میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں، لیکن؟؟؟
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
اس وقت شعبان المعظم کے بابرکت
مہینے کے شب و روز ہم بسر کر رہے ہیں۔عنقریب رمضان المبارک کا مہینہ شروع
ہوگا اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مبارک کی پرکیف ساعتوں میں اپنے
دامن طلب میں اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو جی بھرکے سمیٹیں گے۔ بہت سارے وہ
مسلمان ہیں جو ماحول کے برے اثرات یا صحبت بد کے نتیجے میں گناہوں کی لت
میں مبتلا ہو گئے۔ ان کا ضمیر بھی کبھی کبھی ان کو ملامت کرتاہے جو شاید کہ
اس ماں کے دودھ کا اثر ہو جو ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کی لوریوں کے سائے میں اس
نے پلایاتھا۔کچھ وہ ہیں جو گناہ کے ماحول سے اکتا کر ا بھی کسی محفوظ رستے
کی تلاش میں ہیں کہ اس گناہ کی زندگی سے چھٹکارہ پالیں۔ شعبان المعظم کے
اِن ایام اور استقبال رمضان کے ماحول میں اس موضوع پر راقم الحروف کے جنبش
قلم کا سبب بھی اسی نیت سے ہے کہ شاید مجھ سمیت کسی زندہ ضمیر اور رجوع الی
اﷲ کی طلب و جستجو رکھنے والے کو پاکیزہ زندگی کی طرف واپس لوٹنے کی توفیق
مل جائے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان پیدائشی اور جبلی طور پر
کمزور واقع ہوا ہے۔ خوش فہمی، کج فہمی یا کبھی غلط فہمی کا شکار ہو کر بسا
اوقات گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ بتقاضائے بشریت ارتکاب ِ گناہ کے
بعد ہو گا کیا؟ اس حوالے سے مختلف مذاہب کی اپنی اپنی تھیوری ہے۔کچھ ’’تناسخ‘‘
کے قائل ہیں تو کوئی ’’آواگون‘‘ کے۔ ھندو ازم میں تناسخ کا مفہوم یہ ہے کہ
مرنے کے بعد گنا گاروں کی روحیں برے جانوروں کی شکل میں اور نیکوں کی روحیں
اچھے جانوروں کی شکل میں دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ عیسائیت کے آواگون کے نظریے
کے مطابق انسان پیدائشی طور پر ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے پیدا ہوتا۔
لیکن اس حوالے سے اسلام کانظریہ انتہائی معقول اور فطری ہے جو مذکورہ دونوں
نظریات سے قطعی مختلف ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پہلے توبحیثیت
مسلمان پوری کوشش کرکے گناہ سے اجتناب کیا جائے۔معاشرے کی تشکیل اس نہج پر
ہو کہ ہرفرد تقویٰ اور اور پرہیزگاری کا رستہ اپنا کے نیک کام انجام دے۔
عام انسانوں میں سے بڑے سے کوئی بڑے سے بڑا متقی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا
کہ اس سے کہی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ عصمت خاصہ انبیاء ہے ۔ علاوہ ازیں اگر اﷲ
تعالیٰ کسی کو گناہوں سے محفوظ رکھ لے تو اس کی مہربانی۔ لیکن اگر بحیثیت
انسان گناہ سرزد ہو جائے تو نا امید اور مایوس نہ ہو بلکہ جلد از جلد اپنے
رب کی طرف پلٹ کر استغفار اور توبہ کرے۔ یہ تہیہ کرے کہ آئندہ اس گناہ کی
طرف لوٹ کرنہیں جانا۔ سورہ آل عمران کی آیت نم 135میں اہل ایمان کے اوصاف ِحمیدہ
میں سے ایک یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ ’’ اور وہ لوگ جب گناہوں کا ارتکاب
یا جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو (احساس ندامت کے ساتھ) وہ اﷲ کا ذکر کرتے
ہیں اور اپنے گناہ کی معافی مانگتے ہیں۔اور اﷲ کے سوا گناہ کو معاف کرنے
والا ہے بھی کون؟ اور جانتے بوجھتے وہ اپنے کیے پر اصرا ر نہیں کرتے‘‘ جبکہ
غیر مومن ایسا نہیں کرتا اور نہ ہی اسے گناہ پر شرمساری ہوتی ہے۔ حضرت عبد
اﷲ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایاکہ ’’انالمومن یری ذنوبہ کانہ
قاعد تحت جبل یخاف ان یقع علیہ۔وان الفاجر یری ذنوبہ کذباب مر علی
انفہ۔فقال بہ ہکذا۔ای بیدہ۔فذبہ (مسند امام احمد حدیث نمبر 362 ) ’’ مومن
گناہ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہ ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہے اور ڈرتا
ہے کہ وہ پہاڑ اس پر گر نہ پڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے
جیسے ایک مکھی ہے جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی ہے۔ پھر (آپﷺ نے) ہاتھ کے اشارے
سے بتایا کہ اس طرح کرکے مکھی کو اڑا دیتا ہے‘‘
گناہ سے روحانی اور اخلاقی وبال تو آتاہی ہے لیکن حضرت امام غزالیؒ اور
دیگرعلماء محققین نے گناہ کے نتیجے میں کئی ایک دنیوی زندگی کے نقصانات کا
بھی ذکر کیا ہے جن میں سے کچھ قابل ذکر ہیں مثلا علم (معرفت الہی) سے
محرومی، دل میں وحشت، نیکی کے کاموں کا گراں بار ہونا، معاملات اور رزق سے
برکت کا اٹھ جانا، سینے میں گھٹن اور دل میں بے اطمینانی، نیکی کی توفیق
میں کمی یا سلب کی کیفیت، گناہوں کا عادی بن جانا، دنیا کے لوگوں کی نظروں
میں گر جانا، دعاکی عدم قبولیت یا کبھی دل پر مہر لگ جانا۔ شرم و حیا اور
غیرت کا جنازہ نکل جانا، لوگوں کا رعب دل میں بیٹھ جانا وغیرہ ۔ زندگی کا
کوئی بھروسہ نہیں ۔ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے۔ توبہ کیلئے
کوئی لمبا چوڑا نظام الاوقات تشکیل دینے کی بجائے اسی لمحے کو غنیمت سمجھتے
ہوئے ابھی توبہ کا ارادہ کرلینا ہی دانشمندی ہے ورنہ بقول کسے
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے
سخت انتقام اس کا
قرآن پاک میں بار بار ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد ہے ’’ اے مومنوں تم سب مل کراﷲ تعالیٰ سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح
پاسکو ‘‘ (سورہ نور آیت نمبر 31 )اسی طرح سورۃ التحریم کی آیت نمبر 8 میں
’’ توبۃ نصوحہ‘‘ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا فرمایا ’’ اے ایمان والو! اﷲ
تعالیٰ سے توبہ کرو۔ خالص توبہ‘‘ اﷲ کی کر م نوازی کا اندازہ لگائیں کہ
ارتکابِ گناہ کے بعد اس کے لکھے جانے سے پہلے بھی انسان کو توبہ کی فرصت دی
جاتی ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا ان صاحب الشمال لیرفع القلم ست ساعات عن
العبدالمسلم المخطئی۔ فان ندم واستغفراﷲ منہا القاھا و الا کتبت واحدۃ (المعجم
الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 3667)
’’ بائیں طرف والا فرشتہ چھ گھڑیاں خطا کرنے والے مسلمان سے قلم اٹھائے
رکھتا ہے۔ پھر اگر وہ نادم ہو اور اﷲ سے معافی مانگ لے تو کچھ نہیں لکھتا
ورنہ ایک برائی لکھی جاتی ہے‘‘ پھر گناہ کے لکھے جانے سے لیکر موت تک ایک
اور موقع دیاجاتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا من تاب الی اﷲ قبل ان یغرغر قبل اﷲ
منہ و من تاب قبل ان تطلع الشمس من مغربہا تاب اﷲ علیہ (مسند امام احمد)
’’جونزع کے وقت سے پہلے پہلے توبہ کرلے اﷲ تعالی اس کی توبہ قبول فرمالیتے
ہیں اور جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرلی اﷲ تعالی
اس کی توبہ بھی قبول فرمالیتے ہیں‘‘
ویسے تو توبہ کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں کسی بھی لمحے اﷲ کی بارگاہ میں دل
میں احساس ندامت لئے ہوئے اشکبار آنکھوں کے ساتھ معافی مانگے تو رحمت الہی
دوڑ کے استقبال کرتی ہے۔ لیکن کچھ بابرکت شب و روز نیکیوں کا موسم بہار
ہوتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ بھی ہے جو زندگی
میں ایک مرتبہ پھر اﷲ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما رہے ہیں۔جب کوئی مومن بندہ
گناہوں سے توبہ کرکے پاکیزہ زندگی گزارنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطانی وساوس
اور نفس امارہ اس کو طرح طرح کی دنیوی لالچ اوراَن دیکھے خوف میں مبتلا کر
دیتے ہیں کہ تو توبہ تو کر لیگا لیکن۔یہ۔یہ۔۔یہ۔یہ۔ہو جائے گا جو کہ ابلیسی
دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ابھی زندگی کے لمحات میں فرصت ہے۔سانس آجا رہی
ہے۔ توبہ کیلئے حالات سازگار ہیں۔توبہ اور رحمت الہی کے دروازے کھلے ہیں۔
ہم بدل لیں اپنے آپکو اور پلٹ جائیں اپنے پروردگار کی طرف۔ کیونکہ وقت پر
کافی ہے قطرہ آب خوش ہنگام کا جل گیا جب کھیت مینہ برسا تو پھر کس کام کا (جاری
ہے) |
|