فرقہ واریت اور انتشار واختلاف

ہلاکوخان ایل خانی حکومت کابانی اور منگول حکمران چنگیزخان کا پوتا تھا ۔اس نے ہمیشہ اسلام دشمن حکمت عملی اپنائی۔منگوخان کے زمانے میں شمال مغربی ایران میں ایک اسماعیلی گروہ ــ ’’حشاشین‘‘ نے بڑا ہنگامہ اور خونریزی شروع کردی،یہ علاقہ منگولوں کی زیر حکومت تھا،اس لئے وہاں کے باشندوں نے منگوخان سے اس ظلم وستم کے خلاف فریاد کی، منگوخان اس شکایت پراپنے بھائی ہلاکوخان کو1256ء ایران کاحاکم بنا کر روانہ کیااور اس کو اسماعیلیوں کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا۔ ہلاکوخان نے اسی سال اسماعیلیوں کے مرکز قلعہ الموت پر قبضہ کرکے اسماعیلی حکومت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا اور ان کے آخری بادشاہ خورشاہ کو قتل کر دیا۔

اسماعیلیوں کا زور توڑنے کے بعد ہلاکوخان نے بغداد کا رُخ کیا جو اس زمانے میں شیعہ سُنی فساد کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ہلاکوخان نے بغداد پر حملہ کیا، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اُسی رات بھی فرقہ پرست مسلمان مناظروں میں مصروف تھے، ایک دوسرے کو کافر قرار دینا مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے تھے۔صبح جب منگول بغداد میں داخل ہوئے تو انہوں نے شیعہ دیکھا نہ سُنی، اہل حدیث دیکھا نہ ہی حنفی، انہیں سب مسلمان نظر آئے اور بلا تفریق ہر ایک کو بے دریغ قتل کیا۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب!
چھین لیں مجھ سے حافظہ میرا

اس کے علاوہ مسلمانوں کو فرقہ واریت، اختلاف اور انتشار کی وجہ ہر جگہ اور ہر دور میں بہت نقصان اٹھانے کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی ہم مسلمانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔مجھے ان سب کا علم نہیں تھا اسلئے میں نے بڑی کوشش کی کہ قران پڑھ کر خود کوسنی ثابت کروں مگر ناکام رہا، میں نے تمام قرانی سورتیں پڑھیں مگر مجھے نہ کوئی شیعہ ملا، نہ بریلوی، نہ دیوبندی اور نہ ہی اہلحدیث۔میں نے کوشش کی کہ اسوۂ محمدﷺ کو پڑھ کر اپنے آپکو کسی فرقے سے جوڑوں مگر یہاں بھی مجھے ناکامی ہوئی، ہر جگہ ماسوائے ایک مسلمان(مسلم)کے اپنی کوئی دوسری پہچان نہ ملی، اگر فرقے کا کہی ذکر آیا بھی تو رد کرنے کے انداز میں، ایک گناہ، ایک تنبیہ کی حیثیت سے، ان سب واضح احکامات کے باوجود آج ہم مسلمان کے علاوہ شائد سب کچھ ہیں، ہم فرقوں میں اس قدر بُرے طرح بٹ گئے کہ ہماری اصل شناخت ہی ختم ہوگئی۔
غلامان امریکہ اور دیگر غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کے درمیا ن اختلاف اور انتشار کو ہوا دے رہے ہیں، جن کا مقصد سامراجی عزائم کی تکمیل ہے۔اسلام کے دشمن اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر مسلمان ایک ہوگئے تو کسی بھی دشمن کو آسانی سے شکست دے سکتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد واتفاق مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

اسلام نے لوگوں کو اتحاد اور ایک دوسرے سے جُدا نہ ہونے کی دعوت دی ہے۔قرآن کریم نے واضح رہنمائی کے ذریعے تمام انسانوں کو توحید کے ا ملاک پر جمع ہونے کی سفارش کی ہے اور تفرقہ کو راہ مستقیم سے دور ہونے کا سبب قرار دیا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے
ترجمہ ’’ اور اﷲ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو‘‘

کیا مسلمان اس ارشاد پر عمل پیرا ہے ؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔دنیا میں 58مسلم ممالک ہیں، ان کی خدا ایک، کلمہ ایک ،رسول ایک اورقرآن بھی ایک لیکن فرقہ واریت، اختلاف وانتشاراور تعصب کی وجہ سے ہرملک دوسرے ملک کے وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔جبکہ سب جانتے ہیں کہ
ایک ہی مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکرتابخاک کاشغر

ہم مسلمانوں کو آج ہی ایک ہونا ہوگا،اپنے اعمالوں کا رونا رونا ہوگا،اپنی غلطیوں کا اعتراف اور انہیں صحیح کرنا ہوگا ورنہ۔۔۔۔ہم یونہی کٹتے مرینگے، رسوا ہوتے رہینگے، ذلیل اور خوار ہوتے رہینگے۔اگر ہم آج بھی خواب خرگوش سے بیدار نہ ہوئے تو جسطرح ہسپانیہ سپین بنایا گیاتھا ٹھیک اُسی طرح مستقبل قریب میں کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ بنے گا، فلسطین اسرائیل کے قبضے میں آئے گا، افغانستان عیسائیستان بنے گا اور پتہ نہیں کہ ہمارا پیارا ملک پاکستان کونسا ستان بنے گا؟؟؟؟؟