“کیا تم نے Sana Safinaz کی نئی لان کلیکشن دیکھی؟ “ مجھے
تو Élan کے ڈیزائن پسند ہیں لیکن ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں“٬ “ J.
Lawn کے سیزن 2 نے کچھ خاص متاثر نہیں کیا “٬ “ گل احمد کے سادے پرنٹ بھی
کافی بہترین ہوتے ہیں“٬ میں تو Khaddi Lawn کا بےصبری سے انتظار کر رہی ہوں“-
موسمِ گرما میں آپ کو زیادہ تر پاکستانی خواتین اسی طرح کی باتیں کرتی ہوئی
سنائی دیں گی- لان کے مقبول ترین برانڈز کے درمیان مقابلہ اپنی انتہا کو
پہنچ چکا ہے اور ان برانڈز کے اسٹورز اپنے نت نئے ڈیزائن سے بھرپور ہیں-
|
|
وقت انتہائی تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے- لان کی اشتہاری مہم کے لیے بالی ووڈ
کی معروف اداکاراؤں کرینہ کپور اور جیکولین فرنانڈس وغیرہ کو پاکستان کی
بہترین ماڈلز پر ترجیح دی جانے لگی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ملک کی مصروف
ترین شاہراؤں پر آویزاں بل بورڈ ہیں- یہ طرز عمل اس بات کی جانب اشارہ کرتا
ہے کہ پاکستان میں لان کا کاروبار اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے- سڑکوں اور
ہائی وے پر نصب یہ بل بورڈ چیخ چیخ کر لان فروخت کرتے نظر آتے ہیں- زیرِ
نظر تصاویر مختلف برانڈز کی جانب سے اپنی لان کی فروخت کے لیے چلائی جانے
والی اشتہاری مہم کی چند بہترین مثالیں ہیں- مشتہرین ( Advertisers ) معروف
اداکاراؤں کا استعمال اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے کر رہے ہیں یا
پھر صنف مخالف کو متاثر کرنے کے لیے؟ یہ ایک طویل بحث ہے-
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لان کی فروخت کی حالیہ اشتہاری مہم خواتین سے
زیادہ ان مردوں کو متاثر کرتی ہیں جو اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل پر سوار ان
بل بورڈز کے پاس سے گزر رہے ہوتے ہیں- بل بورڈ پر کرینہ کپور اس لان سے
زیادہ نمایاں دکھائی دے رہی ہوتی ہیں جس کی فروخت کے لیے انہیں منتخب کیا
گیا ہے- اور یوں اشتہار کا اصل مقصد ختم ہوجاتا ہے- دوسری جانب خواتین اگر
چاہیں تو آن لائن کیٹلاگ یا پھر اسٹورز پر جا کر بھی لان کے پرنٹ پسند
کرسکتی ہیں-
|
|
یہ معاملہ صرف بل بورڈ تک ہی محدود نہیں بلکہ ٹی وی پر چلائے جانے والے لان
کے اشتہارات بھی ایسی ہی سوچ کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں٬ مثلاً گل احمد یا
الکرم کے اشتہارات جو کہ گلیمرس اور بولڈ مناظر پر مبنی ہیں- لان کے
اشتہارات کی خصوصیات یہی ہوتی ہیں کہ ان میں خواتین ماڈلز backless,
sleeveless اور visible necklines کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں- یہ طریقہ کار
خواتین کو تو لان خریدنے پر مجبور نہیں کرسکتا لیکن یقیناً یہ ضرور ہوسکتا
ہے کہ ان خواتین کے شوہر ضرور اسٹورز پر ان ماڈلز کو تلاش کرتے ہوئے دکھائی
دیں جنہوں نے ایسے لباس زیب تن کر رکھے ہوں- پاکستان کے کئی بڑے شہر ایسے
غیر اخلاقی بورڈز سے آلودہ ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ماڈلز غیر
مناسب لباس پہنے دکھائی دیتی ہیں-
کس قدر عجیب بات ہے کہ لان کا پرنٹ فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے لیکن وہ
ماڈل کے جسم سے کم نمایاں دکھائی دیتا ہے جبکہ ایسے اقدامات زیادہ سے زیادہ
منافع کمانے کا ایک اہم ذریعہ تصور کیے جاتے ہیں-
|
|
Public Response
پاکستان کی سول سوسائٹی کی جانب سے اشتہارات میں خواتین کو غیر اخلاقی اور
حیا سوز انداز میں پیش کرنے پر شدید تنقید کی جارہی ہے- مختلف غیر معروف
سول گروپس مثلاً وومن ایجوکیشن سوسائٹی اور وومن پروفیشنل فورم کی جانب سے
ایسے غیراخلاقی اشتہارات کے خلاف ایک مہم کا آغاز بھی کیا گیا ہے- آپ کو
شاہراہ فیصل٬ گلشنِ اقبال اور گلستانِ جوہر وغیرہ کے مختلف مقامات پر ایسے
کئی بل بورڈ دکھائی دیں گے جن پر احتجاج کے طور کچھ یوں پیغامات درج ہوں گے
مثلاً “ فیبرک کی فروخت کے لیے فحاشی کو فروغ نہ دیں“٬ “ فیشن کی آڑ میں
عریانی نہ پھیلائی جائے “ اور اسی طرح کے مزید- شہری انتظامیہ کے مطابق ان
احتجاجی بل بورڈ کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی جاتی ہے اور لوگ بل بورڈ پر
یہ بینر لگا کر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں- سندھ آؤٹ ڈور ایڈورٹائزرز
ایسوسی ایشن اور کے ایم سی اب تک اس بات کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ یہ
احتجاجی بینرز کون لگاتا ہے اور نہ ہی کسی بھی تنظیم نے اب تک ان بینرز کی
ذمہ داری قبول کی ہے-
|
|
?What the Advertisers should do
مصنوعات تشہیر کوئی بری بات نہیں اور یہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے مشہور
اور معروف کمپنیاں عوام میں اپنی مصنوعات کے حوالے سے آگہی پیدا کرتی ہیں-
لیکن مصنوعات کی تشہیر کے لیے خواتین ماڈلز کا استعمال نہ کیا جائے اور
ہمارے سامنے اشتہاری مہم کی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں خواتین ماڈلز
کا کوئی کردار نہیں پھر وہ کمپینیاں قابلِ ذکر منافع کماتی ہیں جیسے کہ جے
لان- کمپنیوں کو چاہیے کہ اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے ایسے منفرد
اور اچھوتے خیالات پیش کریں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں- خواتین کو
اشتہارات میں کسی شے کے طور پر ہرگز پیش نہ کیا جائے- چاہے وہ بل بورڈز ہوں
یا پھر ٹی وی کمرشل مرکزِ نگاہ فیبرک ہونی چاہیے نہ کہ خواتین ماڈلز- وقت
کا تقاضا ہے کہ مصنوعات کی مارکیٹنگ کی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کی جائے
ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام آپ کی مصنوعات کو مسترد کردے- |