بری عادات سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟

عادت سے مراد دوسروں سے سیکھا ہوا خودکار طرزعمل ہے جو فرد کو خوشی اور اطمینان دیتا ہے۔ اکثر بری عادتوں کے دوررس منفی اثرات ہوتے ہیں پھربھی وہ وقتی طورپر فرد کو فوری سکون عطا کرتی ہیں اور اس وقتی اطمینان کے لیے ہم انھیں اختیار کرلیتے ہیں۔ کسی بری عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے دو کام بیک وقت کرنا ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ اس عادت کو شعوری طور پر ترک کیا جائے اور دوسرے یہ کہ اس کے بدلے میں کوئی ایسی عادت اختیار کی جائے جو ذہنی اطمینان کو برقرار رکھے مگر اس میں وہ مضر اثرات نہ ہوں جو اس سے پہلے کی عادت میں پائے جاتے تھے۔ بظاہر یہ کام مشکل دکھائی دیتے ہیں مگر ارادہ اور مشق کے ذریعے یہ کام بیک وقت کیے جاسکتے ہیں۔ مشکلات کے باوجود بہت سے لوگ اپنی ناپسندیدہ عادتوں پر قابو پالیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات بری عادتیں چھوڑنے کے لیے کئی طریقہ کار تجویز کرتے ہیں جو دنیا میگزین نے رپورٹ کیے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
 

٭اپنے ’’خلاف‘‘ منصوبہ بندی کریں:۔
کسی عادت کو ترک کرنے کے بعد بھی اس کی طرف پلٹنے کی خواہش باقی رہتی ہے۔ آپ سگریٹ نوشی سے توبہ کرچکے ہیں ، مگر کسی وقت سگریٹ سلگانے کو جی چاہتا ہے۔ آپ نے مٹھائی نہ کھانے کی قسم کھائی ہے مگر ، کسی دعوت میں میز پر طرح طرح کی مٹھائیاں دیکھ کر منہ میں پانی بھر آتا ہے اور بے ساختہ آپ کا ہاتھ مٹھائی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ یہ ایک نارمل بات ہے۔ اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی خواہشیں لہروں کی طرح دل و دماغ میں اُٹھتی ہیں۔ ہمیں ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ان لہروں کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چھوڑی ہوئی عادت کو دوبارہ اپنانے کی خواہش کی شدت تین سے دس منٹ تک ہوتی ہے۔ اگر ہم اس مختصر وقت کے لیے خود پر قابو رکھیں تو گویا طوفان آکر گزرجاتا ہے ۔ ایسی عادات کو چھوڑنے کے لیے اپنے ہی ’’خلاف‘‘ منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ پہلے سے یہ بات سوچ رکھیں کہ جب کبھی کسی چھوڑی ہوئی عادت یا چیز کی خواہش پیدا ہوگی تو اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا۔ مثلا ًہم اپنے اس تقاضے کو ختم کرنے کے لیے کہیں سیر کو نکل جائیں گے ، کتاب کا مطالعہ شروع کردیں گے یا کسی پرانے دوست سے گپ شپ لگائیں گے۔ ان میں سے اپنی سہولت اور مزاج کے مطابق کوئی طریقہ منتخب کرلیں مگر دو تین بار اس کی مشق ضرور کرلیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ضرورت پڑنے پر آپ کا ردعمل خودکار ہوجائے گا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں یہ بات اہم نہیں کہ آپ کون سی تکنیک منتخب کرتے ہیں، بلکہ دراصل آپ کو ذہنی طور پر چاق چوبند رہنا ہوتا ہے۔

image


٭اچھا متبادل تلاش کریں:۔
کسی عادت کو ختم کرنے کے بجائے اس کا متبادل پیدا کریں۔ سیر کا یا ورزش کا کوئی پروگرام بنالیں۔ موسیقی میں دل لگائیں۔ کتابوں میں دلچسپی بڑھائیں۔ گہرے سانس لینے کی عادت بھی اچھی ہے۔ غرض یہ کہ پرانی عادت کی جگہ کوئی صحت مند عادت اختیار کرلیں اور پرانی عادت کے لوٹ آنے کا انتظار مت کریں۔ بلکہ ممکن ہو تو کوئی پرانی عادت چھوڑنے سے پہلے ہی اس کی جگہ نئی عادت کی تیاری شروع کردیں۔ متبادل عادت منتخب کرنے کا ایک مناسب طریقہ یہ ہے کہ پہلے پرانی عادت اختیار کرنے کا سبب تلاش کریں۔ مثلاً منشیات وغیرہ کا استعمال لوگ سکون حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اس کی جگہ مراقبہ وغیرہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح سگریٹ نوشی کا تعلق کسی طور ہاتھوں کی حرکت سے بھی ہے تو اسے چھوڑ نے کیلیے کوئی ساز بجانا سیکھا جاسکتا ہے۔

image


٭دوسروں کی مدد :۔
بری عادتوں سے نجات کی خواہش کرنے والے کئی لوگوں کے لیے بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دوسروں کی مدد حاصل کریں۔ اس طرح پرانی عادتوں کے لوٹ آنے کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ جب کبھی پرانی عادت کا دباؤ حد سے بڑھنے لگے تو اس کا ذکر دوستوں اور عزیزوں سے کریں۔ ان کو اپنی مشکلات کے بارے میں بتائیں۔ اس طرح ان کو خود پر قابو حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ مغربی ممالک میں تو بہت سے گروپ ہیں جو اس قسم کی صورت حال میں اپنے ارکان کوا خلاقی اور نفسیاتی امداد مہیا کرتے ہیں۔ خاص طور پر شراب نوشی ، سگریٹ نوشی اور اس قسم کی دوسری نقصان دہ عادتوں سے بچاؤ کے گروپ خاصے سرگرم ہیں۔ خیر ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان عادتوں سے نجات کے لیے لازمی طور پر کسی منظم گروپ کی مدد درکا رہوتی ہے۔ دوست احباب اور خاندان کے ارکان بھی اس سلسلے میں مدد کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ دوست احباب یا خاندان کے افراد آپ کا جائزہ لے رہے ہیں تو آپ خود محتاط ہوجائیں گے۔

image


٭ ایک کے بدلے دو:۔
اکثر سگریٹ نوشی کرنے والوں کو چائے یا کافی کے کپ کے ساتھ سگریٹ پینے کی عادت ہے۔ اس لیے انھیں سگریٹ نوشی ترک کرتے ہوئے ، کم ازکم دو تین ماہ کے لیے ، کافی یا چائے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی جگہ کوئی اور سافٹ ڈرنک استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لیے بلاضرورت خریداری کے لیے نکل جاتے ہیں ، تو مناسب یہ ہوگا کہ اس کے لیے کوئی متبادل تلاش کریں مثلاً موسیقی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔ جن افراد کو زود خوری یا بہت زیادہ کھانے کی عادت ہوجاتی ہے انھیں ایسی تقریبات سے دور رہنا چاہیے جہاں رنگارنگ کھانے وافر مقدار میں پیش کیے جاتے ہیں۔

image


٭ہدف وہ ، جو حاصل ہوسکے:۔
کسی بری عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ کئی لوگ جوش میں ایسے ہدف مقرر کرلیتے ہیں جنھیں پورا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ایک مثال سمجھتے ہیں۔ ایک صاحب چین سموکر تھے اور وہ سگریٹ بھی بہت اچھے برانڈ کی پیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہر مہینے ان کے تین چار ہزار اس عادت کی نذر ہوجاتے تھے۔ انھوں نے تنگ آکر اس عادت سے چھٹکارا پانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ساتھ خود سے یہ عہد بھی کرلیا کہ اس عادت کو ترک کرنے سے جو رقم بچے گی اس کو جمع کر کے وہ اپنے لیے ایک مہنگا لیپ ٹاپ خریدیں گے۔ ابھی انھوں نے چند سو روپے ہی بچائے تھے کہ وہ دوبارہ دھوئیں میں غرق پائے گئے۔ دراصل انھوں نے ایک نفسیاتی حقیقت کو نہیں سمجھا تھا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ابتدا میں آسانی سے حاصل ہونے والے ہدف مقرر کرنے چاہئیں۔ اچھا اور برانڈڈ لیپ ٹاپ خریدنے کے لیے ڈیڑھ دو لاکھ درکار ہوتے ہیں۔ اب اگر وہ صاحب ثابت قدم رہتے تو بھی اتنی بڑی رقم اکٹھی کرنے کے لیے کم از کم چھے سات سال کا عرصہ درکار تھا۔ یہ بہت طویل عرصہ ہے۔ چناںچہ جب انھوں نے یہ محسوس کیا کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کا فائدہ انھیں طویل عرصے کے بعد ہی حاصل ہوسکے گا تو ان کے قدم ڈگمگا گئے۔ اس کے بجائے اگر وہ کوئی ایسا ہدف رکھتے جو ایک یا دو ماہ میں بچائی ہوئی رقم سے حاصل ہوسکتا تو شاید وہ اپنے ارادے میں زیادہ مضبوط رہتے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آسان ہدف رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ خود کو اسی ہدف تک محدود رکھا جائے بلکہ یہ مرحلہ وار تبدیلی کے لیے ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم مستقل مزاجی سے اٹھائے جائیں تو طویل سفر بھی طے ہوجاتا ہے لیکن بے ہنگم دوڑ لگادینے سے منزل نہیں ملتی بلکہ تھکن ہوتی ہے۔

image


٭ خود سے کہیں’’جا عیش کر‘‘:۔
جب آپ کسی بری عادت سے دور رہنے میں ثابت قدم رہیں تو پھر اس ثابت قدمی پر خود کو انعام دینے میں کوئی حرج نہیں۔ انعام کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی کامیابی کا چرچا دوسروں کے سامنے کریں اور اپنی ہمت کی ، اپنے ارادے کی اور اپنی قوت فیصلہ کی تھوڑی سی تعریف بھی کردیں۔ دوسرے بھی آپ کو سراہیں گے۔ یہ بھی انعام کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح جب آپ پانچ سات دن یا دوتین ہفتوں تک اپنی خوراک کو کنٹرول کرلیتے ہیں اور اس طرح زیادہ کھانے کی بری عادت سے دور ہوجاتے ہیں تو اپنے لیے ایک آدھ نئی شرٹ خرید لیں۔ جب دو تین ہفتے اور گزر جائیں تو نئے جوتے لے لیں یا نیا موبائل خریدنا بھی بری بات نہیں۔ اس طرح آپ کو اپنی کام یابی کا احساس ہوتا رہے گا۔

image


٭دیانت بہترین پالیسی ہے:۔
بہت سے اتفاقات یا غلطیاں یونہی نہیں ہوتیں۔ ان کے لیے ہمارا لاشعور کام کررہا ہوتا ہے۔ کئی کام ہم جان بوجھ کر کرتے ہیں ، لیکن یہ بات خود سے بھی چھپالیتے ہیں اور ظاہر یوں کرتے ہیں کہ جیسے وہ محض کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ ہوں۔ گویا ہم خود کو بھی فریب دیتے ہیں۔ مگر اس طرز عمل سے ہمیں فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم بالٓاخر گھاٹے میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر چاکلیٹ سے توبہ کرنے والا کوئی شخص ایک بڑی چاکلیٹ خریدتا ہے اور خود سے کہتا ہے ’’ یہ میں اپنے نہیں لیے بلکہ دوستوں کے لیے خرید رہا ہوں جو آج شام آنے والے ہیں ‘‘۔ یا سگریٹ نوشی ترک کرنے کا طلب گار جہاز میں بیٹھتے وقت کہتا ہے ’’ میں سگریٹ نوشی کی اجازت والے حصے میں صرف اس لیے نشست لے رہا ہوں کہ وہاں رش کم ہوتا ہے۔ ‘‘ یہ دونوں افراد خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔ چناںچہ وہ جلد ہی کھلم کھلا پرانی عادت کے اسیر ہوجاتے ہیں۔

image

٭پہلا قدم روکنا ہوگا:۔
مارک ٹوئن سگار پینے کا شوقین تھا۔ ایک بار اس نے کہا تھا ’’ میں جب چاہوں یہ عادت چھوڑ سکتا ہوں۔ میں پہلے ہی یہ عادت ہزار بار چھوڑ چکا ہوں۔ ‘‘ ہم میں سے کئی لوگ مارک ٹوئن سے بھی زیادہ بار ایسی کئی عادتیں چھوڑ چکے ہوں گے۔ اس لیے جب بھی کوئی عادت چھوڑنا چاہتے ہوں تو اس کے متعلقہ اسباب پر بھی غور کریں۔ ہمیں کئی مرتبہ کوئی عادت کسی خاص محفل سے لگ جاتی ہے۔ کچھ خاص دوستوں کے درمیان بیٹھ کر ہی ہم اس مشق کو دہراتے ہیں۔ ان باتوں کا جائزہ لیں کیوں کہ یہی اسباب آپ کو پہلے قدم کی جانب اکساتی ہیں، اور اگران دوستوں اور مقامات سے دور ہوجائیں گے تو پہلا قدم نہیں اٹھ پائے گا۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

A habit is a form of learned, automatic behaviour that provides pleasure and comfort. A bad habit has long-term negative consequences, but it still gives immediate comfort, and under stress the automatic tendency is to revert to it. Why do people weaken on the threshold of success? Physical cravings and lack of will-power play their roles, but the major cause, experts now believe, is emotional distress—anger, anxiousness, depression, boredom or loneliness.