کٹی پتنگ ...آخری قسط

سیماب کو یوں لگا جیسے گھپ اندھیاری میں بہت سارے پاگل کتوں نے اسے گھیر لیا ہو اور اسکی بوٹی بوٹی نوچنے کے لیئے جیسے بے چین ہو رہے ہوں. پھر جیسے وہ ایک اونچے بانس پر جا کھڑی ہوئ.سب کی نظریں تعجب سے اسے دیکھ رہیں تھیں.انوکھا کرتب دکھانے والی تماشہ. اسکے اندر عجیب سا سناٹا پھیل رہا تھا.اس کو اپنا بدن ایک ایسی خالی زمین کی طرح لگا جس پر لاکھوں کی تعداد میں چیونٹیاں رینگ رہیں ہوں.وہ پھر سے سجدے میں گر گئ.یہی وہ لمحہ ہوتا تھا جب وہ قدرے سکون محسوس کرتی.
ایکشن ری پلے. پھر جیسے اسکی نظروں کے سامنے سب دوبارہ سے چلنے لگا.لیکن اس دفعہ اسکے وجود میں زہر نہیں گھلا.آگہی کے نئے دروازے کھلنے لگے.وہ ایک لمحہ جیسے ایک چمکتی گرجتی پوری سچائ کے ساتھ نازل ہوا.اب ٹوٹے آئینہ میں بھی اسکا چہرہ پر سکون دکھائ دے رہا تھا.سچائ چھپا نا گناہ ہے اور پھر کب تک میں اپنے وجود کو جھوٹ کے انگاروں پر گھسیٹوں گی. اگر تقدیر میرے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے تو میں بھی ایک کھلاڑی کی طرح اسکا بھرپور سامنا کروں گی.وہ دھیرے سے اٹھی اور تپائ سے کاغذ اور پینسل اٹھایا..اب اسکے ہاتھ کاغذ پر اسکی زندگی کا سب سے بڑا سچ اتار رہے تھے.اس نے حتمی فیصلہ کر لیا تھاکہ وہ روحیل کو شادی سے پہلے سب سچ بتادے گی اسکے بعد وہ جو بھی مناسب سمجھے وہ نہین چاہتی تھی کہ اسکی زندگی کے اس نئے رشتے کی ابتداء جھوٹ سے ہو.خط مکمل کرکے اس نے تکیئے کے نیچے چھپا دیا تاکہ جیسے ہی موقع لگے وہ یہ خط کسی طرح روحیل تک پہنچادے.دفعتا دروازہ کھلنے کی آواز آئ وہ جلدی سے واش روم میں گھس گئ..پتہ چہرہ کیسا دکھ رہا ہو.اس نے جلدی جلدی پانی کے چھینٹے چہرے پر مار کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی.دوسری طرف ثمینہ بیگم اسکے والد کے ہمراہ کھڑیں تھیں.جلدی چلو بیٹا ابھی سب مصروف ہیں کسی کا دھیان نہیں اس طرف. کہاں....؟؟؟ ماں ..سیماب بولی.
بیٹا ہم نے کہا تھا نا کہ آپکو شھزاد صاحب سے ملوانا ہے. وہ یہاں نہیں آسکتے تو ہمیں ہی انکے پاس جانا ہوگا........بابا کی بات سنکر سیماب تھوڑی بگڑی اب ایسا بھی کیا ہے جو وہ خود نہیں آسکتے ...
تم چلو ہر بات کا جواب وہیں مل جائے گا.ثمینہ بیگم بولیں...
اوکے چلیں.سیماب نہ سمجھ آنے والی بات پر سر ہلاتے یوئے بولی....
اب وہ تینوں انیکسی کی سیڑھی چڑھ رہے تھے.اس گھر کی دیواروں کو دیکھ کر سیماب کو خود پر ہونے والا بھیانک ظلم یاد آنے لگا.ایک انجانا سا خوف اسکی ہڈیوں میں سرایت کرگیا جیسے.......
کمرے کا دروازہ جیسے ہی اندر کی طرف دھکیلا تو کمرے میں ایک وجود گٹھٹری کی صورت سمٹا ہوا تھا وہ اندر داخل ہوئ اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگی
اچانک ہی وہ وجود دھیرے سے اٹھا اور اسکے پاؤں سے لپٹ گیا.معاف کردو معاف کردو میری بچی میں ہوس میں اندھا ہو گیا تھا.میری
آنکھوں پر خودغرضی کی پٹی بندھ گئ تھی دیکھو قدرت نے مجھ سے کیسا انتقام لءلیا ہے
شہزاد نے للجاتے ہوئے جیسے اس کے سامنے اپنے جڑے ہاتھ پھیلا دیئے. انکا پورا وجود کوڑھ کی بیماری کا شکار ہوچکا تھا ایک عجیب سی کراہیت کا احساس. اور مبادا یہ کہ اب انکی بیماری بگڑ چکی تھی.ڈاکٹروں نے خاموشی اختیار کرلی تھی. وہ ایسا وجود لے کر جینا نہیں چاہتے تھے رہ رہ کر انکو یہی خیال ستا ریاتھا کہ یہ سب انکے جرم کی سزا ہے جو رب العالمین نے تجویز کی ہے.وہ گئے دنوں کا ازالہ تو نہیں کر سکتے تھے.پر معافی مانگنا تو انکے اختیار میں تھا.شاید میں اس سے بھی بری سزا کا حقدار ہوں.میں تمہاری وہ معصومیت اور پاکیزگی تو نہیں لوٹا سکتا جو مجھ جیسے درندے کی بھینٹ چڑھ گئ. پر تم معاف کردو گی تو کم سے کم موت تو سکون سے آئے گی.
سیماب یک دم پیچھے ہٹ گئ.اسکی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.اور آنکھیں تھیں جیسے دریا کا باندھ ٹوٹ گیا ہو.اس نے پیچھے مڑکر اپنیے ماں باپ پر اک نگاہ ڈالی وہ دونوں تو جیسے سکتے کی کیفیت میں کھڑے ہوئے تھے پھر جیسے اچانک ایک باپ کی غیرت اور حمیت جاگ اٹھی. بے غیرت انسان میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تو اتنا گر جائے گا.کس منہ سے سیماب کو بیٹی کہہ رہا ہے
ثمینہ بیگم کے تو جیسے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے.میری بچی جانے کب سے یہ اذیت چہ چاپ سہہ رہی تھی.اور ہم یہ سمجھتے رہے کہ وہ طبیعت کی سنجیدہ ہے اسلیئے سب سے گھل مل نہیں پاتی. اوہ! !! میرے خدا.سچ کمرے میں موجود چاروں انسانوں کو جھنجھوڑ رہا تھا اپنی پوری قوت سے.اتنے میں پیچھے سے کسی کے قدموں کی آواز آئ.
کون ہے وہاں غصے سے کیئےـاستفسار پر ننھا منیب ڈر گیا وہ اسکی پھوپھو کا بیٹا تھا.مین تو بس یہ کہناے آیا تھا کہ سیماب آپی نے جو خط روحیل بھائ کو پہچانے کے لیئے دیا تھا وہ انکو مل گیا ہے اور .....او....اور وہ نیچے روم میں.
یہ سننا تھا سیماب اکیلی ہی بھاگ کھڑی ہوئ.دھڑ دھڑ سیڑھیاں جیسے اتر نہ رہی ہو توڑ تی جا رہی ہو.
وہ یہاں انے سے پہلے خط منیب کے ہاتھ روانہ کر چکی تھی.شادی کے گھر میں جب روحیل کے لیے ایک پیغام آیا تو سب نے ہی اسے بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھا اوہو د لہن دولہے سے تو صبر ہی نہیں ہورہا شادی میں ایک دن بچا ہے اور پھر بھی خطوط کا سلسلہ چل رہا یے.روحیل کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ گہری ہوگئ.وہ کوئ جواب دیئے بنا اپنے کمرے میں چلا آیا آخر ایسا بھی کیا لکھا ہے میری ہونے والی مسسز نے.ذرا دیکھوں تو
آرام سے تکیئے سے ٹیک لگا کر اس نے خط کھولا.ویسے تو کچھ بولتی نہیں آج خط. کھڑکی سے سیماب ولا صاف نظر آرہا تھا.اس نے دل ہی دل کچھ سوچا.پر جیسے جیسے وہ خط پڑ ھتا گیا اسکے ماتھے کی لکیریں گہریں ہوتی گیئں.اففففففف تو یہ بات تھی.وہ ایک دم ہی اٹھا اور جیسے سیماب ولا کی طرف دوڑ لگا دی.........

تھوڑی دیر ہی میں سیماب اور وہ آمنے سامنے تھے.ثمینہ بیگم نے روحیل کو سمجھانے کی کوشش کی بیٹا اپ بیٹھو سکون سے ہم بات کرتے ہیں ....
نہیں آنٹی مجھے صرف سیماب سے کچھ کہنا ہے...
ڈھولک پر ابھی بھی تھاپ پڑ رہی تھی. سب مہمان اس اندر ہونے والی گڑبڑ سے انجان تھے. ......... سیماب مجھے تم سے بات کرنی ہے یہ خط تم نے لکھا ہے مجھے کیا واقعی سچ ہے یہ سب بولو سیماب اس نے سیماب کے کندھے پوری قوت سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیئے جواب میں سیماب ایک کھلی ہوئی گٹھٹری کی طرح فرش پر بکھر گئ اب مزید کچھ کہنے کی سکت ہی کہاں تھی وہ تو بس بے تاثر کھلی آنکھوں سے اپنی قسمت کے فیصلے کی منتظر تھی ...روحیل تڑپ رہا تھا.بول بول کر تھک گیا تھا پر سیماب چپ تھی.......
سیماب بہت زیادہ پیار کرتا ہوں تم سے یہ اور بات ہے کہ کبھی میری تر بیت نے مجھے اسکے اظہار کی اجازت نہیں دی کہ اتنا سب کچھ سہنے کے بعد بھی میں اسکا تم سے بدلہ لوں گا اور چھوڑ دوں گا.نہیں سیماب میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو جھوٹی شرافت کا ڈھول پیٹتے ہیں.میں تمہیں وہی عزت بھری زندگی دوں گا جسکی تم حقدار ہو.
......................
یہی تو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے برائ پر بند تو نہیں باندھا جاتا بلکہ اور اسے بڑھاوا دیا جاتا ہے اور ہانی سر
سے اونچا ہو جائے تو فرد جرم بھی عائد کردی جاتی ہے وہ بھی اس پر جو سرے سے قصور وار نہیں ہوتا.....
تم نے مجھ سے کہا تو ہوتا....خیر ابھی بھی دیر نہیں ہوئ.یہ بات اب یہیں ختم تم نے مجھ پر اپنا بھروسہ اور یقیں دکھایا ہے تو میں بھی خود کو اس کا اہل ثابت کروں گا...اسکی آنکھوں میں جھلملاتے جگنو دیکھ کر سیماب کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا.....اوہ میرے مالک!!! سچ ہے جو تیرے در آیا وہ کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا مجھے تو جیسے ساری کائنات ہی دے دی ....اور جیسے شاید پہلی بار اتنے سالوں کے بعد وہ مسکرائ...
ہر طرف جیسے پھول ہی پھول کھل اٹھے. اسکی سیا ہ بھونرے جیسی آنکھوں میں پھر سے زندگی کی چمک لوٹ آئ....ثمینہ اور انکے شوہر اللہ تبارک کا دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگے.....
اور ہاں میں جا ریا ہوں. پر آؤں گا لوٹ کر بہت جلد اپنی دلہن کو لینے

اسکی یہ فلمی ڈائیلاگ سن کر کمرے میں موجود سب لوگ ہنس پڑے........
سیماب کی زندگی تو سنور گئ. پر نہ جانے ایسی کتنی لڑکیاں کم عمری میں روز درندگی کا شکار بنتی ہیں بہت سی تو زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں؟ ....خدارا ان معصوم کلیوں کی حفاظت کیجئے.انہیں بری اور ہوس ناک نظروں سے بچایئے.
یاد رکھیئے اوپر والے کے انصاف سے کوئ نہیں بچ سکتا.........
اور انسانیت کے ایسے درندے تو ہر گز نہیں.........

Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 95112 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More