پاکستان زندہ باد

دنوں کی بات نہیں مہینے گزر گئے میرا بیٹا باہر سے آرہا تھا۔ گھر کے افراد اسے ائیرپورٹ سے لے کر آرہے تھے، مین رائے ونڈ روڈ پر پندرہ (۱۵) بیس (۲۰) ڈاکوؤں نے تھانہ نواب ٹاؤن سے بمشکل تین سو (۳۰۰)گز کے فاصلے پر میرے بیوی اور بچوں سے ہر چیز چھین لی۔ جی ہاں! مین رائے ونڈ روڈ پر۔ وہ سڑک جو دنیا بھر میں میاں برادران کی رہائش کے حوالے سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ اتفاق سے اگلے دن ہی دو ڈاکو تھانہ جوہر ٹاؤن کی حدود میں پولیس کے قابو آگئے۔ جن سے لوٹے ہوئے مال کے دو سو ڈالر، کچھ دوسری کرنسی اور میرے بیٹے کا پرس جس میں اس کا شناختی کارڈ اور دیگر ضروری کاغذات تھے برآمد ہوئے۔ شناختی کارڈ سے پتہ حاصل کر کے پولیس نے مجھ سے رابطہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ وہ دونوں تو انتہائی پروفیشنل اور مشتاق ڈاکو ہیں۔ میرا مقدمہ تھانہ چوہنگ میں درج تھا مگر جوہر ٹاؤن پولیس ان ڈاکوؤں سے بیس (۲۰) دن کھیلتی رہی۔ڈاکو کہتے تھے کہ بہت سا لوٹا ہوا مال ان کے سرغنہ ریاض کے پاس موجود ہے اور اس نے اسے بیچ کر سب کو اُن کا حصہ دینا ہے۔ جوہر ٹاؤن پولیس بیس (۲۰) دن ریاض اور اس کے ساتھیوں کو تلاش کرتی رہی اور ۲۰ دن بعد میرے مقدمہ نمبر ۱۵؍۲۲۸ کے حوالے سے گرفتار شدگان کو تھانہ چوہنگ کے سپرد کر دیا گیا۔ اس ساری حوالگی کے دوران دو میں سے ایک ڈاکو غائب ہو گیا۔ برآمد ہونے والی رقم کم ہو کر فقط سو ڈالر رہ گئی جو میرے بچوں کو موصول ہو گئے۔ ڈاکے کے دوران چھینے گئے چار موبائل میں سے تین کے IMIE نمبر پولیس کو دیے گئے ہیں اور یہ وہ فون ہیں کہ جن کی چوری مہذب ملکوں میں ممکن ہی نہیں۔ فون کئی دن چلتے بھی رہے۔ مگر پولیس اب تک کوئی بھی دوسری چیز برآمد کرنے یا ملزموں کو پکڑنے میں پوری طرح ناکام ہے۔

واردات کے اگلے روز محترم وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ایک پیغام مجھے موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ آپ مجھے بتائیں کہ تھانے میں آپ کے ساتھ سلوک کیسا ہوا اور کسی نے آپ سے زیادہ پیسے لیے یا مانگے تو نہیں؟ جناب میاں صاحب! کیا عرض کروں۔ میں نے تھانے کی حدود کے اندر اور باہر ہر جگہ چھان ماری مگر مجھے آپ کی طرف سے جاری کردہ ریٹ لسٹ ہی نہیں ملی جس سے اندازہ ہوتا کہ لوٹے ہوئے مال کو برآمد کرنے کا ریٹ کیا ہے۔ شاید پولیس والوں نے جان بوجھ کر چھپا لیا ہوگا کہ جب سارا مال ہی ہضم کرنا ہے تو پھر ریٹ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ آئندہ جب آپ یہ پیغام بھیجا کریں تو ساتھ ہی ریٹ لسٹ بھی منسلک کر دیا کریں۔ بہتوں کا بھلا ہوگا۔ ویسے مجھے بھی فوری طور پر وہ ریٹ لسٹ بھیج دیں۔ میں بھی اس سے مستفید ہونے کی کوشش تو ضرور کروں گا۔ دوبارہ عرض کر رہا ہوں ریٹ لسٹ جلدی بھیج دیں کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔

میں نے بہت سے اپنے ہم عمر ریٹائرڈ پولیس افسروں سے اس سلسلے میں بات کی تو کہنے لگے کہ دو ملزموں کے پکڑے جانے کے باوجود بقیہ کیوں نہیں پکڑے گئے؟میں نے پوچھا اس کا جواب تو آپ کو دینا ہے۔ میری بات سن کر ہنس دیتے ہیں کہ پولیس کی کوئی مجبوری ہوگی۔ مگر کیا مجبوری ہوگی؟ ا س کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں۔ چند سینئر وکلاء سے بات ہوئی تو کھلم کھلا اظہار کرنے لگے کہ تھانہ تین سو گز دور ہو تو چاہے تھانے کی حدود نہ بھی ہو۔ تھانے والوں کا اس طرح لاتعلق رہنا بتاتا ہے کہ وہ زیادہ تر ڈاکو پولیس کے اپنے بندے ہوں گے کہ پیٹی بھائیوں کی مدد اپنا فرض سمجھ کر آنکھیں بند کر لی جاتی ہے یا پھر کوئی سیاسی پشت پناہی ہوگی کہ ان سیاسی ورکر ڈاکوؤں کی گرفتاری پولیس کے بس میں نہیں۔ لگتا ہے کوئی نائن زیرو لاہور میں بھی وجود میں آچکا ہے۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا کہ لاہور تیزی سے کراچی کے حالات کی طرف گامزن ہے، تو کچھ دوستوں نے جو حکمرانوں کے ہمدرد اور جانثار ہیں بہت زیادہ برا منایا تھا اور کہا تھا کہ میں غلط باتیں لکھتا ہوں۔ اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ دو ملزموں کو پکڑے جانے کے باوجود بقیہ کیوں نہیں پکڑے گئے؟ کیا پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی؟ بہت مجبور ہے۔

بہرحال جو بھی ہے اور جیسے بھی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس ملک میں نظم و نسق اور قانون کی حکمرانی موجودہ حکمرانوں کی ترجیح نہیں، انہیں فقط اور فقط اپنے مفادات عزیز ہیں اور وہی عزیز رہیں گے۔ فوٹو سیشن ان کی کمزوری ہے۔اگرکوئی ایسا اہتمام ہو تو بھاگے چلے آتے ہیں۔ ڈکیتی جیسے چھوٹے موٹے واقعات تو روز کا معمول ہیں۔ وہ ان پر اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ لوگ لٹتے ہیں تو لٹتے رہیں اور سچ تو یہ ہے کہ لوگوں میں مقدر میں لٹنا ہی ہے۔ کچھ لوگ اس قدر مہذب انداز میں لوٹتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے لٹنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور کچھ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہو کربے دردی سے لوٹتے ہیں۔جس کی وقتی طور پر ہمارے جیسے لوگوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ واردات کا انداز مختلف سہی مگر حقیقت میں دونوں کا معاش ایک ہی ہے۔ اس لیے ان دونوں کا ایک دوسرے کا مدد گار ہونا، ہمدم اور غمگسار ہونا بہت فطری ہے۔ جو مہذب ڈاکو ہیں ان کا سب کچھ پاکستان سے باہر ہے۔ مفادات حاصل کرنے کے بعد انہیں اس ملک سے کیا لینادینا۔ عام آدمی کا کیا ہے اسے تو ہر حال میں لٹنا ہے اس کا سب کچھ ماضی، حال، مستقبل، رہن سہن ، اوڑھنا بچھونا اسی جگہ سے وابستہ ہے۔ عام آدمی کی مجبوری ہے کہ وہ لٹ کر بھی تمام تر بدتر حالات کے باوجود بھی پاکستان زندہ باد ہی کہے گا اور کہتا رہے گا کیونکہ پاکستان ہی اس کی زندگی ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500661 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More