پوری دنیا میں آزاد کشمیر ہی شاید وہ واحد ملک ہے جس کے
نام کے ساتھ آزاد لفظ خود مختاری کو ظاہر کرتا ہے، اور شاید یہ بھی واحد
پہچان ہے کہ یومِِ آزادی کو یوم تاسیس کہہ کے منایا جاتا ہے۔ سادہ سی تاریخ
ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان اور بھارت کے الگ وطن بننے کے لئے
شرط یہ تھی مسلمان اکثریت والے علاقے پاکستان کے ساتھ اور ہندو اکثریت والے
علاقے بھارت کے ساتھ ملحق ہونے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں اور
ہندووٗں نے اپنی اپنی جانوں اور مالوں کے نذرانے دیکر الگ وطن حاصل کیے تھا۔
کشمیر بھی چونکہ برصغیر کا حصہ تھا، اور مسلم اکثریت کی وجہ سے پاکستان کا
حصہ بننا تھا، مگر کسی ہندو راجہ نے اس کو بھارت کا حصہ بنانا چاہا۔ چودہ
اگست۱۹۴۷ کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والے علاقے اس کا حصہ بن گئے، جبکہ
کشمیر کا یہ حصہ چوبیس اکتوبر۱۹۴۷ کو چوہدری غلام عباس کی سرکردگی میں
پاکستان کا حصہ بنا۔
تاریخ کا اتنا علم نہیں، مگر موجودہ حالات کے مطابق اصل مسلہ بھارت کے ساتھ
ملحقہ علاقے کا لگتا ہے۔ کیونکہ یہ آزاد علاقہ مسلم اکثریت کی وجہ سے
پاکستان کا ہی حصہ بننا تھا۔ بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں، اگر یہ علاقہ
پاکستان کا حصہ ہے تو الگ جھنڈا اور ترانہ کیوں ہے؟اگر یہ واقعی ہی آزاد
علاقہ ہے تو پھر اسے مسلہ کشمیر کا حصہ کہہ کے پوری دنیا سے ہمدردیاں اور
امداد کیوں سمیٹی جاتی ہے؟ یہاں نہ تو پاکستان نے کوئی ظلم روا رکھا ہے، نہ
ہی بھارت نے، تو پھر عوام میں ان دونوں ممالک سے نفرت کا کیوں جذبہ پیدا
کیا گیاہے؟ آزاد کشمیر پر کسی قسم کی کوئی بیرونی پابندی نہیں ، لیکن
پھربھی عوام بیروزگاری اور پسماندگی کا شکار کیوں ہے؟آزاد وطن ہونے کے
باوجود یہاں کے لوگوں میں یوم آزادی کا جذبہ ویسا کیوں نہیں ہے، جیسا واہگہ
بارڈر پہ ہر روز پاکستانی و ہندی عوام و افواج کا ہوتا ہے؟ یہاں اصل مسلہ
کیا ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ۲۳ مارچ، ۲۵ دسمبر، ۱۴ اگست، ۶ ستمبر، ۹
نومبر وغیرہ جیسے دنوں میں عوام کا وطن سے محبت کا جذبہ قابل دید ہوتا ہے۔
کاروباری حضرات اونچی آوازوں میں ترانے لگاکر، باقی لوگ بھی جھنڈے اور بیجز
لگا کے بہت خوبصورت سماں پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ وہاں بھی کرپشن اور دہشت
گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایساکوئی جذبہ دکھائی نہیں دیتا۔
اگر تو آزاد کشمیر ایک آزاد ملک ہے تو یہاں ابھی تک علامہ اقبا ل جیسا شاعر
کیوں پیدا نہیں ہو سکا ہے جو نوجوانوں میں خودی اور عزت نفس جیسا جذبہ پیدا
کر سکے؟ اگر یہاں کے لاکھوں کشمیری باہر کے ممالک میں خوشحال ہیں مگر ڈاکٹر
عبدالقدیر جیسا جذبہ کسی میں کیوں نہ پیدا ہو سکا جو باہر کی آسائشوں کو
خیر آباد کہہ کے اپنے وطن کے ایٹمی پروگرام کے لئے واپس آگئے۔ عمران خان
جیسا کوئی کھلاڑی کیوں نہیں ہے جو اپنے وطن کے لئے ورلڈ کپ لے کے آیا۔
عبدالستار ایدھی جیسا جذبہ کسی میں کیوں نہیں ہے جو اپنے مسائل زدہ لوگوں
کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے۔ غرض ایسا کونسا دنیا میں میدان ہے جہاں
پاکستان نے اپنے نقش نہ چھوڑے ہوں۔ ان عظیم پاکستانیوں نے اپنی محنت اور اﷲ
کے کرم سے اپنے ملک کا نام روشن کیا، بلاشبہ سارے مسائل بھی ساتھ ساتھ چلتے
رہے اور سرکاری کرپشن کے واقعات بھی۔
میرے خیال میں یہاں کے لوگوں میں جذبہ حب وطنی اس لئے نہ نہیں پیدا ہو سکا
ہے کہ یہاں کے بڑوں نے لوگوں کو ذہنی طو ر پہ اسقدر انتشار کا شکار کر دیا
کہ لوگوں کو صرف ایک سرکاری نوکری کے حصول کے لئے ہر حد تک گر جانا قبول ہے
مگر اس کے سوا کسی اور رستے کا علم نہیں۔ روپے پیسے کے لالچ نے سب کو اندھا
اور بہرہ کر دیا ہے۔ یہاں کوئی بھی بندہ جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے نہیں
شرماتا، منافقت کی انتہا ہے کہ کوئی بھروسے کے لائق نہیں۔ کسی کو اس بات کا
ڈر نہیں کہ اﷲ کے ہاں بھی حساب دیناہے۔ یہاں کے لوگ جس رزق کے لئے سارے
جذبے بھلا بیٹھے ہیں اس کا وعدہ تو اﷲ نے انسان کی پیدائش ہی کے وقت کر دیا
تھا۔ اﷲ کو ان لوگوں سے بہت محبت ہے جو اسکی مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں(اقبال)
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی(اقبال)
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں(اقبال)
میرا طریق امیر ی نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر ! (اقبال) |