سچ صرف سچ

آجکل جتنے منہ ہیں اتنی ہی بولیاں نہیں بلکہ اس سے چار گنا زیادہ ہیں۔ سیاستدان ہوں یا پولیس۔ ہم زبان کا چسکا سب پر پورا کرتے ہیں۔ اگر پولیس ہی کا ذکر چھڑ جائے تو کہیں گے کہ پولیس تو بدمعاش ہے۔ ساری برائیوں کی جڑ بس پولیس ہی ہے۔ جیسے پولیس نہ ہو تو پاکستان میں جرائم ہی ختم ہو جائیں گے۔ یہ فرضی تبصرہ نگاری ایک ایسا قومی مسئلہ بن گئی ہے جو سچ کو ہمارے معاشرے میں پنپنے ہی نہیں دیتی جھوٹ کے نشتر سے سچ کا گلہ بیچ چوراہے پر سرعام کاٹ دیا جاتا ہے اور اس فرضی تبصرہ کی وجہ ہیں بد گمانی، جھوٹ اور باتوں کا چمپئین بننے کا چسکا۔ جس کو اور کچھ نہیں کرنا آتا وہ یہ کام ضرور کرتا ہے اور یہ جھوٹی باتیں آگ کی طرح ہمارے گھروں میں پھیل جاتی ہیں اور ہم ان باتوں پر اعتبار کر کے حقیقت شناسی سے اپنا دامن چھڑا کر حقیقت سے کہیں دور، ہوائی شکوے اور ہوائی کرداروں کی عمارت کھڑی کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور اس عمارت سے کبھی نکل ہی نہیں پاتے۔

اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ پولیس میں 70 فیصد لوگ کرپٹ ہیں تو پھر بھی ساری پولیس کو کرپٹ یا بدمعاش کہنا جھوٹ بھی ہوگا، الزام تراشی بھی ہوگی اور چند اچھے لوگ جو ہم جیسوں سے تعداد میں بہت کم ہیں ان کے نزدیک اگر جھوٹ بولا تو بہتان بازی اور اگر سچ بولا تو غیبت ہوگی اور جب جھوٹ، بہتان بازی اور غیبت ہوگی تو بات ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کا ردعمل یا نتیجہ مصیبت کے طور پرہم پر نازل ہوگا۔ اگر بات سمجھ نہیں آئی تو دو منٹ کیلئےعملی مسلمان بن کر سوچ لیجئے سب سمجھ آ جائے گی۔ گھروں میں گھس کر مال لوٹنے اور زندہ انسانوں کو لاش بنانے والوں کی ایک طویل لسٹ ہے۔ اسی پولیس کے کئی شیر دل جوان ان سے عوام کی خاطر مقابلے کرتے ہوئے قبروں میں اتر گئے۔ لیکن ہمیں کیا ہم تو پولیس کے نام پر سبھی پولیس والوں کو اپنی بےلگام زبان سے رگڑا لگا دیتے ہیں۔ اس ملک کو ایٹمی قوت سائنسدان اور سیاستدان دونوں نے مل کر ہی بنایا ہے۔ لیکن ہم نے سیاستدان کو کرپٹ کے لفظ سے بدل دیا ہے۔ مانا کہ کرپشن انتہا پر ہے اس کی مذمت بھی ضروری ہے لیکن انصاف کے ساتھ۔ تنقید سچی ہونی چاہئے اور تنقید اور مذمت، قومی ذمہ داری سے کرنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ اکثر کالی بھیڑوں کی خاطر بروں کے ساتھ ساتھ اچھوں کو بھی برا بنا دیتے ہیں۔ اکثر سیاستدانوں کی کرپشن سامنے آتی ہے تو ہم سب کو ہی کرپٹ کا خطاب دے دیتے ہیں اور الیکشن آنے پر انہیں کل کے کرپٹوں کو ووٹ دینے کیلئے بھاگے پھرتے ہیں۔ کسی شہر میں کسی ایک علاقے میں کچھ پولیس والوں کی بدعنوانی پر ہم سارے ملک کی پولیس کو اسی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ کسی ایک دفتر میں بدکرداری کا واقعہ سامنے آ جائے تو ہم ساری ملازمت پیشہ خواتین کو نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ کوئی داڑھی رکھ کر غلط کام کرتا ہے تو ہم سارے داڑھی والوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی ایک گھر میں کسی ایک کی غلطی پر ہم اس کا سارا خاندان ہی بدنام کر ڈالتے ہیں۔

کوئی مسئلہ ہو، سیلاب ہوں یا بم دھماکے جو بھی ٹوٹی پھوٹی انتظامیہ ہی ہے جتنا سنبھالتی ہے یہی سنبھالتی ہے۔ یہ پولس والے ہی ہیں جو کئی کئی گھنٹے جاگ کر حالات کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہم اپنے گھروں میں چین سے سوتے ہیں۔ یہ ہماری فوج ہی ہے جو عوام کیلئے جانیں دے رہی ہے۔ سیاستدان، پولیس، فوج ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔ پولیس والے ہم میں سے ہیں۔ عوام کی خدمت پر معمور افراد یا اداروں کو مضبوط بنانے اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے بڑا ضروری ہے کہ ہم ایماندار منصف بنیں۔ سچے نقاد بنیں۔ اپنے مقام کے مطابق ہر اچھے کام کی حوصلہ افزائی کرنا اور ہر غلط اقدامات کی اجتماعی مذمت ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو تب ہی تو حقیقت سامنے آئے گی۔ پھر ہی تو اس بات کا تعین ہو سکے گا کہ آج یہ ادارے کہاں کھڑے ہیں اور کہاں کتنی بہتری کی ضرورت ہے اور اگر ہم صرف ایک ہی رٹ لگاتے رہے پولیس بےایمان ہے کرپٹ ہے۔ سب بےایمان ہیں تو حقیقت ہمیشہ چھپی رہے گی اور اداروں کو بہتر بنانے کی ساری کوششیں بے اثر ثابت ہوں گی اور اگر اب بھی ہمارے اداروں کی کارگردگی کا گراف بہتر نہ ہوا تو ہمارے معاشرے کے مجرم مضبوط ہوں گے اور نقصان عوام کا ہی ہوگا۔ اس وقت ہم نہایت نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں اور سیاستدان، فوج، جج، صحافی ان سب میں اور جہاں بھی جتنی اچھائی ہے اور جتنی برائی ہے ہمیں سچ بولنا ہوگا۔ سچ کی پرورش کرنی ہوگی۔ صرف سچ اور اجتماعی سچ بولنا ہوگا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اجتماعی طور پر خالص سچ بولیں، برائی کی مذمت کریں، تاکہ اچھائی کی پرورش ہوسکے اور برائی کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ ہم برا ہے برا ہے کی رٹ لگا کر اچھے کاموں پر بھی غلط کاموں کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ ہمیں ذاتی مفادات، پسند نا پسند، شخصیت پرستی سے ہٹ کر، سیاسی پارٹیوں سے بالاتر ہو کر حق کو سمجھنا ہوگا، حق کہنا ہوگا، حق لکھنا ہوگا، حق کا ساتھ دینا ہوگا چاہے یہ حق کہیں سے بھی ظاہر ہو اور ہمیں ہر غلط کام کی مذمت کرنی ہوگی چاہے یہ غلط کام ہماری اپنی صفوں سے ہی ظاہر ہو۔ جیسا ہم کرتے جائیں گے وہی تصویر بنتی جائے گی۔ ہمارا مثبت اور اجتماعی رویہ ہمارے اچھے مستقبل کی ضمانت ہوگا۔ ہم سچ بولتے رہیں گے اور سچ کی برکت سے ہی انصاف اور خوشحالی کا سورج طلوع ہوگا اور اگر ہم اب بھی یہ نہ کر پائے تو ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ کل کا اندلس آج کا سپین ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو ہماری اجتماعی لاپروائیوں کے سبب پاکستان کے دشمن کا فائدہ ہو جائے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 113759 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More