کٹی پتنگ... چوتھی قسط

آسمان پر رنگ برنگی پتنگوں نے جیسے سماں باندھ رکھا تھا.جیسے ہی کوئ پتنگ کٹتی ایک شور سا اٹھتا اور پھر دھیرے دھیرے مدھم ہوتا جاتا وہی پتنگ جو پہلے بڑے غرور سے آسمان پر ہواؤں کے تپھیڑوں سے لڑ رہی ہوتی تھی اچانک ہی انجانے اور ان چاہے ہاتھوں میں کٹ کے اس کی ڈور آجاتی.پر کسی نے سوچا یے اگر اس پتنگ کے کو زبان مل جائے تو کیا وہ اپنا درد بیان کر پائے گی.

سیماب بھی تو ایک پتنگ ہی تھی جس کی ڈور شہزاد صاحب کے ہاتھوں میں آگئ تھی.اس بے چاری کی تو اتنی عمر بھی نہیں تھی.جو اسے کسی بات کی سمجھ ہوتی.عصمت کے تصور کو جینے سے پہلے ہی وہ اسے کھو چکی تھی.اور پھر یہ اکثر ہونے لگا.وہ اسے کسی نہ کسی بہانے اپنے ساتھ لے جاتے جب ثمینہ بیگم استفسار کرتین تو وہ اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر کے کہتے باجی اگر میری بھی شادی ہوگئ ہوتی تو آج سیماب جیسی میری بھی بیٹی ہوتی.وہ چاہ کر بھی انکار نہیں کرپاتیں.اور ہمیشہ کی طرح وہی دردنگی کا کھیل شروع ہوجاتا.بعد میں وہ اسے ڈدرا دھمکاکر چپ کرا دیتے تو کبھی ڈھیر ساری چاکلیٹ اسکے ہاتھوں میں تھما دیتے تھی تو وہ بچی ہی نا.کبھی اسکے لیئے ڈھیر سارے کھلونے اور کپڑے لاتے جن میں عریانیت جھلک رہی ہوتی. انکی آنکھیں اسکا ہمیشیہ تعاقب کرتی رہتیں.
چھپاک کسی نے کیچڑ میں پتھر پھینک کر شرارت کی.کیچڑ کے بدنما داغ

بڑی رازداری سے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاںتک کہ سیماب نے جوانی کی حدود میں قدم رکھ دیا.مکروہ اور گندہ عمل بڑھتا ہی جا ریا تھا.وہ خوف زدہ رہتی نہ تووہ کسی سے کچھ کہہ سکتی تھی اور نہ ہی اب مزید برداشت......اففففف!خدایا کیا کوئ راستہء نجات نہیں.ماں باپ کے سامنے اسکی نظریں سرمشار رہتیں اسکی خاموشی اور اکیلا پن دیکھ کر سب اسکی سنجیدہ طبیعت اخذ کرتے کبھی کسی نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اسکی افسردگی کے پیچھے آخر وجہ کیا ہے.بہت لمبا عرصہ ایسا لگتا تھا جیسے اسے کالے پانی کی سزا ملی ہو پھر ایسا ہوا کہ اچانک شہزاد صاحب شدید بیمار پڑگئے.تب اسکی جان میں جان آئ.پتہ نہیں یہ آزادی کتنے دن کی تھی.؟؟؟؟ پھر اس نے کثرت سے نماز شروع کردی وہ گھنٹوں سجدے میں گری رہتی رو کر گڑگڑا کر دعائیں مانگتی شاید میرا رب اسے معاف کردے اس گناہ کے لیئے جس میں اسکی منشاء شامل نہ تھی.انہی دنوں اس نے تمام ایسے ملبوسات کو بھی آگ لگا دی جو کہیں سے بھی عریانیت کا شکار تھے.دھیرے دھیرے اس نے محسوس کیا کہ گھر کے ان نوکروں کی جنکی آنکھیں اس پر گڑی رہتیں تھیں میں بھی اسکےلیئے احترام آگیا تھا

یہ ایک خوش آئند بات تھی اب وہ طبیعت میں بے چینی کے بجائے سکون اور اطمینان محسوس کرتی پر شہزاد کا خیال آتے ہی بے چین ہو جاتی کبھی سوچتی جا کے دیکھو تو سہی وہ کیسے ہیں.اور کبھی خود کو اس خیال پر ڈھیروں صلواتیں سناتی. انہی دنوں اسے ایک شادی میں وہ بھوری آنکھوں والا روحیل ملا. اسکی طرف سے اس نے اپنے لیئے بڑھتی ہوئ پسندیدگی محسوس کی پر شاید اسکے پاس اسکے لیئے کوئ جواب باقی نہیں بچا تھا.مگر وہ بھی ضدی تھا اسکے ایٹیٹیوٹ دکھانے کے باوجود وہ اپنے گھر والوں کو رشتہ مانگنے کے لیئے سیماب کے گھر لے ہی آیا.اور یہی نہیں وہ لوگ فیصل صاحب کے خاص جان پہچان والے لوگ نکلے بس پھر کیا تھا کہیں سے بھی انکار کی کوئ گنجائش ہی نہیں تھی.چٹ پٹ والی شادی تھی گویا.وہ دن اور آج کا دن گھر میں شادی کے گیت بجنا شروع ہوچکے تھے.اور ڈھولک کی تھاپ اسکے سر پر جیسے ہتھوڑے برسا رہی تھی. اگر سب کو میرا سچ پتہ چل گیا .....نہیں...نہیں یہ خیال ہی اسکے لیئے سوہان روح تھا.
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 95102 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More