مثالی معاشرے کی اہم اور بے مثال
خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اسے دوسرےغیر اسلامی مشرقی اور مغربی
معاشرے سے الگ اور متمایز کردیتی ہیں یہ خصوصیات معاشرے کے تمام سیاسی،
اجتماعی، ثقافتی، معیشتی، امنیتی پہلووں سے مکمل رابطہ رکھتی ہیں اسلام کی
نظر میں جب تک ایک مثالی اور آئیڈیل سوسائٹی کے اندرایسی خصوصیات اور صفات
نہ پائی جائیں تب تک اسکے اہداف اور خلقت کے اصلی مقاصد کی دستیابی بھی
ناممکن ہے۔ اگر چہ اسلامی معاشرے کی خصوصیات میں بہت ساری صفات اور خصوصیات
کی جانب اشارہ ملتا ہے لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ اس آرٹیکل میں مثالی
معاشرے کی اہم ترین خصوصیات کو بیان کرنے پہ ہی اکتفا کریں گے۔
آزادی
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادای انسان کا پیدائشی حق ہے عصر حاضر میں جتنا
آزادی بشر کے بارے میں لکھا اور کہاجاتا ہے شاید ہی انسانی تاریخ کے کسی
اور دور میں اس سلسلے میں گفتگو ہوئی ہو اسلامی کے اس مثالی معاشرے کی سب
سے اہم اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی آزادی سے مالا مال ہے اس
میں زندگی گزارنے والے افراد اپنی ذاتی اور معنوی آزادی سے لیکر سیاسی
آزادی پر مکمل اختیار رکھتے ہیں ہماری آرزو یہی ہے کہ اس معاشرے کے سارے
افراد کے اندر اپنے آپ کو ہر طرح کے قید و بند سے آزاد سمجھنے کا شعور
اور سلیقہ پیدا ہوجائے نہ یہ کہ آزادی کو حکمران کی جانب سے لایا ہوا ایک
تحفہ سمجھا جائے ۔ شہید مطہری فرماتے ہیں:سیاسی اور اجتماعی آزادی تک
پہنچنے کے لئے معنوی آزادی بھی ضروری ہے یعنی انسان اپنی قید اوراسارت سے
بھی آزاد ہوجائے۔ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس حقیقت کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً َ) ”کسی کا غلام
مت بنو کیونکہ خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے“
آپ سخت اور دشوارترین حالات میں بھی لوگوں کے اس ذاتی حق کا بھرپور خیال
رکھتے تھےچنانچہ جب سہل بن حنیف نے مدینہ میں معاویہ کے ساتھ لوگوں کی
ملاقات کی شکایت کی، آپ نے فرمایا:
(فَلاَ تَأْسَفْ عَلَى مَا يَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِهِمْ، وَيَذْهَبُ عَنْكَ
مِنْ مَدَدِهِمْ، فَكَفى لَهُمْ غَيّاً وَلَكَ مِنْهُمْ شَافِياً،
فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدَى والْحَقِّ، وَإِيضَاعُهُمْ إِلَى الْعَمَى
وَالْجَهْلِ)”خبردار تم اس عدد کے کم ہوجانے اور اس طاقت کے چلے جانے پر
ہرگز افسوس نہ کرنا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور تمہارے سکون نفس کے لئے یہی
کافی ہے کہ وہ لوگ حق و ہدایت سے بھاگے ہیں اور گمراہی اور جہالت کی طرف
دوڑپڑے ہیں“
اسی طرح حکمیت کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہونے پر فرمایا:
(وَلَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!) ”میں تمہیں کسی
ایسی چیز پر آمادہ نہیں کرسکتا جو تمہیں ناگوار اور ناپسند ہو“
سیاسی امور میں آزادی کے حوالے سے لوگوں کا سب سے اہم حق، انتخاب کا حق
ہوتا ہے یہ بات طلحہ اور زبیر کو لکھے گئے ایک خط سے روشن ہو جاتی ہے کہ
امام علی علیہ السلام نے اس حوالے سے بھی لوگوں کومکمل آزادی دے رکھی تھی
۔
(أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي، وَلَمْ أُبَايِعْهُمْ
حَتَّى بَايَعُونِي، وَإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وَبَايَعَنِي،
وَإِنَّ العَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَان غَاصِب، وَلاَ لِعَرَض
حَاضِر) ”میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور
میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ
ظاہر نہیں کیا ہے تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے سے
چاہاتھا اور میری بیعت کی تھی اور عام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت
کے رعب و دبدبہ سے کی ہے اور نہ کسی مال و دنیا کی لالچ میں کی ہے“
یعنی لوگ ہر طرح سے آزاد تھے کسی مجبوری یا جبر و زیادتی کی وجہ سے میری
بیعت نہیں کی گئی اسی طرح اھل کوفہ کو ایک خط لکھتے ہوئے لوگوں کے آزاد
اور مختار ہونے کی جانب اشارہ فرماتے ہیں:
(بَايَعَنِي اَلنَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ وَ لاَ مُجْبَرِينَ بَلْ
طَائِعِينَ مُخَيَّرِين ) ”لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا
اور نہ زبردستی و نا پسندیدگی ، بلکہ سب کے سب اطاعت گذار اور مختار تھے “
پس ان اقوال کی روشنی میں یہ بات ہمارے لئے روشن ہوجاتی ہےکہ امام علی علیہ
السلام کا معاشرہ آزاد معاشره ہےیہاں اپنی ذاتی اور معنوی آزادی سے لیکر
سیاسی امور کی آزادی کا پوراخیال رکھاجائے تو جس مثالی معاشرے میں آزاد
نسل پروان چڑھے وہاں غلامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جاری ہے
|