آج یکم مئی ہے جسے ’’یوم مزدوراں‘‘ کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ 1886 میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے محنت کشوں نے احتجاج کیا اور اس
کی پاداش میں انہیں ہزاروں جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہی قربانیوں کی یاد
میں ہر سال یکم مئی کو ــ’’یوم مزدوراں‘‘ منایا جاتا ہے۔پاکستان میں یکم
مئی کو عام تعطیل کی جاتی ہے۔ اس دن سیمینار بھی کروائے جاتے ہیں اور
مزدوروں سے یکجہتی کے لئے مختلف واک کا انعقاد بھی کروایا جاتا ہے۔ جن میں
ہمارے سیاسی راہنما، بیوروکریٹس سمیت مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے
والے افراد شریک ہوتے ہیں۔ مزدوروں کے حق میں نعرے لگائے جاتے ہیں، تقاریر
کی جاتی ہیں، لیکچر جھاڑے جاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مزدور کے اوقات کس
قدر تلخ ہیں، اس بارے میں انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ہمارے یہاں مزدورکے
معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جارہے۔
ہماری حکومتیں صرف اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے یا قائم رکھنے کے لئے محض
اشتہارات چلوانے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں جبکہ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر
ہیں۔ آج بھی مزدور کو کھانے کے لئے دو قت کا کھانا میسر ہے اور نہ پہننے کے
لئے کپڑے ۔جبکہ سر ڈھانپنے کے لئے چھت بھی میسر نہیں۔
جو لوگ دوسروں کے آرام کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر دیتے ہیں ، وہ خود
کواور اپنے بچوں کو راحت پہنچانے کے لئے ترستے ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتے
ہیں۔ جبکہ یہ صاحب ثروت لوگ اپنی عیاشیوں میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ انہیں
اور کسی کے بارے میں جاننے کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا۔اگر میں مزدور کی حالت
کو واجد محمود واجدـؔ کے الفاظ میں بیان کروں تو انہوں نے کچھ اس طرح عکاسی
کی ہے۔
اج دی روشن تہذیب اندر
کی مقام غریب مزدور دا اے
اس دی محنت دے دام بے دام کتنے
مداوا کی اس دے بدن چُور دا اے
اس دے گھر دا دیوا بے تیل سکیا
جہڑا مؤجب قندیل پُرنور دا اے
واجدؔ محنت ،مشقت اوقات اس دی
بیٹھا قسمت لکیر نوں گھُور دا اے۔۔۔
یوم مزدوراں کو جہاں ایک طرف مزدور کی محنت کا لفظی طور پر اعتراف کیا جاتا
ہے اور ان کے حقوق کی بات(چاہے صرف تقریروں کی حد تک ہو) کی جاتی ہے، وہیں
اس دن ، دن بھر کی محنت مشقت کر کے دو وقت کی روٹی کمانے والے کی کیا حالت
ہوتی ہے، معروف شاعر عابیؔ مکھنوی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
کسی رنگ ساز کی ماں نے کہا، بیٹا اٹھو نا، ناشتہ کر لو
کہ قسمت میں لکھے دانوں کو چگنے کے لئے بیٹا
پرندے گھونسلوں سے اـڑ چکے ہیں، تم بھی اٹھ جاؤ
خمارِ نیند میں ڈوبا ہوا بیٹا تڑپ اٹھا
ارے ماں! آج چھٹی ہے، ذرا سی دیر سونے دے
میری آنکھوں کے تارے کون سی چھٹی، بتا مجھ کو
ارے ماں! آج دنیا بھر میں مزدوروں کا چرچا ہے
میں پچھلے سال بھی گھنٹوں برش لے کرتو بیٹھا تھا
کوئی بھی آج کے دن ہم کو مزدوری نہیں دیتا
میں پیدل چل کے چورنگی پہ جا بیٹھوں گا لیکن ماں
تیرے تو علم میں ہو گاکہ پیدل چلنے پھرنے سے
تیرے اس لال کو اے ماں ! غضب کی بھوک لگتی ہے
تو بہتر ہے مجھے تُو ناشتہ کچھ دیر سے دے دے
صبح دن رات کے ہم تین کھانے روز کے کھاتے ہیں
جو آٹا دن کی روٹی کا بچے گا، رات کھا لیں گے
یہ مزدوروں کا دن ہے، اس پہ مزدوری نہیں ملتی
ذرا سی دیر سونے دے ، مجھے بھی دن منانے دے۔۔۔۔
اگر ہم ہر شعبہ زندگی میں دین سے راہنمائی طلب کریں تو ہماری دنیا و آخرت
سنور سکتی ہے۔مزدوروں کے حقوق سے متعلق ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ
’’تمہارے مزدور یا ملازم تمہارے بھائی ہیں۔ پس اﷲ نے تم میں سے جس کے ماتحت
اس کے کسی بھائی کو کیا ہے تو وہ اس کو ویسا ہی کھلائے جیسا وہ خود کھاتا
ہے اور اسی سے اس کو پہنائے جس سے خود لباس پہنتا ہے اور اس کو وہ کام کرنے
کا نہ کہے جسے کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا اور اگر ایسا کام کرنے کا کہہ دے
تو خود بھی اس کا ہاتھ بٹائے۔‘‘
ابن ماجہ کی ایک حدیث پاک کامفہوم ہے کہ
’’مزدور کو اس کی اجرت ، اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔‘‘
مزدور ہم سے چاہتا ہی کیا ہے۔ صرف اپنی محنت کا مناسب اور بروقت معاوضہ،
مزدوری کے اوقات کار کا تعین اور استطاعت کے مطابق کام اور برابری کا سلوک
۔دیگر بہت سے قوانین کی طرح پاکستان میں لیبر لاز بھی موجود ہیں جن میں
مزدور کے حقوق کا خیال پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کا
المیہ یہ ہے کہ یہاں قوانین تو بنا دئیے جاتے ہیں مگر ان پر صحیح معانوں
میں عملدرآمد کا خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔سرکاری اداروں میں
نجی سیکٹر کی نسبت بہتر ماحول مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن نجی شعبہ جات سے منسلک
ورکرز کو بھی ان کے حقوق بہم پہنچانا بھی تو حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔کہتے
ہیں کہ حق کے لئے دی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ آج پاکستان میں
بھی مزدور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہا ہے۔انشا اﷲ وہ وقت دور نہیں جب
مزدور، مجبور نہیں رہے گا۔۔۔۔ |