مُحترم قارئین السلام علیکم
یوں تو اللہ عزوجل کے ہم پر کروڑہا احسانات ہیں لیکن اللہ کی کریمی دیکھیے
کہ اُس پاک پروردگار نے ہم پر اپنے احسانات جتائے نہیں اگرچہ کہ اُن
احسانات کا شُکر بجا لانا ہم پر واجب ہے لیکن ایک احسان تمام مسلمانوں پر
ایسا بھی ہے کہ جسکی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے اللہ کریم نے اُس احسان کا
نہ صرف ذکر کیا بلکہ اُس احسان کو جتایا بھی
بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول
بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب
و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلے گمراہی میں تھے
(سورہ آل عمران آیت 164 )ترجمہ کنزالایمان
اور اللہ کریم کیوں نہ احسان جتائے کہ یہ اللہ کریم ہی کی شان ہے کہ اُس نے
اپنا محبوب(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں عطا کیا علما فرماتے ہیں کہ اللہ
کا سب سے بڑا احسان انسانوں پر یہی ہے کہ اُس نے اپنا محبوب ہمیں عطا کیا
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے محبوب کا استقبال دُنیا والے صرف پُھولوں ہی سے
نہیں بلکہ مُنافقین پَتھروں سے بھی کریں گے میرے محبوب کے راستے میں کانٹے
بھی بِچھائے جائیں گے کچھ کم ظرف لوگ جو خُود کو مُحمدی بھی کہیں گے اور
میرے مِحبوب کی برابری کی بھی کوشش کریں گے اُنہیں اپنے جیسا کہیں گے
حالانکہ کوئی اُنکے باپ یا روحانی پیشوا کو کسی مدرسے سے نکلے مُفتی کو
اپنے جیسا کہہ دے تو بُرا مان جائیں گے اِن تمام باتوں کا علم رکھنے کے
باوجود بھی اپنے محبوب کو دُنیا میں بھیجنا اللہ ہی کی شان ہے۔ کیونکہ وہ
جانتا ہے کہ میرا محبوب تمام دُکھ جو اُسے کُفار کی طرف سے ملیں گے یا
مُنافقین کی طرف سے ہنس کے سہہ لیگا کیونکہ وہ میرا محبوب ہے کوئی عام بشر
نہیں کہ جو ذرا سی تکلیف پر چِلا اُٹھے۔
اور مُحترم قارئین اِسی طرح حضور علیہ السلام ہی کی شان تھی کہ معراج کی
رات اپنے رَب عزوجل کا حقیقی جلوہ دیکھنے کے باوجود قابَ وُ قُوسین کا لقب
پا کر بھی واپس تشریف لے آئے یہ بھی حُضور علیہ السلام کا مُعجزہ تھا اِسی
شان اور معجزہ کا تذکرہ اللہ کریم نے سورہ والنجم میں فرمایا تھا،
کچھ کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ مدنی آقا علیہ السلام کو محبوبیت کا درجہ
آپکو آپکی ظاہری عمر میں مِلا اور میں یہ کہتا ہوں واللہ حضور علیہ السلام
تو اُس وقت بھی اللہ کریم کے محبوب تھے جب نہ آدم علیہ السلام تھے نہ جنت
تھی، نہ ملائک تھے نہ مکان تھا نہ زمیں تھی نہ ہی آسمان تھا کہ اگر حُضور
علیہ السلام اُس وقت مِحبوبیت کے درجہ پر فائز نہ ہوتے تو کیوں عرش پہ خُدا
کے نام کیساتھ نام مُصطفٰے لِکھا ہوتا کیوں آدم علیہ السلام توبہ کیلئے
حُضور علیہ السلام کو وسیلہ بناتے کیوں جبرائیل بار بار سدرہ چھوڑ کر آپکی
خدمت میں حاضر رہتے۔
حضرت حسن رضا خاں (علیہ الرحمتہ)نے کیا خُوب فرمایا ہے
بے لقائے یار اُن کو چین آجاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریئل سدرہ چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگراِس در سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قُربِ مَسیحا چُھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو اُنکے در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چُھوڑ کر
مُحترم قارئین زمانے میں نوُر میرے آقا کے آجانے سے ہے۔
غُنچوں میں چٹک، کلیوں میں مہک ، ستاروں میں چمک، یہ حَسیں وادیاں، مہتاب
میں ٹھنڈک، پھلوں میں رَس، شہد میں مِٹھاس، لہلہاتے چمن، تتلیوں پہ بانکپن،
سمندر میں رنگ برنگی حسیں مچھلیاں، فضاؤں میں چہچہاتے پرندے، یہ بِہتے
جھرنے، یہ فلک بُوس پہاڑ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ حیاتِ زندگانی میں رقصاں رَنگ و
نُور کی مِحفلیں، یہ کائنات میں بکھرے حسیں مناظر، آخر کس کے لئے؟
جواب خود خدائے ذوالجلال حدیث قُدسی میں ارشاد فرما رہا ہے۔
لو لاک لما خلقتُ الافلاک
اے مِحبوب یہ بَزمِ کائنات سجائی ہے فقط تیرے لئے
آسماں کو رَنگوں سے کہکشاؤں سے سجایا ہے آپ ہی لئے
آدم سے عیسیٰ تک پیغمبر آپ ہی کی آمد کی صدا دیتے رہے
اصحاب کہف بھی گیت آپ ہی کے گاتے خوشی سے ظُلم سہتے رہے
بِلال حَبَشی بھی چہرہ پہ تیرے فِدا
صدیق بھی کاٹ ِمار ہنس کر سِہتے رہے
ہوئے دیکھ کر تجھ کو فاروق، عاشق
توعُثماں بھی زُلفوں میں کھوئے رہے
علی نے گھرانہ لُٹایا تجھی پہ
فِرشتے بھی حیرت سے تکتے رہے
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علیہمُ السلام ، و رِضوانُ اللہِ تعالیٰ
اجمعین)
مُحترم قارئین کبھی آپ نے غُور کیا شیطٰن لعین، ناپاک ،اور، مردود کیوں
ٹہرا جبکہ وہ اُستاذ الملائکہ بھی تھا اور فرشتے کامیاب کیوں ٹہرے اگرچہ وہ
طفل مکتب تھے اگر آپ غُور کریں تو جواب بُہت آسان ہے فرشتوں نے حُکمِ ربّ
عزوجل سُنا اور اطاعت میں سر جُھکا دیا اور کامران ٹہرے جبکہ
۱ شیطان کے دِل میں بُغضِ نبی تھا
۲وہ خود کو بڑا اور اعلی سمجھتا تھا۔
اور حضرت آدم علیہ السلام کا موازنہ خود سے کر رہا تھا۔
اور میں آپ کو بڑے وثوق سے کہتا ہوں آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے جب کوئی
بدبخت کسی بھی نبی علیہ السلام کے سامنے آیا ہے یا اُنہیں خود سے کمتر جانا
ہے یا اپنے جیسا سمجھا ہے وہ ذلیل و خوار ہی ہوا ہے۔ چاہے وہ نمرود ہو،
فرعون ہو، شداد ہو، قارون ہو، ہامان ہو، بلعم بن باعورا ہو، یا ابو جہل، یا
ابو لہب ہو۔
کوئی سُلطانی کے زعم میں مارا گیا تو کسی کے سر پر سرداری کا خبط سوار تھا
کوئی دولت کے نشے میں چُور تھا تو کوئی علم کا بوجھ سنبھال نہ پایا۔
لیکن کوئی بھی نبی علیہ السلام کی شان کو کم نہیں کر پایا اور کوئی کیسے
اُسکی شان گھٹا سکتا ہے جسکی شان خُدا بڑھائے (وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ
) کا سر پہ تاج سجائے۔
حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل سے
اس آیت کو دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے
ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا
جائے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ
ہے کہ اذان میں، تکبیر میں، تشہد میں، منبروں پر، خطبوں میں۔ تو اگر کوئی
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور سیّدِ عالَم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے وہ کافر
ہی رہے گا ۔ قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں
بلند کیا ہر خطیب ہر تشہد پڑھنے والا اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا
اللہُ کے ساتھ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ پکارتا ہے ۔ بعض
مفسّرین نے فرمایا کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء
سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا۔
اور آپ دیکھ لیجئے اس آیتہ مبارکہ کے نازل ہونے سے لیکر آج تک نبیِ رحمت
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زکر بڑھتا ہی جارہا ہے کل تک اگر ہزاروں ثنا
خُوان تھے تو آج یہ تعداد لاکھوں میں ہے اور انشاءَ اللہ کروڑوں تک پہنچے
گی کل تک آقا علیہ السلام کے میلادالنبی کے جلوس میں لاکھوں شریک ہوتے تھے
تُو آج کروڑوں شریک ہوتے ہیں میرے رَبّ عزوجل کا وعدہ سچا ہے یہ ذکر بڑھتا
ہی رہے گا
امام احمد رضا فرماتے ہیں
رہے گا یونہی اُنکا چرچا رہیگا
پَڑے خاک ہو جائیں جَل جانے والے
اور ایک خُوبصورت شعر ہے
صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی جنہیں سُن کے دل شاد ہوتا رہے گا
خدا اہلسنت کو آباد رکھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد ہوتا رہے
گا
آخر میں اپنے کلام سے چند اشعار پیش کررہا ہوں حُضور علیہ السلام کی شان
بیان کرنا مجھ سے کب مُمکن ہے بس اپنا حصہ ڈال دیا ہے اگر میرے آقا علیہ
السلام کو پسند آجائے تو بس زمانے میں تاجدار ہم بھی ہیں
آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم ۔ واللیل والضُحٰی ویلکم ویلکم
ہو زمیں و زماں کے مختار تُم
رب کی تخلیق میں ایک شاہکار تم
رب کے محبوب تم رب کے دِلدار تم
ہم گنہگاروں کے اک خریدار تم
عاصیوں کی صدا ویلکم ویلکم۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
کل بھی روتا تھا ابلیس اور آج بھی
اُس کے یاروں کا سینے میں گُھٹتا مے دَم
بارھویں کی مَحافِل سجاتے ہُوئے
مرحَبا کی مَچاتے ہیں جب دُھوم ہم
نعرہ َٔمرحبا ویلکم ویلکم۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
پُہنچے بُراق پہ جب کہ شاہِ زَمَن
حُور و غُلماں یہ بُولے مَنا کہ جَشَن
آگئے وہ جو باعِثِ تَخلیق ہیں
اپنے غیروں سبھی پہ جو شفیق ہیں
قُدسیوں نے کہا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
رَبّ کے پیغامِ لولاک میں ہے پِنہاں
اُس کے مِحبوب کی عَظمتُوں کے نِشاں
یہ چَمکتے سِتارے زَمیں کہکشاں
فَلک شَمسُ و قَمر اور یہ سارا زماں
آپ ہی پہ فِدا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
آپ ہی کے لئے ہے بَندھا یہ سَماں
آپ ہی کی ہے کوثر حَسِیں گُلسِتاں
مُجھکو بُلوَا لو اب تو یہاں سے وہاں
صَدقہ حَسنین کا تُم کو شاہِ زماں
ہُو قُبول اِستدعا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
عشرتِ وارثی پہ نِگاہِ کرم
کب سے بیکار بیٹھا ہے شاہِ اُمم
پھر دِکھادو اِسے اپنا سوھنا حَرم
لکھ رہا ہے ثنا اِسکا رکھنا بھرم
ہوگئی اِبتدأ ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم |