کبھی پہاڑوں سے دھول اُڑتی ہے۔
تو کبھی سمندر کی لہریں ہوا کے زور پہ ساحل سے آگے بستیوں پر قہر بن جاتی
ہیں۔ بادل گرج کر جب برس جائیں تو پانی بہا لے جاتے ہیں۔ اگرسفید روئی کی
طرح نرم حد سے گزر جائیں تو راستوں ہی میں جکڑ دیتے ہیں۔ تسکین تکلیف میں
بدل جاتی ہے۔ زندگی جو بچ جائے وہ جدا ہونے والوں کی یاد بھی بھلا دیتی ہے۔
ایک سے بڑھ کر ایک منظور نظر جب بپھر جائیں تو قیامت سے کم نہیں ہوتے۔ مگر
ایسے حسین مناظر کی تصویر کشی کرنے والے خود سے کیوں بہک جاتے ہیں۔ جن کے
دم سے رونق افروز ہیں انہیں پر آفت بن کر ٹوٹتے ہیں۔ بے ضرر دکھنے والے
خدائی طاقت کا اظہار ایسے کرتے ہیں کہ جینا بھلا دیتے ہیں۔ زمانہ قدیم کی
مدفن تہذیبوں سے ہم صرف ٹوٹے برتنوں کو ہی جوڑ پائے ہیں۔ مگر منوں مٹی کے
نیچے دبنے سے لاعلم ہیں۔ ساری بستیاں ہی زمین دوز ہوگئیں۔ صرف سخت مٹی سے
بنائی ہی خاک ہونے سے بچی رہیں۔ خاک چاٹنے والی ہر شے کو خاک نے خاک کر دیا۔
امارت رکھنے والے اپنے پیچھے کوئی ایسا نشان بھی نہ چھوڑ پائے کہ آج تاریخ
کی کتابوں میں ہی زندہ رہ جاتے۔ ان کے نزدیک زندگی کے کیا معنی تھے،
انسانیت کی کس معراج پر مقام رکھتے تھے۔ طاقت کا توازن کیسے برقرار رکھا
گیا۔ اپنی حدود کا تعین کرنے میں کیا حکمت عملی کارفرما تھی۔ قرض دینے میں
کیا شرائط طے کرتے، غلام بنانے کے لئے جبر کا کونسا ہتھیار استعمال کرتے۔
جنگ و جدل میں زندگی برباد کرتے یا تجسس و تحقیق میں توانیاں صرف کرتے رہے
وہ۔ زمین سے تو لا تعلق تھے مگر آسمانوں پر چمکتے ستاروں سے جڑے رہتے۔ کبھی
وہ سورج کو مالک کائنات سمجھ لیتے تو کبھی آگ دیوتا کا روپ دھار لیتے۔ عقل
و شعور کا جب ادراک حد سے بڑھا، تو تخیل میں پرستش عمل سے اپنے ہی ہاتھوں
سے بنائے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور معاشرتی اقدار کا من مانے طریقے
سے اظہار کرتے۔ بیٹوں کی پیدائش پر شادیانے بجاتے تو بیٹیاں عزت کے نام پر
زندہ دفن کر دیتے۔ انسان قبیلوں میں اور قبیلے طاقت کی بنیاد پر اپنے وجود
کی اہمیت کا احساس دلاتے۔ کمزوروں کو جھکنے کی عادت نے زندہ رہنے کی مہلت
دی۔ طاقتور کبھی بلا تو کبھی فنا کے اصول پر دست اندازی کرتے۔ قانون قدرت
کے بر خلاف نفس شیطان کے پیروکار رہنے میں بلند مرتبہ کی حاجت کے متمنی
رہتے۔ انقلابات زندگی نے انسان کو ہمہ گیر جہت مسلسل کی بجائے ہمگیر جہالت
کفر کے لبادے میں اوڑھا دیا۔ ترغیب و تحریص نے پامالی انسانیت کا پرچم نیزے
کی نونک پر بلند رکھا۔ اپنی گردن اکڑا کر تلوار سے دوسروں کی گردنوں کو کاٹ
کر جھکا دیا جاتا۔ بھیڑوں اور اونٹوں کی طرح منڈیوں میں غلاموں کی تجارت کا
بازار گرم رکھا جاتا۔ شہزادگی کی زندگی شکست خوردہ ہوتے ہی غلامی میں بدل
جاتی۔ فتح کے نشہ میں معافی و درگزر کا قریب سے بھی گزر نہ ہوتا۔ ایسے میں
اللہ تعالیٰ نے قبیلہ قریش میں اپنے پیغام انسانیت اور مقصد انسانی حیات کے
پہنچانے میں اپنے محبوب محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جو صادق و امین کے رتبہ
پر پہلے ہی سے فائز تھے کو غیر انسانی و غیر اخلاقی نظام ہستی کو نظام وحدت
میں پرونے کے لئے ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے
توحید کے پیغام کو معاشرے کے سدھار کے لئے پہلا راستہ اختیار کیا گیا۔ جب
خد اتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کر لیا گیا۔ تو زندگی کے تمام معاملات
کو اسی کی ذات کے ساتھ منسوب رکھنے میں ہی نجات کا راستہ دکھا دیا گیا ۔
خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا!
ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں عربی کو عجمی پر اور
عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر
تقویٰ کے سبب سے۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نےاس کو مضبوط پکڑ
لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ۔
سپیدئ اَوراق کرن سیاہ میں چھپائی
حرف علم زماں میں مفہوم ہے خدائی
چر رہ دے دل فگار کو عقل کلیم سے
نہیں مشکل کاٹ دے پہاڑ کو ایک رائی
خزانہ تو ہے مدفن یا درافتن
اتنا تو صرف ہے آدم کی پزیرائی
اس موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نےیہ بھی ارشاد فرمایا !
تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے لیکن دیگر
چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کئے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے
محفوظ رکھو!
تحریص و ترغیب تو ہے ابلیس ِادا
چھن جائے مسلم کی ایمانِ رضا
قرآن مجید اور سنت نبوی کے بعد کسی بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ مگر لفظوں
کی حقیقت، ماہیئت اور ہیئت سے الگ نقطہ نظر معنی پوشاک کر دئیے جاتے ہیں۔
صرف علمیت کو فوقیت کے درجے پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ لفظوں کو گھٹانے بڑھانے
کے عمل سے ایک الگ رویہ تلمیح اختیار کی جاتی ہے۔ مفہوم کو سمجھنے کے لئے
ذاتی علمی آراء کا اظہار پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ معنی و
مفہوم کو بھی پسند کی کسوٹی پر پڑھا جاتا ہے۔ اسی پسند نا پسند کی بنیادی
وجہ عناد نے مسلم قومیت کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔
کائنات قرون میں پھر پڑھنا سبق قرآن واللہ احد
بختاور بے کراں میں ابجو ورد ِمسلمان اللہ الصمد
خود پرستی میں مبتلا قوم عمار کھوتی رہن متاع ِمحبوب
نہیں بے سبب ارتقا ءآدم عالم ِتنہا میں جہان ِواحد
آرمیدن نستعلیق میں دستگیری تضاد قال و قول
طلوع اسلام کے پہلے پیغام و صف آرائی مسلمان کا نام احد
حسرت ِحالی پہ غالب داغ ِمیر تو درد ِاقبال
ترتیب زیاں میں نہیں بہر و بند بچتی صرف خاک لحد
آنکھ میں دیکھنا سرور تو قراری قلب میں بیقراری ہو
قلب طہور میں آتی سرور جاں پڑھتے جب کفو احد |