا ہے۔ یہ پیغام
کوئی بھی ایسی چیز ہو سکتی ہے جسے اشارات میں پیش کیا جاسکتا ہو، جیسے کوئی
کتاب، یا انٹرنیٹ پہ کوئی جے پی ای جی تصویر یا کچھ اور۔۔ کسی پیغام کے لیے
شینن کی ناکارگی اس کم سے کم حد کو ظاہر کرتی ہے جہاں تک کسی پیغام کو
،بغیر اس کی اطلاع کا عنصر ضائع کیے، سکیڑا جا سکتا ہے۔ شینن کی ناکارگی کی
پیمائش نے اطلاعات و معلومات کی ریاضیاتی تحقیق کا آغاز کیا۔ اور جس کے
نتیجے میں ہم اس طرح آج نیٹ ورک پہ رابطے کر رہے ہیں۔
16۔نظریہء افرا ط وتفریط
رابرٹ مے 1975ء
Chaos Theory
x_(t+1=kx_t (1-x_t ) )
یہ مساوات "مے" کا نقشہء نقل و حرکت ہے جو ماہر حیاتیات رابرٹ مے کے
مقالے(1976) سے مشہور ہوا۔یہ ایک عمل کو بیان کرتا ہے جو ایک وقت کے
دورانیے(ایکس) میں ارتقاء پذیر ہے۔کسی اگلے وقت کے دورانیے میں کسی مقدارکی
سطح اس فارمولے سے ایک "مستقل " عدد (کے)کی خاص قیمت رکھ کرمعلوم کی جا
سکتی ہے جو موجودہ مقدار کی سطح پہ منحصر ہوتی ہے۔مستقل عدد(کے) کی کچھ
مخصوص مقداروں کے لیے نقشہ افراتفری کا رویہ دکھاتاہے۔اگر ہم "ایکس" کی کسی
خاص ابتدائی قیمت سے شروع کریں تو عمل ایک طریقے سے ارتقاء پذیر ہوگا، لیکن
اگر ہم کسی اور ابتدائی قیمت سے شروع کریں، اور چاہے وہ قیمت پہلی قیمت کے
بہت بہت قریب ہی کیوں نہ ہو، تب بھی عمل ایک بالکل مختلف طریقے سے ارتقاء
کرے گا۔
ہم اس طرح کی بد نظمی کے وہ رویّے جو ابتدائی شرائط کی وجہ سے حسّاس ہوتے
ہیں، کئی جگہوں پہ دیکھتے ہیں۔ اس کی ایک اعلی' مثال موسم ہےکرّہء ہوائی کی
حالت میں کسی دن ایک چھوٹی سی تبدیلی چند دنوں کے بعد ایک بالکل مختلف
موسمی نظام کا موجب بن جاتی ہے۔ جیسا کہ یہ عمومی خیال کہ " ایک برّ اعظم
میں کسی تتلی کا پر پھڑپھڑانا کسی دوسرے برّ اعظم میں طوفان کا باعث بن
سکتا ہے"۔
17۔بلیک ۔شولز مساوات
ایف۔بلیک، ایم۔شولز 1990ء
1/2 σ^2 S^(2 ∂V/(∂S^2 ))+rS ∂V/∂S+∂V/∂t-rV=0
ایک اور تفرّقی مساوات، بلیک شولز بیان کرتا ہے کس طرح ماہرین مالیات اور
تاجر "ماخوذ حاصل(ڈیریویٹو) " کی قیمت معلوم کرتے ہیں۔ ماخوذ
حاصل(ڈیریویٹو)، یعنی مالی مصنوعات جو درپردہ اثاثہ جات کی بنیاد پر ہوتی
ہیں، جدید مالی نظام کا ایک بہت بڑا حصّہ ہیں۔
بلیک ۔شولز مساوات مالیات کے پیشہ ور افراد کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ
وہ ان مالی مصنوعات کی قیمت ، ماخوذ حاصل(ڈیریویٹو) کی خصوصیات اور درپردہ
اثاثہ جات کی بنیاد پہ ، حساب کر کےنکال سکیں۔ |