ندامت کے آنسو

 موبائل زندگی سے زیادہ انمول اور قیمتی ہرگز نہیں ہے لیکن ہماری نوجوان نسل زندگی کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہے ۔ اس کے باوجود کہ موبائل نہ صرف رابطے کا موثر ترین ذریعہ ہے بلکہ آج کے دور میں ہر انسان کی ضرورت بن چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عورت ہو یا مرد ٗلڑکی ہو یا لڑکا ہر ایک کے ہاتھ میں ہر وقت موبائل ہی دکھائی دیتا ہے۔لیکن موبائل کا حد سے زیادہ استعمال انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے ۔میں ایک دن اخبار میں موبائل کے حوالے سے ایک تحقیق کو پڑھ رہا تھا کہ جب آسمانی بجلی چمک رہی ہو تو موبائل کو کھلے آسمان نیچے استعمال نہیں کرنا چاہیئے ٗ اسی طرح رات کو سوتے وقت تکیے کے نیچے موبائل رکھنے والوں کو دماغی امراض کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جبکہ بائیں جیب میں رکھنے والوں کے دل وائبریٹ کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں ۔ تحقیق میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ موبائل کو بائیں کان سے سننا چاہیے دائیں کان کا استعمال ممکن حد تک کم ہی رکھنا چاہیئے ۔ پھر زیادہ لمبی کال انسانی ذہن اور قوت سماعت کو متاثر کرسکتی ہے ۔یہ تحقیق اپنی جگہ لیکن ہماری نوجوان نسل تو موبائل کے جنون میں مبتلا ہوکر تمام حدیں پھلانگ رہی ہے جس کو دیکھو دونوں کانوں میں ائیرفون لگائے پھرتاہے اور موبائل پتلون یا شرٹ کی جیب میں رکھا ہوتا ہے ۔ میں صبح پارک میں واک کے دوران دوڑتے ہوئے نوجوانوں کو اکثر دیکھتا ہوں وہ بھاگتے ہوئے بھی موبائل کی جدائی برداشت نہیں کرتے۔ آڈیو یا ریڈیو کی آواز سن رہے ہوتے ہیں ۔ اﷲ تعالی نے انسان کو اتنا انمول بنایا ہے کہ ہر اعضا ایک دوسرے سے ملاہوا ہے لیکن ایک حد تک بوجھ برداشت کرتا ہے جب بوجھ انسانی اعضا سے زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ماہر کان ناک گلا کے مطابق کا ن نہیں سنتے دماغ سنتا ہے ۔حد سے زیادہ کال سننے یا مسلسل میوزک سننے کی وجہ سے نہ صرف قوت سماعت متاثر ہوتی ہے بلکہ دماغ بھی کمزور ہوجاتا ہے پھر انسان ساری زندگی ڈاکٹروں اور ادویات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔

میں انہی سوچوں میں ڈوبا ہوا جب گھر سے نکلا تومجھ سے آگے ایک مضبوط جسم کا دراز قد نوجوان موٹرسائیکل چلا تا ہواجارہا تھا اس کے پیچھے کوئی نوجوان لڑکی بیٹھی تھی۔ہوسکتا ہے وہ اپنی بہن کو کالج چھوڑنے جارہا ہو۔ میں پیچھے بائیک چلاتا ہوا مسلسل اس کی حرکات کو بغور دیکھ رہا تھا نوجوان کے کے کانوں میں سننے والی نابیں لگی ہوئی تھیں کبھ جبکہ موبائل بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا جس سے وہ بائیک کا کلیچ بھی دبا رہا تھا ۔ وہ چلتی ہوئی موٹرسائیکل پر ہی ایک ہاتھ سے ایس ایم ایس لکھنے لگتا پھر کچھ دیر سکون سے موٹر سائیکل چلتا لیکن جونہی کسی ہر دلعزیز شخص کا ایس ایم ایس موصول ہوتا تو ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر اس کے ہاتھ کی انگلیوں حرکت میں آتیں اور ایس ایم ایس کمپوز ہونے لگتا ۔میں اس کی ان حرکتوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ نہ جانے کس عظیم ہستی کا ایس ایم ایس اسے موصول ہوتا ہے جسے وہ پیچھے بیٹھی ہوئی بہن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسی وقت جواب دینا ضروری سمجھتا ہے۔

کیولری گراؤنڈلاہور کینٹ سے ان کا تعاقب کرتے ہوئے جناح فلائی اوور سے گزرتا ہوا میں فردوس مارکیٹ گلبرگ پہنچا ۔ اس کے باوجود فردوس مارکیٹ میں ٹریفک کا بہت رش تھاہر شخص جائز اور ناجائز راستہ اختیار کرکے وہاں سے نکلنے کی جستجو میں مصروف تھا ۔گاڑیوں موٹرسائیکلوں اور ٹریفک کا یہ ہجوم اشارہ کھلنے کا منتظر تھا ۔چونکہ مجھے بھی دفتر پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے میں بھی چور راستے کی تلاش میں توتھا لیکن جو نہ مل سکا۔ جونہی اشارہ کھلا تو یوں محسوس ہوا کہ پاگل خانے کا دروازہ کھل گیا ہے ۔ ہر شخص پاگلوں کی طرح مار دھاڑ کرتا ہوا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو میں تھا۔ وہ نوجوان بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑ ھ رہا تھا حسن اتفاق سے میرا راستہ بھی وہی تھا اور میں اس سے کچھ کم رفتار سے موٹرسائیکل چلا رہا تھا۔سنٹرل پوائنٹ پر بھی الجھی ہوئی ٹریفک نے پریشان کیا لیکن وہ نوجوان اپنے پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی کی پرواہ کیے بغیر موبائل پر چیٹنگ میں اس قدر مصروف تھا کہ اسے ارد گرد سے گزرنے والی خوفناک ٹریفک کا بھی ڈر نہ تھا ۔ وہ بلا جھجک موبائل پر چیٹنگ کرتا ہوا گارڈن ٹاؤن بخیریت پہنچ گیا ۔ایک دو جگہ ٹکرانے کے خطرات پیدا ہوئے لیکن قدرت نے اسے محفوظ رکھا ۔

پھر جب وہ گارڈن ٹاؤن چوک سے گزر کر نہر کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تو ایک بار پھر کسی کا ایس ایم ایس موصول ہوا ۔ اس وقت وہ بہت تیز بائیک چلا رہا تھا اس نے جونہی چلتی ہوئی بائیک پر ایس ایم ایس ٹائپ کرنا چاہتا تو بائیک بے قابو ہوگئی ۔ وہ اتنی تیزی سے سلپ کرتا ہو ا دور جا گرا اور اس کے پیچھے ہوئی لڑکی بھی سڑک پر دور تک گھسٹتی چلی گئی ۔ بچاؤ بچاؤ کی آوازوں نے ماحول کو گھیر لیا ۔ سب اس نوجوان اور اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی کو بچانے کے لیے اس سمت بھاگ رہے تھے۔اس کے باوجود کہ مجھے دفتر پہنچنے کی بہت جلدی تھی اور میں گھر سے ہی کچھ تاخیر سے نکلاتھا لیکن میں بھی چندلمحات کے لیے وہاں رک گیا اورموبائل چیٹنگ کے شوقین اس نوجوان کی حالت دیکھنے لگا ۔ وہ بے بسی کی تصویر بنا سڑک پر کراہ رہا تھا لوگ اسے پکڑ کر اٹھا رہے تھے لیکن اس میں اٹھنے کی ہمت نہ تھی شاید اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ وہ چیخیں مار کے اور آنسو بہا کر اپنے درد کا احساس کروا رہا تھا- قریب ہی ایک بزرگ نے اسے نصیحت آمیز لہجے میں کہا بیٹاکیا موبائل تمہاری زندگی سے زیادہ قیمتی ہے ۔ اگر موبائل تمہارے تھا تو اسے اپنی جیب میں رکھتے کیا ہر وقت کانوں میں ٹوٹیاں لگا کر میوزک سننے کی بجائے دماغ کو سکون نہیں دیا جاسکتا تھا ۔ تم اپنی کس ماں یا بہن کے ساتھ چلتی ہوئی بائیک چیٹنگ کررہے تھے ۔ ابھی بزرگ کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ مجھے بھی اس نوجوان پر غصہ آگیا۔ میں اس نوجوان کو آٹھ دس کلومیٹر سے دیکھتا چلا آرہاہوں اس کو نہ ٹریفک کے ہجوم کا خیال تھا کہ وہ کسی سے ٹکرا جائے گا اور نہ ہی اسے اپنے پیچھے بیٹھی ہوئی بہن کااحساس تھا کہ گرنے کی صورت میں اس کا کیا بنے گا ۔ چند خواتین نے آگے بڑھ کر اس لڑکی کو سنبھالا لیکن لڑکے اور لڑکی دونوں کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں جس کی وجہ سے وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے سے قاصر تھے ۔ 1122 پر کال کرکے ایمولینس کوبلایا گیا جو چند منٹوں میں ہی وہاں پہنچ گئی ۔جوانہیں لے کر جناح ہسپتال پہنچی ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا اور اس نوجوان کو اپنی بہن سمیت کتنا عرصہ بستر پر لیٹ کر گزارنا پڑے گا میں اس سے بے خبر تھا ۔

ابھی میں اس نوجوان کے بارے میں سوچتا ہوا بائیک پر ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب بڑھ رہا تھا کہ فیصل ٹاؤن کا انڈر پاس سامنے نظر آنے لگا ۔جس پر ڈائریکشن بورڈ واضح دکھائی دے رہے تھے ۔فیصل ٹاؤن اور جناح ہسپتال اس طرف ۔ اس وقت میری بائیک کی رفتار بھی 60 سے کم کیا ہوگی جبکہ کاروں والے 80 کلومیٹر سے زائد رفتار سے وہاں سے گزر رہے تھے ۔ مجھے اچانک ایک نوجوان کانوں میں ائیر فون کی نابیں لگا کر ہاتھ میں موبائل لیے میوزک سنتا ہوا سڑک عبور کررہا تھا وہ میوزک میں اس قدر محو تھا کہ تیز رفتار گاڑیوں کو دیکھنے کے باوجود اسے ان سے بچنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ چنانچہ وہی ہوا جو ایسے مواقعوں پر ہوتا ہے ایک گاڑی نے اس نوجوان کو اٹھا کر نہر کی جانب فٹ پاتھ پر اتنی شدت سے پھینکا کہ وہ شدید زخمی ہوگیا ۔سب لوگ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں روک کر اس نوجوان کی جانب دوڑے جو بے سدھ ہوکر فٹ پاتھ پر پڑا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ عورتوں اور مردوں کے ہجوم نے اسے گھیر رکھا تھا ۔کوئی پانی پانی کی آواز لگا رہا تھا تو کوئی ایمبولنس کو بلانے کے لیے 1122 پر کال کرنے کو کہہ رہا تھا ۔ کوئی اس نوجوا ن کے پاؤں پر مساج کررہا تھا تو کوئی موت کی غشی میں بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو کھولنے کی جستجو میں تھا ۔

نہر کے اردگرد سبزا اور پھولوں کی کیاریاں تو موجود ہیں لیکن وہاں پینے کا پانی کہاں دستیاب ہوتا اور نہ ہی وہاں ٹیلی فون کا کو ئی بوتھ موجود تھاجس پر ایمرجنسی کال کی جاسکتی ہو ۔ ہر شخص اپنی جیبوں سے موبائل نکال کر 1122 کو کال کرنے کی کوشش میں مصروف تھا لیکن اکثر کے موبائل میں بیلنس نہ ہونے کی بنا پر کال نہیں ہو پارہی تھی ۔ چند گاڑیوں والے بھی وہاں ٹھہر گئے جنہوں نے اپنے موبائل پر 1122کو کال کر کے حادثے کی اطلاع دی اور فوری طور پر پہنچنے کی درخواست کی۔ اس لمحے جبکہ ہر شخص اس نوجوان کو دیکھ کر سخت پریشان تھا میری پریشانی بھی کسی سے کم نہ تھی ۔ایک ہی دن میں دو حادثے دیکھنے سے انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے یہ وہی جانتا ہے جس پر یہ گزرتی ہے ۔

نہ جانے وہ نوجوان کس شہر یا کس قصبے سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں آیا ہوگا۔ نہ جانے کن خیالات میں گم وہ نوجوان ہوسٹل سے نکل کر یونیورسٹی کی جانب جارہا ہوگا ۔ نہ جانے اس کے والدین نے کتنا زیور بیچ کے اسے پڑھنے کے لیے لاہور بھیجا ہوگا۔ نہ جانے کتنے خواب اس کے والدین کی آنکھوں میں اس وقت سجے ہوں گے جب وہ اپنا بیگ اٹھا کے لاہور کی جانب رخصت ہوا ہوگا ۔اس کی بہنوں کی آنکھوں میں اس وقت کتنے آنسو بہے ہوں گے ۔ اس کے دوست اس کے جانے سے کس قدر اداس ہوئے ہوں گے ۔ جب اس نوجوان کے گھروالوں کو موت کی خبر پہنچے گی تو ان پر کیا گزرے گی وہ کن آنکھوں سے اپنے لخت جگر کی نعش دیکھیں گے وہ حوصلہ کہاں سے لائیں گے ان پر اس وقت کیا گزرے گی جب جوان بیٹے کی میت کو وہ اپنے ہی ہاتھوں سے قبر میں اتاریں گے ۔ ۔نہ جانے اس سے محبت کرنے والوں نے اس کی آمد کے دن کس قدر بے تابی سے گنے ہوں گے ۔ لیکن وہ نوجوان جو زندہ سلامت پڑھ لکھ کے بہت بڑا افسر بننے کی خواہش لے کر گھر سے نکلا ہوگا جس کو موبائل پر چلنے والے میوزک کی محبت نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اس کے خواب کس قدر بے رحمی سے بکھر گئے ہوں گے ۔یہ سوالا ت اس لمحے میرے ذہن کی سکرین پر باری باری نمودار ہورہے تھے ۔

دس پندرہ منٹ میں ہی 1122 کی ایمبولینس موقع پر پہنچ گئی لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی وہ نوجوان ہم سب کی آنکھوں میں آنسو بھر کے اس دنیا میں جا بساتھا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔

اس کے باوجود کہ موبائل رابطے کا موثر ذریعہ ہے لیکن جب ہم ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جب ہم رات رات بھر اپنے چاہنے والوں سے بات کرتے گزار دیتے ہیں جب ہم اپنی زندگی کا کوئی لمحہ موبائل پر سنے جانے والے میوزک سے خالی نہیں رہنے دیتے تو لامحالہ اس کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے ۔پتہ نہیں کیوں ہماری نوجوان نسل پاگلوں کی طرح ایک ہی اندھے راستے پر اندھیری گلی میں دوڑتی ہی چلی جارہی ہے ۔ میں نے کتنے ہی نوجوانوں کوتیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے موبائل فون سنتے ہوئے بھی دیکھا ہے وہ بائیں کان کے ساتھ موبائل لگائے ایک بازو کا سہارا دیئے بائیک چلا رہے ہوتے ہیں اور کال کرنے والے سے باتیں بھی کررہے ہوتے ہیں انہیں اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ مخالف سمت سے آنے والی کوئی گاڑی ان سے ٹکرا سکتی ہے ۔ دوران سفر موبائل سننے کا جنون صرف بائیک چلانے والوں کوہی نہیں ہے بلکہ کاروں میں سفر کرنے والے خواتین و حضرات بھی اس مرض میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ایسے لاپرواہ اور اپنی جان کے دشمن ہمیں ٹریفک کے ہجوم میں پھنسنے کے باوجود جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں ۔

جب اس نوجوان کی نعش اٹھا کر ایمبولینس میں رکھی جارہی تھی اس کی جیب سے شناختی کارڈ یا کسی رشتے دار کا موبائل نمبر ڈھونڈا جارہا تھا تو اس لمحے میں ایک جانب کھڑا نہ صرف آنسو بہا رہا تھا بلکہ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ کہیں یہ میرا ہی بیٹا تو نہیں ہے ۔کیونکہ میں بھی ایک باپ ہوں اور اپنے دونوں بیٹوں سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ ان کی چند منٹ کی جدائی بھی برداشت کرنا مجھے محال دکھائی دیتا ہے ۔ ایک شام ساڑھے نو بجے میرا ایک بیٹا بغیر بتائے بازار چلا گیا اس کے باوجود کہ میں بہت تھکا ہوا بستر پر لیٹا تھاجسم سے درد ٹھیسیں بن کے نکل رہاتھا لیکن گھر میں اس کی عد م موجودگی کے احساس نے مجھے پریشان کررکھا تھا میں موبائل پر مسلسل اسے کال کررہا تھا جبکہ وہ کال اٹنڈنٹ نہیں کررہا تھا نہ جانے دل میں کتنے وسوسوں نے جنم لیا۔ نہ جانے کس قدر خوف نے مجھے اس لمحے گھیرے رکھا۔ آنکھوں سے نیند اڑ گئی دل کا سکون غارت ہوگیا حالانکہ یہ وہ بیٹا تھا جسے میں اکثر ضرورت سے زیادہ ڈانٹتا رہتا ہوں اس کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کی جستجومیں مصروف رہتاہوں لیکن دل کو اس وقت قرار آیا ٗ آنکھوں میں اس وقت نیند اتری جب وہ گھر واپس لوٹ آیا ۔ اس وقت جہاں میں رب کا شکر ادا کررہا تھا وہاں میں سوچ رہا تھا کہ وہ والدین کتنے عظیم ہیں جن کے بیٹے ان سے دور بہت دور محاذ جنگ پر دشمن سے برسرپیکار ہیں وہ کیسے میٹھی نیند سوتے ہوں گے ان کے دلوں کو قرار کیسے آتا ہوگا ۔ان سوچوں سے مجھے اس وقت نجات ملی جب اس نوجوان کی نعش کو اٹھا کر ایمبولینس میں رکھا جارہا تھا۔

یہ تصور آتے ہی آنکھوں کے ساتھ میرا دل بھی رونے لگا ...... پھر کچھ ڈھارس بندھی کہ تمہارا بیٹا تو یہ نہیں ہے لیکن کسی نہ کسی کا بیٹا تو وہ ہوگا نا ۔ اس کے والدین پر اس لمحے کیا گزرے گی جب ان کے سامنے جوان بیٹے کی نعش پہنچے گی ۔جب ان کے سار ے خواب چکنا چور ہوجائیں گے ۔ کاش ہم اپنی زندگی کی قدر کرنا بھی سیکھ لیں ۔کاش ہم اپنے محبت بھرے رشتوں کا احساس کرنا بھی جانیں ۔ بظاہر توہمارا وجود الگ تھلک دکھائی دیتا ہے لیکن ہم ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں جیسے جسم کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا خود بخود اس کی شدت محسوس کرتا ہے ۔ موبائل کااستعمال ضرور کرنا چاہیے لیکن ایک حد تک ۔ حد سے باہر نکلی ہوئی کوئی چیز بھی انسان کے اخلاق کردار اور جان و مال کو تباہ کردیتی ہے ۔کاش ہم یہ بات سمجھ سکیں کہ یہ زندگی بہت انمول ہے اﷲ تعالی نے جو ہمیں کسی قیمت کے بغیر عطا کی ہے لیکن ہم اپنے خالق اور مالک کی فرماں برداری کرنے کی بجائے دنیا دار ی میں کچھ اس طرح مصروف ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ بھی یادنہیں رہا کہ ہمیں ایک نہ ایک دن اپنے رب کے سامنے بھی حاضر ہونا ہے ۔ موت مسلسل ہمارے تعاقب میں ہے ۔زندگی ہر آنے والے لمحے کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔

دنیا میں آنے کی ترتیب تو ہے کہ پہلے دادا نے دنیا میں آنا ہے پھر والد نے اور پھر پوتے نے ۔ لیکن دنیا سے جانے کی ترتیب نہیں ہے کہ پہلے دادا نے رخصت ہونا ہے کہ پوتے نے ۔ کاش ہم قدرت کا یہ دیا ہوا سبق یادکرلیں کاش ہم اپنی زندگی کو انمول تصور کرکے اس کی قدر کرلیں ۔کاش ہم اپنی تمام تر محبتوں کو اپنے مقدس رشتوں پر نچھاورکرنا سیکھ لیں ۔کاش ہم اپنے والدین کی آنکھوں میں جدائی کے وقت آنے والے آنسو کی قدر کرنا جان لیں ۔بدقسمتی سے انسا ن بہت جلد باز واقع ہوا ہے وہ دنیا کی رنگینوں میں اس قدر کھوگیاہے کہ اسے اب واپس جانے کی بات بھی یاد ہی نہیں رہی ۔ لیکن یہ بات اس وقت یاد آتی ہے جب موت کافرشتہ سامنے کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے تم نے دنیا میں اپنی مرضی سے زندگی تو گزار لی ہے اب اپنے خالق سے ملاقات کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ اس اہم ترین ملاقات کے لیے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانک لو لیکن جب ہم گریبان میں جھانکتے ہیں تو ندامت کے آنسووں کے علاوہ ہمارے پاس کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 800872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.